|

وقتِ اشاعت :   November 18 – 2023

لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر، واٹر اینڈ میرین سائنسز اوتھل اس وقت میدان جنگ میں تبدیل ہوگئی جب پولیس نے یونیورسٹی میں بلوچ طلبا کے احتجاجی کیمپ پر دھاوا بول دیا۔ 16 نومبر 2023 کی رات کو طلبا پر بدترین تشدد کیا گیا۔

سوشل میڈیا پر جاری ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے پولیس نے طلبا پربربریت و جبر کا نیا ریکارڈ قائم کردیا۔ ان پر شیلنگ اورفائرنگ کی گئی۔ جس سے متعدد طلبا زخمی ہوگئے جنہیں اسپتال منتقل کردیا گیا جبکہ پچاس کے قریب طلبا کو حراست میں لے کر لاک اپ کردیا گیا۔ تشدد کے خلاف دوسرے دن طلبا کا احتجاج جاری تھا کہ یونیورسٹی کے احاطے میں ایک طالب علم سمیر بلوچ کو اغوا کرلیا گیا۔ اس جبری گمشدگی سے طلبا عدم تحفظ کا شکار ہوگئے اور طلبا نے اغوا ہونے والے طالب علم کی جان کو خطرہ لاحق ہونے پر تشویش کا اظہار کیاہے۔

طالب علم سمیر بلوچ کی عدم بازیابی کے خلاف سخت احتجاج بھی کیا گیا۔
طلبا اپنے جائز مطالبات کے لیے احتجاج کر رہے تھے جن میں یونیورسٹی کی جانب سے اضافی فیسوں کی واپسی،

اسٹڈی ٹور نہ کرانے، ہاسٹل میں سہولیات کی فراہمی سمیت دیگر مطالبات شامل تھے۔
جبکہ دوسری جانب رجسٹرارنے لسبیلہ یونیورسٹی کو ایک ماہ کے لئے بند کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ تدریسی عمل کو معطل کرنے کو طلبا نے مسترد کیا اور کہا کہ تدریسی عمل کی معطلی تعلیم دشمن عمل ہے۔
طلبا پر پولیس تشدد بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل گروپ) کے مرکزی نائب صدر اور موجودہ بلوچستان کے گورنر عبدالولی کاکڑ کے دورے کے بعد شروع ہوا۔

گورنر کے دورے سے قبل یونیورسٹی انتظامیہ نے طلبا کے تمام مذکورہ مطالبات تسلیم کئے تھے جس پر طلبا نے گورنر کے دورے سے قبل اپنا احتجاج معطل کردیا تھا۔.

گورنر کے دورے کے بعد طلبا کو بتایاگیا کہ ان کے مطالبات کوگورنر بلوچستان نے مسترد کردیا ہے جس پر طلبا نے اپنے جائز مطالبات کے حق میں احتجاج دوبارہ جاری رکھا۔ پرامن احتجاج کو کچلنے کے لئے یونیورسٹی کی انتظامیہ نے پولیس کی مدد حاصل کی۔ اور نہتے طلبا و طالبات پر لاٹھی چارج اور شیلنگ کیا گیا جس کے بعد یونیورسٹی میدان میں جنگ بن گئی۔بلوچستان کی تمام یونیورسٹیوں کا سربراہ (چانسلر) صوبے کا گورنر ہوتا ہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل گروپ) جیسی جماعتیں جو قوم پرستی کا دعویٰ کرتی ہیں ان کے لئے یہ تشدد کا عمل ایک سوالیہ نشان ہے۔ نگران حکومت کے وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ سے کیا گلہ و شکوہ کرنا ہے۔ وہ تو واجہ کاروں (بڑی سرکار) کے لائے گئے بندے ہیں۔ کم از کم بی این پی سے تعلق رکھنے والے گورنر کو طلبا کے جائز مطالبات سے کیا پریشانی ہے۔
احتجاج کرنا ہر انسان کا حق ہے جس کی اجازت عَملاً ملکی آئین و قانون دیتا ہے۔ پرامن احتجاج پر پولیس کی غنڈہ گردی کا مطلب کیا ہے؟۔

