|

وقتِ اشاعت :   November 23 – 2023

اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ ایک مکان کی بنیاد سیدھی اور مضبوط نہ ہو تو اْس کو منہدم کیئے بغیر مستقل قائم و دائم رکھنا

نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہوتاہے۔یہ کہاوت کسی بھی مادی وجود پر صادق آتی ہے مگر یہاں پر ہم کوشش کریں گے کہ اس کو پاکستان میں جمہوری نظام حکومت کے قیام اور دوام کے سامنے حائل رکاوٹوں کیساتھ جوڑ کر دیکھیں اس مقصد کے لیئے ضروری ہے کہ اْس پارٹی کی قیادت کی سوچ اور اہداف (جنہوں نے قیام پاکستان کے لیئے ایک دو قرار داد، چند نکات اور مخصوص مطالبات مرتب کر کے پیش کیے، اْن کے حصول کی خاطر مصالحتی کوششوں کو ٹْھکراتے رہے اور پْر زور آواز بلند کرتے رہے جو قائدین کی تمام تر جدوجہد تھی، قدرت کی دیدہ، نادیدہ تعاون اور رہنمائی کے باعث کامیاب ہو گئے) کو دیکھا جائے،

تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسلم لیگی قائدین سماجی معاملات پر اگر سیکولر اور جمہوری نقطہ نگاہ رکھتے تو ہندو اور مسلم کو دو مختلف اقوام قرار دے کر مذہبی بنیادوں پر دو قومی نظریئے کو کبھی بھی سیاست کا منبع اور محور نہ بناتے اور نہ ہی پاکستان کا قیام مذہب کی بنیاد پر لاتے حالانکہ اس مقصد کے حصول کے لیے کئی دوسرے اور نسبتاً معقول جواز موجود بھی تھے

مگر مسلم لیگی قیادت نے دو قومی نظریہ کو دیگر تمام تر تضادات پر فوقیت دی اور اس کی بنیاد پر اپنی سیاست کو استوار کرنا مناسب سمجھا۔دانشور لوگ کہتے ہیں کہ اس دنیا میں اسرائیل اور پاکستان صرف دو ہی ممالک موجود ہیں جن کی تشکیل میں مذہب کا عنصر غالب ہے اس لیے ہم پاکستان میں مذہبی رجحانات، گروہوں اور پارٹیوں کو انتہائی مضبوط شکل میں دیکھ سکتے ہیں جن کی جڑیں عوام کے اندر گہرائی تک پیوست ہیں یا نہیں؟

یہ ایک الگ سوال ہے مگر یہ ضرور ہے کہ مذہبی پارٹیاں انتہائی منظم، مضبوط اور متحرک ” فورس ” رکھتی ہیں اس کی بنیادی اور اہم ترین وجہ یہی ہے کہ ملک کی تشکیل مذہبی منافرت کی بنیاد پر ہو چکی ہے لہٰذا عوام کے رگِ خون میں مذہب جنونیت کی حد تک شامل ہے

اور مذہبی عناصر سے پاکستان کے طاقتور ترین لوگ جو ” شوکو” کی طرح ”قانون، مانون“ نہیں مانتے، نہ کسی کے سامنے جواب دہ ہیں، خوف کھاتے اور نہ ہی کسی کو کھاتے میں شمار کرتے ہیں، یہ سرِ بازار قتل بھی کریں تو چرچا نہیں ہوتا! اِس قسم کے لوگ بھی مذہبی جماعتوں اور شخصیات سے ڈرتے ہیں اس سلسلے میِں رپورٹس موجود ہیں

کہ ایک بہت بڑے اور با اختیار شخصیت پر مخالفین نے جب قادیانی ہونے کا الزام لگا یا تو وہ بیچارہ جب تک منصب پر رہا، جمعہ کے روز لگاتار گھر پر قرآن شریف کی تلاوت کا بندوبست کرتا رہا تاکہ ثابت کرسکے

کہ وہ قادیانی نہیں ہے۔ اب تو وہ خیراس قبیل کے دیگر سینکڑوں باضمیروفادار فراریوں کی طرح ارب/ کھرب پتی بن کر پاکستان کو خدا حافظ کہہ کر بدیس سدھار چکے ہیں لیکن ممکن ہے کہ پاکستان میں صاحب کے گھر یا مکان پر اب بھی وہ سلسلہ جاری ہو۔ اس سے بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں مذہبی عناصر کس حد تک مضبوط ہیں اور اس آڑ میں کیا کیا کرسکتے ہیں!


