نوشکی سے واپسی میں تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے کی ڈرائیو کر کے یارجان بادینی نے ہمیں کوئٹہ کے مصروف جناح روڈ کی حدود تک پہنچایا تو خواہش ہماری یہی تھی کہ ہمیں وہ الوداع کہیں اور اپنے گھر جائیں لیکن جناب! وہ اپنے گھر ضرور گئے مگر ہمیں ساتھ لے گئے اور “شارٹ نوٹس” پر پرتکلف ڈنر سے ہماری تواضع کرکے ہی چھوڑا۔ ہم تو دور دور تک شمار میں نہیں آتے لیکن بہت کم ان جیسے لوگ باقی رہ گئے ہیں جن کی مہمان نوازی کی استقامت (stamina) پر ہمیں رشک آتا ہے۔
13 نومبر کو کوئٹہ پریس کلب کی انتظامیہ نے “کراچی والوں” کے اعزاز میں ایک شام منانے کا عندیہ ہمیں دیا۔ ان کی فراخدلی اور وسیع القلبی کے تو ہم پہلے سے ہی معترف تھے اب جو یہ دعوت ملی تو یقین آیا کہ کوئٹہ کی ہوائیں سرد ضرور ہیں لیکن یہاں کے لوگوں کے دلوں میں مہرومحبت کی گرمی کبھی تھمنے کا نام نہیں لیتی۔ شام میں ابھی کافی دیر تھی جبکہ یہ ہماری غیرمعمولی “مصروفیت” کا دن تھا۔
ہمارے ہاں کراچی پریس کلب کے بالکل سامنے کی معروف سڑک تاریخی طور پر باضابطہ طور پر ایک “ہائیڈ پارک” کی صورت اختیار کرچکی ہے جہاں طلباء، مزدور، ٹیچرز، لوئرمیڈیکل اسٹاف، اقلیتی طبقے غرض ہر شعبہ زندگی کے ستم زدہ لوگ ٹولیوں کی شکل میں یہاں آکر اپنے مطالبات کے حق میں نعرے لگاتے ہیں اور پھر ان کے قائدین پرجوش نعروں کی گونج میں حکومت وقت کو للکار کر دل کی بھڑاس نکالتے رہتے ہیں۔ ان کے مطالبات تسلیم ہوں یا نہ ہوں مگر ان کی آواز پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے متعلقہ حکام اور عوام تک پہنچ ہی جاتی ہے۔
تقریباً یہی ماحول کوئٹہ پریس کلب کے سامنے والی سڑک پر ہم نے پایا۔ اس دن تندور والے جنہوں نے شہر میں ہڑتال کی ہوئی تھی وہاں جمع ہوکر اپنے مطالبات کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ ذرا آگے چل کر دیکھا اسی سڑک پر ایک ٹینٹ میں بے شمار گمشدہ مرد و خواتین کی رنگین تصویریں آویزاں کی ہوئی ہیں۔ یہ شہدائے بلوچستان کا “ماما قدیر کیمپ” کہلاتا ہے جہاں ماما قدیر کئی سالوں سے بیٹھے خاموش احتجاج کی علامت بن چکے ہیں۔ روزانہ کافی لوگ ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ اسی دن ہم کراچی والوں نے بھی یہ فریضہ انجام دیا۔
دوپہر کو آصف ہمیں “لنچ سیشن” (یہ اصطلاح ان کی زبانی پہلی بار سنا) پٹیل ہاؤسنگ سوسائٹی لے گئے جہاں دو پلاٹس پر ان کا خوبصورت مکان اور ان کے دونوں اخبارات کا دفتر بنا ہوا ہے جس میں مرحوم صدیق بلوچ صاحب کے چار بیٹے یعنی آصف، طارق، ظفر اور صادق رہائش پذیر ہیں۔ یہ چاروں بھائیExpress Balochistan Dailyاور روزنامہ “آزادی” میں مختلف انتظامی اور پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہیں جبکہ ان کا بڑا بھائی عارف بلوچ کراچی اور اسلام آباد میں ان اخبارات کی نمائندگی کرتے ہیں۔
