|

وقتِ اشاعت :   December 5 – 2023

تین پی اور چار پی والی جماعتیں ہیں یہ دراصل دو جماعتیں نہیں بلکہ باپ اور بیٹے ہیں۔۔۔

جی ہاں۔

ہوا کیا ہے یہ شروع کہاں سے ہوا اور ان دونوں کے درمیان معاہدہ بھی ہے اور باپ بیٹے، میں، کیوں کہہ رہا ہوں ان تمام چیزوں پر بات کرتے ہیں۔ایک پی پی کا نشان تیر اور دوسری پی پی کا نشان تلوار ہے تلوار کس کا ہے اور تیر کس کا ہے، حالانکہ دونوں پاکستان پیپلز پارٹی ہیں۔۔۔

۔ تو قصہ کچھ یوں ہے کہ جب 1967 میں ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی داغ بیل ڈالی تو اس وقت الیکشن کمیشن سے اس کا نشان تلوار لیا گیا تھا اور پاکستان پیپلز پارٹی نے تلوار کے نشان پر الیکشن لڑنا شروع کیا تھا۔۔۔۔۔

پیپلز پارٹی کی بنیاد میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کئی سیاست دانوں کا ہاتھ ہے۔ مگر سب سے پہلے جناب جے اے رحیم اور ڈاکٹر مبشر حسن اپنے چند دوستوں کے ساتھ بھٹو سے ملے جو اس وقت فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف تحریک کی قیادت کررہے تھے۔

رحیم اور مبشر نے ایک ”سوشلسٹ پارٹی“ بنانے کی تجویز دی، بھٹو نے اتفاق کیا مگر مشورہ دیا کہ اس میں کچھ اسلامی رنگ ڈالنا ضروری ہے لہذا کنونشن میں کئی دنوں کے بحث و مباحثہ کے بعد اس کا نام پاکستان پیپلزپارٹی رکھ دیا گیا۔ 1972 سے 1977 تک پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، اس دوران پارٹی غیر مقبول ہونے لگی۔۔۔

۔ گورننس سے لے کر انتقامی سیاست نے پارٹی کو شہروں میں خاص طور پر بہت نقصان پہنچایا۔ البتہ پارٹی کا اصل اثاثہ مزدور، کسان اور نوجوان پارٹی سے جڑ گیا۔

تمام حالات کا جائزہ لیتے ہوئے جب ذولفقار علی بھٹو نے اپنی حکومتی معیاد ختم ہونے سے کم و بیش ایک سال قبل الیکشن کرایا تو ان کے سیاسی مخالفین نے قومی اتحاد بنا لیا۔ پی این اے کے رہنما شاہ احمد نورانی نے کہا تھا کہ اگر الیکشن میں دھاندلی نہ ہوتی تو بھی بھٹو جیت رہا تھا

البتہ اپوزیشن کو بھی اچھی خاصی سیٹیں مل جاتیں۔۔۔

۔ بہرحال اس وقت کے جو بھی سیاسی حالات تھے ملک میں 1977 میں مارشل لا لگ گیا۔ اس وقت کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق نے 1977 میں الیکشن کروائے نہ 1979 میں کروائے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جنرل ضیاء الحق کو خطرہ تھا کہ اگر الیکشن کروائے گئے تو پاکستان پیپلز پارٹی الیکشن جیت جائے گی اور شاید ان کا اندازہ درست بھی تھا۔اسی لیے پاکستان پیپلز پارٹی کو سیاسی طور پر ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور سب سے پہلے الیکشن کمیشن سے اس کے انتخابی نشان تلوار کو ڈی لسٹ کروا دیا گیا۔

اس وقت بھٹو جیل میں تھے تو ان کی بیگم نصرت بھٹو نے پارٹی کی قیادت سنبھال لی اور ایسی انتخابی مہم چلائی کہ سینیئر سیاستدان بھی انگشت بدنداں رہ گئے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پارٹی کے اندر سیاسی کشمش کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو نے پارٹی کی باگ ڈور سنبھالی۔