اب آئیے پارلیمانی جمہوری طرزِ حکومت اور سیاست پرایک نظر ڈالتے ہیں اس کی پرورش میں جمود کے سوال کو دانشور لوگ قیام پاکستان کیساتھ جوڑ کر دیکھتے ہیں اب دیکھیئے کہ تقسیم کے وقت پاکستان اور ہندوستان کے قائدین میں سے جواہر لال نہرو نے وزیر اعظم بننے کو ترجیح دی جن کے پاس ملک چلانے کے قانونی اختیارات تھے جبکہ محمد علی جناح نے انتخابات کے جھنجھٹ سے بچنے کے لیے گورنر جنرل بننا پسند کیا جو قانونی طور پر کوئی اختیارات تو بہرحال نہیں رکھتے تھے مگروہ گورنر جنرل بن کر قانونی اور آئینی اختیارات کی

عدم موجودگی کے باوجود وزیر اعظم کے اختیارات استعمال کرتے رہے۔ وہ کابینہ کے رکن نہیں تھے مگر پھر بھی کابینہ کے اجلاسوں کی صدارت کرتے اور ہدایات دیتے رہے۔ آزادی کے سات/ آٹھ روز بعد 22 اگست 1947ء کو محمدعلی جناح نے موجودہ کے پی کے اور ماضی کے ”صوبہ سرحد“ کے منتخب صوبائی حکومت کو برخاست کر دیا اور عبدالقیوم خان کی سربراہی میں عوام پر ایک غیر نمائندہ حکومت مسلط کر دی۔اس کے بعد محمد علی جناح نے 26 اپریل 1948ء کو ایوب کھوڑو کی سربراہی میں قائم سندھ کے منتخب صوبائی حکومت کو بھی برخاست کر دیا۔
”سرحد“ کے ڈاکٹر خان عبدالجبار خان پر الزام تھا کہ ” خدائی خدمتگار ” ہونے کے ناطے وہ کانگریس کے فکر و فلسفے سے متاثر ہیں جبکہ ایوب کھوڑو اور سندھ کے منتخب حکومت نے اوّل تو کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں میں مہاجرین کی آبادکاری اور پھر کراچی کو سندھ سے کاٹ کر وفاقی دارالخلافہ بنانے کی مخالفت کی تھی۔

ایوب کھوڑو کو اس پر توہرگز اعتراض نہیں تھا کہ کراچی وفاقی دارالخلافہ نہ بنے بلکہ انکا مطالبہ تھا کہ کراچی وفاق اور سندھ دونوں کا دارالخلافہ بن جائے جبکہ وفاق کراچی کو سندھ سے کاٹ کر الگ کر دینا چاہتا تھا۔ بر طرفی کے بعد مقتدرہ نے ثبوت اور جواز نہ ملنے پر ایک ٹائپ رائیٹر کی چوری پر ایوب کھوڑو کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا اور ڈھائی سال تک جیل میں ڈالے رکھا۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہندوستان کی سیکولر قیادت نے ابتدا ہی سے پارلیمانی جمہوری طرزِ حکومت کا انتخاب کیا جبکہ پاکستان نے ان سے الگ ایک اور طرز پر چلنا شروع کردیا۔ ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی نے جنوری 1948ء تک ملک کا آئین تیار کیا اور اس کے مطابق چلنا شروع کردیا۔ اْدھر برطانوی سامراج نے فوج اور پولیس کی تشکیل اور ترتیب نوآبادیاتی مقاصد کے تحفظ اور دوام کی طرز پر کی تھی