ہم نے دونوں اخبارات کے مختلف شعبے منظم اور جدید مشینری سے لیس پائے۔ ایک اہم بات یہ نظر آئی کہ استاد صدیق بلوچ مرحوم اپنے کمرے میں جس سیٹ پر بیٹھتے تھے ان کی وفات کے بعد احتراماً وہاں آج تک کوئی اور نہیں بیٹھا۔ غالباً ان کے بچے یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ عظیم باپ کی جگہ کوئی اور نہیں لے سکتا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ بڑے لوگ اپنے پیچھے خلا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ صدیق صاحب کے کمرے سے باہر نکلے تو بلوچی اکیڈمی کے چیئرمین سنگت رفیق سامنے آتے ہوئے نظر آئے اور چند لمحوں بعد ہمیں پتہ چل گیا کہ یہ “لنچ سیشن” کیا چیز ہوتی ہے۔
روزنامہ “آزادی” کوئٹہ کا بلوچی زبان میں آزادی نیوز ساچینک ویڈیو چینل بھی ہے جو انٹرنیشنل خصوصاً مڈل ایسٹ رینج پر ہے۔ سنگت رفیق اس کے معروف اینکر ہیں اور ان کے پروگرامز میں ہر شعبہ زندگی کے اہم افراد کے علاوہ ادب و زبان سے متعلق معقول اور قابل ذکر شخصیات کو بیسمنٹ اسٹوڈیو میں مدعو کیا جاتا ہے جہاں مختلف موضوعات پر بات چیت ریکارڈ ہوتی ہے۔ بات چیت تو سنگت رفیق نے مہارت کے ساتھ کراچی میں بلوچ سیاست، ادب، ثقافت اور بی ایس او (سردار اور اینٹی سردار) کے موضوعات پر عیسیٰ بلوچ اور ہم سے بھی کی لیکن جو معاملہ آخر تک نہ سلجھ سکا وہ یہ تھا کہ عیسیٰ بلوچ تو نہیں مگر ہم کیسے “اہم”۔ “معقول” اور “قابل ذکر” شخصیات کی فہرست میں آگئے!
شام ہونے والی تھی اور ہمیں پریس کلب پہنچنا تھا لیکن اس سے پہلے حال ہی میں وفات پانے والے بلوچی زبان کے مشہور ادیب و صحافی اور تین مرتبہ بلوچی اکیڈمی کے منتخب چیئرمین واجہ عبدالواحد بندیگ کے گھر جاکر ان کے صاحبزادے شیہک سے تعزیت کی۔
کوئٹہ پریس کلب کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ 1973 میں دو کمرے کی ایک عمارت تھی جب غوث بخش رئیسانی صاحب بلوچستان کے گورنر تھے۔ آج وسیع رقبہ پر اس کلب کی تین منزلہ عمارت کوئٹہ کے جدید اور خوبصورت عمارتوں میں شامل ہے جو 2005 میں وزیراعلیٰ جام یوسف کے دور میں تعمیر ہوئی۔ اس میں تین عام کانفرنس ہالز، ایک وسیع پریس کانفرنس ہال اور اوپری حصے میں مہمانوں کے لئے رہائشی کوارٹرز ہیں۔ جیم کی سہولتیں بھی یہاں موجود ہیں۔ پریس کلب کے موجودہ منتخب صدر عبدالخالق رند اور بنارس خان جنرل سیکریٹری ہیں۔ یہ صدر صاحب کا کشادہ کمرہ نمبر 22 تھا جہاں 13 نومبر کو صحافی برادری نے ہمارے ساتھ شام منانے کا پروگرام بنایا تھا۔