وہ چاہتے کیا ہیں؟۔ آج کا طالب علم ہمارا کل کا مستقبل ہے، ان کے مستقبل کے ساتھ کھیلنا کہاں کا انصاف ہے؟ بھاری فیسیں طلبا کہاں سے دے سکتے ہیں؟۔ غریب خاندانوں سے تعلق رکھنے والے طلبا بھاری فیس کیسے ادا کرسکتے ہیں؟۔ اگر ان کے پاس پیسے ہوتے تو وہ کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور کی نجی یونیورسٹیوں میں پڑھتے۔ تنگ دستی کی وجہ سے وہ اوتھل جیسی یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں۔ دراصل غریبی یہاں ایک جرم ہے۔

جس کی سزا انہیں تشدد کی شکل میں مل رہی ہے۔ بلوچستان میں تعلیمی معیار کو بہتر اور ناخواندگی کے خاتمے کے لئے فری ایجوکیشن صوبہ قراردینا چاہیئے کیونکہ بلوچستان میں 36لاکھ بچوں میں سے صرف 13لاکھ بچے اسکول جاتے ہیں۔ بلوچستان کے لئے ایک اسپیشل پیکج کی ضرورت ہے۔ کالج سے لیکر یونیورسٹی تک فیس کا خاتمہ کیا جائے تاکہ تعلیمی شعبے میں بلوچستان دیگر صوبوں کے برابر ہوسکے۔


بلوچستان کی دیگر یونیورسٹیوں میں بھی طلبا کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اکتوبر 2023 کے آخری ہفتے کو تربت یونیورسٹی انتظامیہ نے مرکزی گیٹ پر بْک اسٹال قائم کرنے سے طلبا کو روکا۔ عجیب بات ہے یونیورسٹیوں کو کتاب سے کس بات کا خوف ہے؟۔ کیا یونیورسٹیوں میں منشیات لائی جائے؟ کیا یونیورسٹیوں میں اسلحہ کی نمائش کی جائے؟

لازمی بات ہے یونیورسٹیاں کتاب کے لئے بنائی گئیں ہیں نہ کہ منشیات اڈوں اور اسلحہ خانے کے لئے قائم کی گئی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یونیورسٹیاں چھاؤنیوں میں تبدیل ہوگئی ہیں جہاں کتاب پڑھنا بھی ایک جرم ہے۔

اگر ایسی بات ہے تو لاہور، اسلام آباد اور دیگر بڑے شہروں میں کتاب میلے کیوں لگتے ہیں؟ ایک ملک میں متوازی قانون کیوں قائم ہے؟ بلوچستان کے لئے الگ قانون اور پنجاب کے لئے الگ قانون بنایا گیا ہے۔


بات یہاں ختم نہیں ہوتی ہے۔ نومبر 2023 کے تیسرے ہفتے میں بلوچستان یونیورسٹی براہوئی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ کو تربت یونیورسٹی میں داخل ہونے سے روک دیا جاتا ہے۔ طلبا کی جانب سے پروفیسر منظور احمد بلوچ کو جامعہ تربت میں ایک لیکچر پروگرام میں شرکت کرنے کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔ ایک یونیورسٹی کو ایک پروفیسر سے ڈر کیوں پیدا ہوا؟ یونیورسٹی میں ایک پروفیسر کیوں نہیں آسکتا؟ اسی یونیورسٹی میں کرپٹ وزراء، پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے افسران آسکتے ہیں مگر ایک استاد نہیں آسکتا۔ واہ رے واہ! یہاں کونسا نظام قائم ہے؟

۔
پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ کو راقم ذاتی طورپر اچھی طرح جانتا ہے۔