تاکہ بوقت ضرورت جب عوام سامراج کی نمائندہ حکومت کے خلاف عَلم بغاوت بلند کرے اور برسرے پیکار رہے یا احتجاجوں کے سلسلے چل نکلیں تو عوام کے ردِ عمل کو دبایا جا سکے یا بغاوت کی صورت میں سرکاری فورسز بے رحمانہ طاقت کے استعمال اور کشت و خون کے لیے نہ صرف پس و پیش سے کام نہ لے سکیں بلکہ آمادہ رہیں اور عوام کو بروقت کچل سکیں۔ 1946ء کے دور حکومت میں جواہر لال نہرو متحدہ ہندوستان کے وزیراعظم منتخب ہوگئے تو جواہر لال نہرو نے فوج اور پولیس سمیت فورسز میں مخصوص اور محدود علاقوں سے بھرتیوں کے سلسلے کو بند کر دیا اور بھرتیوں کے سلسلہ عمل کو پورے ملک کے لیے یکساں کر دیا

جبکہ پاکستان میں سرے سے کسی نے اس قسم کی کوئی کوشش ہی نہیں کی۔ ایسی پالیسیوں کے اثرات کو ان اقدامات کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اگر پنجاب میں کوئی ردعمل بغاوت کی شکل اختیار کرجائے تو ان کے ساتھ نرم رویّہ اختیار کر کے رعایت برتی جاسکے جبکہ اس کے برعکس بلوچستان، کے پی کے اور سندھ وغیرہ میں معقول مسائل اور مطالبات پر بھی اگر معمولی ردعمل اور احتجاج سامنے آئے تو اْس کو بزور شمشیر کچل دیا جاسکے۔
جس مسلم لیگ نے پاکستان کی تشکیل کی تھی وہ عوام کے اندر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکی۔ وہ مسلم لیگ اس قدر کمزور تھی کہ 1954ء کے الیکشن میں جگتو فرنٹ کے مقابلے میں شکست سے دوچار ہوگئی ویسے تو اس ملک پر عوام کے منتخب نمائندوں نے کبھی بھی حکومت نہیں کی ہے

مگر مذکورہ آزمائش کے بعد ملک مکمل طور پر سول اور غیر سول اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں چلی گئی اور تب سے آج تک وہی اقتدار اور اختیارات کے مزے لوٹ رہی ہے اور”درمیان“ کے یہ جو سیاست دان ہیں، یہ سب کچھ جانتے ہیں ان کو یہ فہم و ادراک بھی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی زور اور طاقت کو ختم یا کمزور کئے بغیر ہم کبھی بھی

اختیارات کے مالک نہیں بن سکیں گے لیکن تمام تر حالات سے باخبر ہونے کے باوجود سیاستدان خوش ہیں کہ ان کو بھی حصہ دار بنا دیا جائے تاکہ اس لوٹ مار اور مال غنیمت میں سے انہیں بھی کو کچھ نہ کچھ (آٹے میں نمک کے برابر ہی سہی) ہاتھ آجائے جن کو یہ لوگ لے کر خاندان اور کارداروں میں تقسیم کر دیں۔ اس کے برعکس سیاست دان اگر

جمہوریت کے مکان کو سیدھا کرنا، ملک کو سْدھارنا اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہیں یا یہ تہیّہ کر لیں کہ ملک کو جمہوریت کے راستے پر ڈالنا اور سدھارنا ہے اور نظام میں موجود تمام تر خرابیوں اور خامیوں کو دور کرنا ہے تو ملک کی پارٹیاں ایک ہی نقطے پر متحد ہو جائیں اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف راست جدوجہد شروع کرد یں۔ یہ مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں، اِن زمینی حقائق سے باخبر ہوتے ہوئے بھی اس وقت تک سیاسی قیادت کی توجہ اس جانب بالکل بھی نہیں ہے کہ ملک ترقی کرے اور عوام کے مسائل حل ہوں اس کے برعکس وہ اپنی ذات، خاندان اور کارداروں کے حصوں کے حصول کے لیے پریشان ہیں۔