|

وقتِ اشاعت :   December 5 – 2023

بلوچستان میں نیشنل پارٹی کی لیڈر شپ کی نظریاتی،

قومی اور سیاسی تاریخ میں ایک بہت بڑا نام ہے

انہوں نے قومی سیاست میں توانا کردا ادا کیا ہے۔

قائدین نظریاتی، فکری اور عملی سیاست میں سرگرم عمل ہیں پارٹی کارکنوں کو بھی جہدو کوشش کی درس دیتے ہیں ان کی پشت پر بلوچ قوم کی طاقت ہے لیڈر کے معاملے میں بلوچستان تشنہ نہیں ہے۔امن امان ان کا نظریہ ضرورت ہے سیاسی پارٹیوں کے درمیان فکری، نظریاتی اور سیاسی پہچان یکساں ہے۔

ملک اور قوم کی مفادات کیلئے لیڈر شپ کی اہمیت زیادہ ہے وہ ملک اور قوم کے مفادات کیلئے کام کرتے ہیں

ان کی درماندگی اور پسماندگی کیلئے غور و فکر کرتے ہیں وہ ملک اور قوم کی مفادات کے لئے کام کرتے ہیں،

معاشی زبوں حالی سے پریشان رہتے ہیں ان کے تمام فیصلے ملک اور قوم کے بارے میں ہوتے ہیں اس وجہ سے عوام کا رحجان نیشنل پارٹی کی طرف ہے شمولیتی پروگرام زور و شور سے جاری ہے لوگ آزمودہ پارٹیوں کو چھوڑ کر نیشنل پارٹی میں شامل ہورہے ہیں۔
پارٹی کی مضبوطی یونیٹوں کی تروج و ترقی پر ہے یونٹوں میں شمولیتی پروگرام کا دباؤ زیادہ ہے یونٹوں کو منجمد نہیں کیا جا سکتا

اور نہ ہی تحصیل کونسل میں عہدہ داروں کے نام ہدف کیا جاتا ہے یونٹوں میں عہدہ داروں کا چناؤ ماضی میں جاری تھا اب بھی یہ مہم جاری ہے۔گوکہ بلوچستان میں بے روزگاری بہت بڑا قومی المیہ ہے اتنی خوبصورت اور قدرتی دولت سے مالا مال سرزمین شاید دنیا میں کہیں اور موجود ہو،

جہاں معدنی دولت اور ساحل و سائل کی دستیابی سے جدید دور کی جیتی جاگتی بلوچ قوم ہے جس کی تاریخی کارناموں پر بلوچستان ناز کرتی ہے۔

بلوچ قوم کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے بلوچستان میں شہداء کی بہت بڑی تاریخ ہے مثلاً نوروز خان نے اپنے لخت جگروں کے ساتھ پھانسی کے پھندے کو چوم لینا، اکبر خان بگٹی نے بلوچ عورت کی عزت و تقدس کی خاطر جان قربان کردی۔
بلوچستان میں قوم پرست لیڈر ملک کو ترقی دینے پر کمر بستہ رہتے ہیں ملک کی تباہی و بربادی کے لئے کارکنوں کو اکٹھا نہیں کیا جاتاہے، ان کی سوچ مثبت انداز میں ہوتی ہے۔ دنیا میں جتنے لیڈر گزرے ہیں ان کا سیاسی کردار قومیانہ تھا

ان کی زندگی کا بیشتر حصہ جیلوں کی اذیتوں میں گزرا ہے۔ نیلسن منڈیلا کی پوری زندگی جیل کی اذیتوں میں گزری ہے۔ بلوچستان میں میر غوث بخش بزنجو کا بستر ابھی تک جیل میں پڑا ہوا ہے وہ خود دینا سے رخصت ہوگئے اپنی سیاسی وراثت بلوچستان کے سیاسی نوجوانوں کو سونپ دیا۔

جب بھی الیکشن قریب ہوتاہے شمولیتی پروگرام میں عوام کا جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے اس سے پارٹیاں ترقی کی شاہرہ پر گامزن ہوتی ہیں،لیڈر کبھی بھی اپنی پارٹی کو نہیں چھوڑتا اور نہ ہی کارکنوں میں ایسی رحجان ہے ہاں اگر کارکنوں کو دھتکار دیا جائے وہ دوسری پارٹی میں شامل ہوتے ہیں پارٹی کارکنوں کے جذبوں کو کوئی شکست نہیں دی جا سکتی

کیونکہ وہ پارٹی کیلئے دن رات کام کرتے ہیں۔ اس میں مدرسوں اور اسکولوں کی ابتدائی تعلیم کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ تعلیم سے زندگی سنورتی ہے۔
ملاحطہ فرمائیے ایک بڑے مدرسے کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے ترکی کے صدر جناب رجب الطیب اردگان نے فرمایا

جب وہ بچپن میں مدرسے پڑھنے جاتے تھے تو ہمارے علاقے کے لوگ مجھ سے کہا کرتے بیٹے کیوں اپنا مستقبل خراب کررہے ہو، کیا تمہیں بڑے ہو کر مردے نہلانے کی نوکری کرنی ہے، مدرسے میں پڑھنے والے کو غسال کے علاوہ کوئی اور روزگار مل سکتا ہے لہذا کسی اچھے اسکول میں داخلہ لے لو، اپنا مستقبل سنوانے کی کوشش کر۔

اس قسم کے نصیحت کرنے والے زیادہ بوڑھے لوگ ہوتے ہیں میں بڑے ادب سے ان کی باتیں سنتا اور مسکراتے ہوئے اپنی کتابیں بغل میں دباتے ہوئے مدرسہ امام الخطیب کی طرف گامزن ہوتا۔ انہوں نے فرمایا میرے والد پھل فروش تھے ان کے مالی حالات اسکا متحمل نہیں ہو سکتے تھے کہ وہ مجھے اسکول میں داخل کراتے ہمارے گھر میں بعض اوقات سالن کے بجائے خربوزے کے ساتھ روٹی کھائی جاتی تھی۔

پھر والد صاب کو دین سے والہانہ محبت تھی مجھے حفظ القرآن کی کلاس میں داخل کروادیا۔وقت گولی کی رفتار سے چلتا رہا میں نے استنبول کے اسی مدرسہ سے 1937ء میں تعلیم مکمل کی، قران مجید تجدید کے ساتھ حفظ کیا۔

اس کے بعد یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی،اکنامکس اینڈ ایڈ منسٹریٹو سائنس میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی، ابتدائی تعلیم سے لے کر ماسٹر کی تعلیم تک عملی زندگی میں عوام سے جدا نہ ہوا۔ یہی قومی سیاست کی مزاج تھی فوجی انقلاب کے موقع پر عوام میرے ساتھ کھڑی ہوئی اب جب بھی بزرگوں کی نصیحتیں یاد آتی ہیں خود پر رب کرم کی رحمتوں کی بارش دیکھتا ہوں بے اختیار آنکھوں سے آنسو چھلکتے ہیں۔یہ کہہ کر ترکی کے صدر طیب اردگان نے حاضرین مجلس کو بھی اشک بار کردیا۔