صدر عبدالخالق رند نے اپنے کمرے میں ہمیں خوش آمدید کہا۔ وہاں موجود کچھ چہرے شناسا ضرور تھے مگر رسمی ماحول برقرار رہا۔ ابتدا میں باہمی تعارف کے بعد دونوں طرف سے محتاط اور سنبھل سنبھل کر باتوں کا سلسلہ آگے بڑھا۔ اس دوران ایک دوسرے کو تجسس اور استعجابی نظروں سے دیکھا گیا۔ جب ایک دوسرے کے (کتابی) چہرے اچھی طرح “پڑھ” لئے گئے اور ہمارے ساتھی عیسیٰ بلوچ نے اپنے شعری مجموعے “افتادِ زمین” سے ایک نثری نظم سنائی۔ نوجوان اصغر لعل نے اپنے نئے افسانہ کی اطلاح دی اور ہم نے کراچی کے “غیر یقینی” موسم کا حال بتایا تو بادل چھٹنے میں دیر نہیں لگی جس سے یہ نشست غیر رسمی اور ماحول بے تکلفانہ شکل اختیار کر گیا۔
میزبان خاص تو عبدالخالق رند اور بنارس خان ہی تھے جبکہ ان کے دیگر ساتھی سینئیر صحافی شہزادہ ذوالفقار (سابقہ AFP چیف اور حالیہ اینکر “پی ٹی وی”)۔،رضا الرحمٰن (بیوروچیف “ایکسپریس”)، سلیم شاہد (DAWN)، رشید بلوچ (جی این این)، آصف بلوچ (روزنامہ آزادی) اور ظفر بلوچ ( Express Balochistan) وہاں موجود تھے جن سے کافی گپ شپ ہوئی۔ ہمیں بتایا گیا کچھ اور صحافی کوئٹہ میں اقتدار کے ایوانوں میں “سیاسی ہلچل” کور کرنے میں مصروفیت کی وجہ سے نہیں آسکے۔ بہرحال ان سب کی غیرمعمولی میزبانی کا ہم نے شکریہ ادا کیا۔ باہر نکلے تو ہم سمجھ بیٹھے کہ پریس کلب کے دوستوں سے یہ ہمارا الوداعی رابطہ تھا لیکن ابھی “فلم باقی” تھی!
14 نومبر کو یارجان بادینی نے فون کیا کہ رات 8 سے 9 بجے پی ٹی وی بولان کے ایک لائیو بلوچی زبان کے پروگرام میں ہمیں شریک ہونا ہے۔ ساڑھے سات بجے اس پروگرام کے خوبرو اور شائستہ نوجوان اینکر وحید بلوچ پی ٹی وی کی گاڑی میں ہمیں اسٹوڈیو لے گئے جہاں کئی سال پہلے ٹی وی ایکٹرز ایوب کھوسو اور سرفراز بلوچ سے ملاقات کی یاد تازہ ہوئی۔ بہرکیف پی ٹی وی بولان کا پروگرام اچھا رہا جس میں کراچی اور خاص طور پر لیاری کی بلوچ آبادی میں سوچ و فکر، علم و آگاہی اور ادبی صورتحال کو ماضی، حال اور مستقبل کے آئینے میں جھانکا گیا۔ ساتھیوں عیسیٰ بلوچ اور اصغر لال نے بہتر طریقے سے اس منظر نامہ کو خوبصورتی سے واضح کیا جبکہ وحید بلوچ کی “خوش گپی” اور پرکشش انداز نے مزید رنگ بکھیرے۔ اسٹوڈیو سے نکلے تو “ناکو گوریچ” نے ہمیں آ دبوچھا! سردی کی کپکپاہٹ میں ہم اپنے ٹھکانے پہنچ گئے۔