وہ میرے پرانے دوست بھی ہیں۔ وہ پروفیسر ہونے سے قبل کوئٹہ میں ایک باصلاحیت صحافی تھے۔ اس نے ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد بطور صحافی پیشہ وارانہ سرگرمیاں انجام دیتے رہے۔ انہوں نے صحافت میں کم وقت میں اپنا ایک الگ مقام بنالیا۔ جب بلوچستان میں سردار اختر مینگل وزیراعلیٰ بلوچستان بنے تو اس زمانے میں منظور بلوچ اور میں ایک ہی اخبار یعنی روزنامہ رہبر سے منسلک تھے۔ دونوں میں فرق اتنا تھا کہ وہ کوئٹہ میں رپورٹنگ کرتے تھے اور میں کراچی میں بیک وقت تین اداروں کے لئے کام کرتا تھا۔

جن میں روزنامہ رہبر اور ہفتہ روزہ تکبیر اور ہفتہ روزہ غازی شامل تھے۔ کوئٹہ میں منظور بلوچ اور کاظم مینگل کی جوڑی تھی۔ اس زمانے میں کاظم مینگل بی بی سی سے منسلک نہیں تھے بلکہ وہ روزنامہ جسارت کراچی کے لئے کام کرتے تھے۔ کاظم مینگل ایک دلیر انسان اور نڈر صحافی ہیں۔ اختر مینگل کی حکومت، منظور بلوچ اور کاظم مینگل کی رپورٹنگ سے کافی نالاں تھی۔ اس زمانے میں اختر مینگل کی حکومت روزنامہ انتخاب سے بھی ناخوش تھی جس کے باعث مینگل حکومت نے روزنامہ انتخاب کے سرکاری اشتہارات بند کردیے تھے

جبکہ باقی تمام غیر بلوچ اخبارات کو سرکاری اشتہارات سے نوازا گیا جس پر روزنامہ انتخاب کے ایڈیٹر انور ساجدی صاحب روزانہ کی بنیاد پر اخبار کے فرنٹ پیج پر اشتہارات کی بندش کے خلاف ایک احتجاجی اشتہار شائع کرتے تھے۔ ساجدی صاحب بندش کے دن گنتے تھے اور اسی اشتہار میں اتنے دن گزر گئے والی خبر کی اشاعت کرتے تھے۔

ساجدی صاحب ایک نڈر اور باصلاحیت قلم کار اور لکھاری ہیں۔ ان کی صحافت میں مزاحمت جھلکتا ہے جس کی وجہ سے ہردور کی حکومت ان سے ناراض ہوجاتی ہے۔
28 مئی 1998 کو بلوچستان کے ضلع چاغی کے مقام پر پانچ ایٹمی دھماکے کیے گئے۔ یہ جوہری تجربہ راسکوہ کی پہاڑیوں میں کیا گیا۔ ایٹمی دھماکہ کرنے کے بعد راسکوہ کے باسیوں کو ایٹمی تابکاری کا سامنا کرنا پڑا۔ آج بھی تابکاری جیسی صورتحال اپنی جگہ موجود ہے۔ دھماکے کے بعد اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف بلوچستان تشریف لائے اور اختر مینگل نے ان کا استقبال کیا

اور ان کے ساتھ راس کوہ کی جانب روانہ ہوگئے جہاں فتح کا جشن منایا گیا۔ بہرحال اختر مینگل کی حکومت اپنی مدت پوری نہ کرپائی۔ 22 فروری 1997 کو ان کی حکومت بنی۔

15 جون 1998 کو اس حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ ظاہری بات ہے ہر عروج کا ایک زوال ہوتا ہے۔ اور نیک نامی اور بد نامی کے کارنامے تاریخ کا حصہ ہوتے ہیں۔ اور تاریخی اپنے آپ کو دھراتی ہے۔ اور موجودہ دور کے حکمران بھی ہوش کے ناخن لیں، ان کا زوال بھی قریب ہے۔