کہا جاتا ہے کہ ماں بیٹی میں سیاسی سوچ کا نہیں اپروچ کا فرق تھا۔ نا تجربہ کار بی بی نے پارٹی میں نئی جان ڈال دی اور کارکنوں کو نیا حوصلہ اور عزم دیا۔ اب ان کے بیٹے کو بھی ناتجربہ کار، غیر تربیت یافتہ کہا جا رہا ہے لیکن وہ بیٹا بے نظیر بھٹو کا ہے، اور یہ بات آصف علی زرداری بھی خوب جانتے ہیں کہ بیٹا اگر ماں کے نقش قدم پر چلا تو ان کا گزارا پارٹی میں مشکل ہو جائے گا۔۔۔۔

۔ سن 1999 میں جب جنرل مشرف نے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹایا تو اس کے بعد حالات کچھ ایسے ہوئے کہ بے نظیر بھٹو کو لگا جیسے ان کی جماعت کو سن 2002 کے الیکشن میں حصہ لینے نہیں دیا جائے گا لہذا انہوں نے پارٹی کے سینیئر لیڈر مخدوم امین فہیم سے کہا کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز بنائیں۔ لہذا بی بی کے کہنے پر انہوں نے چار پی والی جماعت بنائی اور وہ اس کے پہلے صدر تھے۔ پھر 2007ء میں بی بی کو جنرل مشرف کے ساتھ این آر او پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

وہ پاکستان گئیں تو ان پر خود کش حملہ ہوا، خطرہ ٹلا نہیں تھا وہ دبئی واپس گئیں پھر تمام این آر او توڑ کر آئیں تو شہید کردی گئیں۔ 27دسمبر2007ء کو بی بی کی شہادت ہوئی۔

۔۔۔ تدفین کے دوسرے روز پیپلز پارٹی کی مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا۔ زرداری صاحب نے قریب بیٹھے چار پی والی جماعت کے صدر مخدوم امین فہیم کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ آپ وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہوں گے۔۔۔۔

بعد میں زرداری صاحب نے بے نظیر بھٹو کی وصیت پڑھ کر سنائی اور بلاول بھٹو زرداری کو تین پی والی پیپلز پارٹی کا چیئرمین بنانے کا اعلان کیا۔ ساتھ ہی زرداری صاحب نے یہ بھی اعلان کیا کہ جب تک بلاول بڑا نہیں ہو جاتا وہ پارٹی کے شریک چیئرمین رہیں گے۔ اب پتہ نہیں بلاول اپنے والد کی نظر میں کب بڑے ہوں گے۔۔۔۔۔ شاید زرداری صاحب سے بنیادی سیاسی غلطی بہت ہی کم عمری میں بلاول کو چیئرمین بنانا تھا۔۔

۔۔۔ تجربہ کبھی بھی بڑی پوزیشن ملنے سے نہیں پارٹی کے اندر کام سے آتا ہے۔بلاول نے 2015میں جناح گراؤنڈ میں جو تقریر کی تھی وہ جذبات اور نظریات سے بھری تھی جس میں انہوں نے سندھ میں اپنی ہی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔۔۔۔ زرداری صاحب کو اسی وقت سمجھ جانا چاہیے تھا کہ یہ تقریر خطرے کی گھنٹی ہے۔۔۔

۔ انہوں نے فوراً لاہور جاکر ورکرز کنونشن میں بلاول کے نا آنے پر تقریر کرتے ہوئے اسے ”ناتجربہ کار اور بچہ“ کہہ دیا۔اب وہ بچہ جوان ہے اور پارٹی کا مکمل اختیار چاہتا ہے۔ زرداری صاحب کو 2015 میں دبئی میں چوہدری اعتزاز احسن نے جو مشورہ دیا تھا کہ خود ان سمیت اس عمر کے سب سیاستدانوں کو پیچھے ہٹ جانا چاہئے مگر زرداری صاحب نے دونوں ٹوپیاں پہن لیں وہ پی پی پی کے شریک چیئرمین بھی ہیں اور چار پی والی کے صدر بھی تو ٹکٹ تو وہی دیں گے۔

اب بھی تین پی والی اور چار پی والی پیپلز پارٹیز کے درمیان ایک معاہدہ موجود ہے۔ اس معاہدے میں کیا لکھا ہوا ہے اس کے بارے میں تو زیادہ علم نہیں لیکن معاہدے کا ہونا ہی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ معاملہ اتنا غیر سنجیدہ نہیں۔ اب پیپلز پارٹی کی قیادت تیر چلائے گی یا تلوار اٹھائے گی، لگتا ہے کہ اس کا فیصلہ ہونے میں بہت زیادہ وقت نہیں لگے گا۔