|

وقتِ اشاعت :   November 24 – 2023

پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ انہیں انتخابی کمیشن پر مکمل اعتماد ہے اور انتخابات شفاف ہوں گے۔ ایک طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری مختلف مقامات پر انتخابی مہمات کے سلسلے میں خطاب کرتے ہوئے کہتے سنے گئے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو لیول پلینگ فیلڈ دی جائے۔ دوسری جانب ان کے والد آصف علی زرداری کا انتخابی کمیشن پر اعتماد اور شفاف الیکشن کا عندیہ، کیا یہ تضاد نہیں ہے۔
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی میں چیئرمین اور شریک چیئرمین کے درمیان بات چیت کا فقدان ہے یا وہ دونوں ایک پیج پر نہیں ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی ممکن ہے کہ آصف علی زرداری کو کسی ایسی جگہ سے یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ شفاف الیکشن ہوں گے یعنی پاکستان پیپلز پارٹی کو اگر مرکز میں حکومت نہیں بھی ملے گی تو صوبہ سندھ میں انہیں اتنی نشستیں ضرورملیں گی کہ وہ آزاد اراکین کو ملا کر حکومت بنا سکیں گے۔
اس ممکنہ یقین دہانی کا جائزہ بعد میں لیں گے، پہلے صوبہ سندھ کی انتخابی سیاست پر ایک نظر ڈالتے ہیں جہاں پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف اپوزیشن کا ایک اتحاد بننے جا رہا ہے۔صوبہ سندھ میں ایک عرصے بعد پاکستان مسلم لیگ نون نے انٹری دی ہے اور انہوں نے ایم کیو ایم پاکستان سے رابطہ کیا ہے

ایم کیو ایم پاکستان بھی نون لیگ سے انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ چاہتی ہے۔ گو کہ ایم کیو ایم کے اس اقدام کو ایک حلقے نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ ایم کیو ایم جس نون لیگ سے انتخابی معاہدہ کرنے جا رہی ہے اسی نون لیگ نے ایم کیو ایم پر تین مرتبہ شب خون مارا ہے۔ اس بار پھر ایم کیو ایم اگر نون لیگ سے انتخابی معاہدہ کرتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے شہدا کی قربانیوں کو فراموش کر دے گی۔ ایم کیو ایم کے رہنما اس معاملے پر بیان دینے میں بہت احتیاط سے کام لے
رہے ہیں۔ایم کیو ایم پاکستان کے سینیئر ڈپٹی کنوینیئر ڈاکٹر فاروق ستار نے ایک ٹی وی چینل پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت آگے بڑھنا چاہتی ہے اور ایم کیو ایم کے رہنما عوامی مفاد کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ایم کیو ایم پاکستان نون لیگ سے کوئی معاہدہ کرنے نہیں جا رہی البتہ اس کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے متعلق مذاکرات جاری ہیں۔
ایم کیو ایم نے جی ڈی اے اور جمعیت علمائے اسلام سے بھی مذاکرات کیے ہیں

اور ان کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی 15 سال سے صوبے کو لوٹ رہی ہے اور اس کا راستہ روکنے کے لیے اپوزیشن کو آگے آنا پڑے گا اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف صوبہ سندھ میں انتخابی اتحاد بننے جا رہا ہے اور ایم کیو ایم کو یقین ہے کہ سندھ میں اس بار نہ صرف حکومت ان کی ہوگی بلکہ وزیراعلیٰ بھی ایم کیو ایم کا ہوگا۔
اس وقت سندھ میں جو سیاسی صورتحال نظر آرہی ہے، ایسے لگتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو کارنر کیا جا رہا ہے

اور اگلی حکومت اتحادی جماعتوں کی بننے جا رہی ہے جس میں وزیراعلیٰ نون لیگ کا ہو سکتا ہے۔اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آصف علی زرداری کا بیان جس میں انہوں نے عندیہ دیا ہے کہ انتخابات شفاف ہوں گے، کیا کسی یقین دہانی کا مظہر ہے۔ بہت زیادہ دور کی بات نہیں ابھی حال ہی کی بات ہے جب پی ڈی ایم کی حکومت نے اپنی مدت پوری کی تھی اس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کو یقین تھا کہ اگلی حکومت پیپلز پارٹی کی ہوگی

اور جنوبی پنجاب سے کئی بڑے نام پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کریں گے۔لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کو جھٹکا اس وقت لگا جب استحکام پاکستان پارٹی کا اعلان کیا گیا اور جنوبی پنجاب کے سارے بڑے نام اس کے ساتھ جڑ گئے۔
ادھر بلوچستان میں بھی نون لیگ نے اپنے ہمنوا بنا لیے ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ سمیت کئی رہنما مسلم لیگ نون میں شامل ہو گئے ہیں اور نون لیگ نے بلوچستان کی مختلف پارٹیوں سے انتخابی اتحاد بھی کر لیا ہے۔نون لیگ سندھ میں بھی ایم کیو ایم جے یو آئی اور جی ڈی اے کے ساتھ مل کر عام انتخابات لڑنے جا رہی ہے۔ وہ نہ صرف پنجاب اور بلوچستان بلکہ سندھ میں بھی حکومت بنانے کا خواب دیکھ رہی ہے۔جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ پنجاب میں نون لیگ اپنی مقبولیت کھو چکی ہے

اسی لیے وہ دوسرے صوبوں کا رخ کر رہی ہے۔ اگر یہ بات مان بھی لی جائے تب بھی پاکستان پیپلز پارٹی مشکل میں نظر آتی ہے۔
اردو میں کہاوت ہے کہ سہاگن وہی جو پیا من بھائے۔ اور اس بار لگتا یہ ہے کہ پیا کے من کو نون لیگ بھاگئی ہے۔