15 نومبر کو ہم استاد ڈاکٹر شاہ محمد مری کے پاس الوداعی سلام کے لئے گئے کیونکہ دوسرے دن ہمیں کراچی روانہ ہونا تھا۔ ڈاکٹر صاحب سے گپ شپ جاری تھی کہ ہمیں ایک فون آیا کہ “اب تک ہو یا گئے!” (اس جملہ کے آپ کچھ بھی معنی نکال سکتے ہیں!) تھوڑی دیر بعد وہ فون والے صاحب وہیں پر آگئے اور ہماری نا۔۔۔۔نا کے باوجود وہ بضد رہے اور آخر اسی دن شام کو وہ ہمیں “بک” کرکے ہی اٹھے۔ ہم حیرت میں غلطاں کہ آخر مہرومحبت کے یہ سلسلے یہاں موسم کی طرح ٹھنڈے کیوں نہیں پڑجاتے۔
اکبر نوتیزئی بہت ہی زیادہ خوش اخلاق، مہذب اور ذہین نوجوان صحافی ہیں۔ انگریزی اخبار ڈیلی ڈان کے سنڈے ایڈیشن میں ایک ریگولر فیچر رائٹر ہیں۔ بلوچستان کے سرحدی علاقے دالبندین کے “پیداوار” ہیں مگر ہیڈکوارٹر کوئٹہ میں رہائش پذیر ہیں۔ وجہ ہمیں نہیں معلوم مگر جب بھی ملاقات ہو یا فون پر بات ہوتی ہو تو ان کی جانب سے ہمارے لئے عزت و احترام کا پہلو کچھ زیادہ نمایاں ہوجاتا ہے۔ جب ہمارا پروگرام کوئٹہ کا بن رہا تھا تو ہم نے ایک اور صرف ایک فون اکبر نوتیزئی کو کیا تھا۔ پتہ چلا وہ اسلام آباد میں کسی اسائنمنٹ پر گئے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری کے کلینک میں جو فون آیا وہ فون والے صاحب اکبر نوتیزئی ہی تھے جنہوں نے شام کی محفل پریس کلب ہی میں چند دیگر صحافی دوستوں کے سنگ سجانے کے پروگرام پر ہمیں راضی کیا تھا۔
پریس کلب کے صدر کے کمرے میں اکبر کی میزبانی میں ہماری آخری شام (کوئٹہ میں) جو گزری وہ بہت ہی زیادہ پرلطف اور یادگار ثابت ہوئی۔ ایک تو اس شام موسم بھی بھیگا بھیگا سا تھا اور پھر محفل میں موجود صحافی دوستوں کے ساتھ تکلف کا پردہ بھی ہٹ چکا تھا اس لئے بہت ہی دوستانہ اور آزادانہ ماحول میں مختلف موضاعات اور ملکی صورتحال پر باتیں ہوتی رہیں۔
صحافی حضرات چونکہ “اندرکی خبر” بھی خوب رکھتے ہیں اس لئے اس نشست میں انہوں نے بعض معاملات میں ملک (یا صوبہ) چلانے والوں کے ظاہری اور اصلی چہروں کو بے نقاب کرکے ہمیں حیرت زدہ کرتے رہے۔ اتفاق سے اس “بھیگی شام” کے صحافی دوست عرفان سعید (بیورو چیف “دنیا” ٹی وی)، ایوب ترین (” ہم” ٹی وی) اور جلال نورزئی (“سما” ٹی وی) پہلے والی بیٹھک میں پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے سبب نہیں آسکے تھے لیکن یہ بھی پہلے والوں کی طرح بہت ہی سمجھدار اور پیارے لوگ تھے جن کے ساتھ گزارا ایک ایک لمحہ ہماری یاد کا حصہ بن چکا ہے۔
دوسرے دن علی الصبح ہم کوئٹہ سے بہت ساری خوشگوار یادوں کو لے کر کراچی روانہ ہوگئے اس یقین کے ساتھ کہ ضرور دوبارہ ایسی ہی مہرومحبت کی محفلیں پھر سجیں گی اور خوشیاں بانٹنے کا یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔ختم شد