|

وقتِ اشاعت :   December 14 – 2023

انسان چاہے کسی بھی مذہب یا قوم اور ملک کے ساتھ وابستگی رکھتا ہو یہاں تک کہ لادین ہی کیوں نہ ہو اگر وہ کوئی جرم یا گناہ کر بھی دے تو اْس کے لئے ملک کے مروجہ قوانین یا ملک و قوم اور سماج کی اقدار و روایات کے مطابق سزا کی ایک حد مقرر ہوتی ہے

اس دنیا میں اِس طرح تو کبھی اور کہیں بھی نہیں ہو سکتا کہ ایک جرم کی سزا مسلسل اذیت اور عذاب کی شکل اختیار کر لے، عمر بھر پیچھے پڑ جائے اور ختم ہونے کا نام نہ لے مگر پاکستان میں محکوم اقوام کے حقوق و اختیارات اور ملک میں جمہوری نظام اپنی اصلیت اور روح کے مطابق تو لگتا ہے کہ مذکورہ بالا مثال کی مانند کبھی بحالی کا نام تک نہیں لیتا ۔یہی حال شفاف انتخابات اور عدل و انصاف کا ہے جن کے فوائد اور استحقاق سے پنجاب کے حکمرانوں نے ملک کے عوام خصوصاً مظلوم اقوام کو بے بہرہ رکھا ہے

یہ سلسلہ کب ختم ہو گااس کے آثار دکھائی نہیں دیتے اگر ہم مقتدرہ کی جانب سے محکوم اقوام پر اپنے منظورِ نظر گماشتوں کو مسلط کرنے کی روش کا جائزہ لیں تو دیکھا جا سکتا ہے

کہ وہ جن کو کہ ہم قائد اعظم کہتے اور مانتے بھی ہیں جو بانیِ پاکستان ہے انہوں نے خود بھی گورنر جنرل کی حیثیت سے آزادی کے سات روز بعد بائیس اگست 1947ء کو کے پی کے میں ڈاکٹر خان کی منتخب حکومت کو برطرف کر دیا تھا اور ان کی جگہ پر ایک غیرمنتخب حکومت کوعوام پر مسلط کر دیا تھا ، انہوں نے کے پی کے کی طرح سندھ کی منتخب حکومت کوبھی برطرف کر دیا تھا اور سندہ کی حکومت من پسند لوگوں کے حوالے کر دیا تھا ۔یہاں پر اگر بلوچستان کا تذکرہ ہو تو بلوچستان تاریخی طور پر برصغیر کا حصہ ہونے کی بجائے ایک آزاد اور خودمختار ملک رہا ہے، اس پر قائد اعظم کی ہدایات پر پاکستان کی فوج نے لشکر کشی کر کے جبراً اسے پاکستان کے ساتھ شامل کر دیا تھا۔

بنگالی قوم جن کے فرزندوں نے مسلم لیگ کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ انتخابات میں کامیابی کی صورت میں قیامِ پاکستان کو بھی بنیاد فراہم کر دیا تھا مگر اتنی بڑی احسان کے جواب میں بنگالی قوم کے ساتھ پنجاب کی مقتدرہ اور اْن کے نمائندہ سیاست دانوں نے جو کچھ کیا ان کے متعلق جْگنو محسن کہتی ہیں کہ

” دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک اکثریت نے ایک اقلیت سے علیحدگی اختیار کرلی، عموماً اقلیت اکثریت سے علیحدگی اختیار کر لیتی ہے مگر پاکستان میں اسکے برعکس اکثریت نے اقلیت سے علیحدگی اختیار کرلی ” سقوطِ بنگال کے بعد اگرچہ مقتدرہ پر لازم تھا کہ وہ پاکستان کے دیگر اکائیوں کو آئینی اور قانونی اختیارات دے کر مطمئن کرتی مگر بنگال کی علیحدگی کے زخم ابھی تازہ تھے کہ مقتدرہ نے بلوچستان کی منتخب حکومت کو نہ صرف برخاست کر دیا بلکہ اِس کے ساتھ ہی قوم پرست بلوچ قائدین کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا

اور بلوچستان پر فوج کشی کر دی۔
پی پی ہو کہ مسلم لیگ نواز یا پھر پی ٹی آئی سب اسٹیبلشمنٹ کی مختلف ادوار کے پروجیکٹوں کی پیداوار ہیں یہ پارٹیاں عرصہ دراز تک اسٹیبلشمنٹ کے اِشاروں پر چلتی رہی ہیں اور اس وقت بھی مقتدرہ کے اشارہِ ابرو پر ناچنے کے لئے آمادہ بلکہ فریادی ہیں ہاں البتہ یہاں پر یہ بھی ایک ناقابلِ تردید سچائی ہے کہ اقتدار کے دوران اختیارات کے استعمال پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذکورہ تمام پارٹیوں کی اختلافات اور خفگیاں پیدا ہوتی رہی ہیں ۔اسٹیبلشمنٹ کی حکمت عملی ہے کہ سیاست دان وزارتوں پر ضرور رہیں مگر ملک کو کس طرح ،

کن اصولوں اور پالیسیوں پر چلنا ہے ، امریکہ یا چائنہ کے کیمپ میں جانا ہے ، افغانستان اور ہندوستان کے ساتھ کس قسم کے تعلقات ہوں اور ملک کی اندرونی پالیسیاں کس نوعیت کی ہوں تمام فیصلے یہاں تک کہ ملک کی عملاًنمائندگی بھی ہم کریں گے جبکہ سیاست دان اْن فیصلوں کی دفاع اور پیروی کر کے اْن پر چلیں، اس سے آگے فیصلوں کے منفی اثرات کو سیاست دان قبول کر لیں اور مثبت اقدامات کو شہباز شریف کی طرح ہمارے کھاتے میں ڈال دیں ۔ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر عمران خان تک آجائیں پاکستان کے سیاست دان ایک ہی نوعیت کے تجربات سے گزرتے رہے ہیں

اتنی آزمائشوں کی ناکامی کے بعد ملک کے سیاست دانوں اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ نے اب تک کچھ سیکھا ہے کہ

وہ اس قسم کے تجربات سے باز آجائیں، سیاست دان فیصلہ کر لیں کہ ان کو اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں کے بغیر عوام کے ووٹ کی طاقت پر کامیابی حاصل کرنا ہے اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ اپنی روش سے دست بردار ہونے کے لئے آمادہ ہے کہ ہم سیاست اور انتخابات میں مداخلت نہیں کریں گے اور فقط اپنی ادارتی ذمہ داریوں کی جانب توجہ دیں گے ۔

پنجاب کے علاوہ دیگر تمام اکائیوں میں عوام دشمن اور جمہوریت مخالف کردار کے سبب اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پہلے سے ہی نفرت کے جذبات موجود رہے ہیں، کے پی کے میں خدائی خدمتگار، نیپ ، اے این پی، پی ٹی ایم اور این ڈی ایم کے خلاف انتقامی کاروائیاں یہاں تک کہ ان کو ملک دشمن اور غدّار قرار دینے کی روش ہو ، سندھ میں بھٹو کی پھانسی اور بینظیر کی شہادت ہو یا پھر سندھی قوم دوست عناصر کے مقابلے میں ایم کیو ایم کی پشت پناہی اور حمایت ہو یا پھر بلوچستان پر جبری تسلط سے لیکر

باربا رکی فوج کشیاں ، نیپ میں شامل بلوچ قوم پرستوں کی حکومت کی برخاستگی اور قوم پرست بلوچ قائدین کی گرفتاریاں، جنرل ایوب کے دور میں بلوچ قائدین کی پھانسیاں ، بلوچستان کی گیس سمیت دیگر تمام معدنی وسائل کی لوٹ کھسوٹ ، نواب اکبر بگٹی کے خلاف فوجی کاروائی کر کے شہید کر دینا اور ان کی لاش کو ورثا کے حوالے نہ کرنے کے علاوہ گزشتہ بیس بائیس سالوں کے دوران بلوچ قائدین اور طلبا کی گرفتاریوں اور گمشدگیوں کے اثرات بلوچستان میں پنجاب کے سیاست دانوں ، اسٹیبلشمنٹ اور ان کے ہمدرد و ہمنوا بلوچ سیاست دانوں کے خلاف شدت کی حد تک نفرت کی شکل میں منتج ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پنجاب کے سیاست دان اور پنجابی مقتدرہ بلوچستان اور بلوچ قوم کے متعلق اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرتے ،

کوتاہیوں اور کمزوریوں کو دور کر دیتے مگر مذکورہ قوتیں اس کے برخلاف عمل پیرا ہیں یہ ایک سچائی ہے کہ پاکستان میں پنجاب کے علاوہ دیگر تمام اکائیوں میں مقتدرہ کے خلاف جذبات شدت کی حد تک موجود رہے ہیں مگر اب تو گزشتہ کئی سالوں سے پنجاب کے عوام بھی مقتدرہ سے متنفر دکھائی دے رہے ہیں اور ملک میں اسٹیبلشمنٹ دشمن رجحانات نے جڑ پکڑ لیا ہے ۔پنجاب کے عوام کی اکثریت ان سیاسی پارٹیز کو سپورٹ کرتی ہیں جو اسٹیبلشمنٹ مخالف ہوں۔

لگتا ہے کہ گزشتہ ادوار کے تجربات نے پنجابی عوام کی اکثریت کو سکھا دیا ہے کہ پاکستان کے تمام تر مسائل، مشکلات اور بحرانوں کی بنیادی وجہ سیاسی اور معاشی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ہے اس دلیل کی وزن کو ہم اس طرح بھانپ سکتے ہیں کہ نواز شریف اور مریم نواز نے جب تک کہ

مقتدرہ کے سرپرستوں پر تنقید کی اْس وقت تک پنجاب کے عوام نے تمام ضمنی انتخابات میں نواز لیگ کے امیدواروں کو ووٹ دے کر کامیابیوں سے ہمکنار کیا ،اْس دور کے سرویز میں بھی نواز لیگ پی ٹی آئی سے آگے تھی مگر پھر شہباز شریف کے دورِ حکومت میں نواز لیگ تمام تر ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کے ہاتھوں بری طرح ہار گئی حالانکہ وہ حکومت میں تھی اور مقتدرہ بھی ان کے پشت پر موجود تھی۔

پنجاب کے عوام کی رجحانات میں تبدیلی کے دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں اوّل یہ کہ اس دوران مہنگائی عمران خان کے دور حکومت سے آگے بڑھ کر آسمان سے باتیں کرنے لگی ، قدرِ زر گِر گئی اور بیروزگاری میں اضافہ ہوا اور دوسری وجہ یہ تھی کہ عمران خان نے مقتدرہ کو براہ راست نشانے پر رکھا اور اْن پر شدید ترین تنقید شروع کر دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پنجاب میں عمران خان کی مقبولیت بڑھ گئی جو آج بھی مسلم لیگ نواز کے مقابلے میں زیادہ مقبول ہے۔ اس دوران مختلف پارٹیز اور آزاد اداروں کی طرف سے جو سروے کئے گئے ہیں

اْن میں پی ٹی آئی پنجاب کی مقبول ترین جماعت ہے ، اس کے بعد تحریک لبیک کی پوزیشن ہے مسلم لیگ نواز اور پی پی کی نمبر اس کے بعد آ تا ہے اس کی وجہ اس کے سوائے اور کچھ بھی نہیں ہے کہ پی ٹی آئی نے ظاہری طور پر خود کو اسٹیبلشمنٹ دشمن پارٹی کی حیثیت سے منوایا ہے جو پی ٹی آئی کی مقبولیت کی وجہ بن گئی ہے۔ پنجاب کے عوام چونکہ پی ٹی آئی کو اسٹیبلشمنٹ دشمن پارٹی سمجھتے ہیں لہٰذا اس بنیاد پر پی ٹی آئی کے ساتھ ہمدردی رکھتے اور پی ٹی آئی کی حمایت کرتے ہیں۔ ملک کی مقتدرہ خود بھی پریشان ہے کہ وہ اس مسئلے کو کس طرح حل کر ے اس نے اگرچہ پی ٹی آئی کو تقسیم کر کے ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے مگر اس کی مقبولیت پھر بھی برقرار ہے

اس لیئے سوچا جا رہا ہے کہ انتخابات کی معیاد کو بڑھا دیا جائے اس سے ان کی نظر میں شاید کوئی حل نکل آئے۔ اس پر سہروردی کے بیان کو دہرانا پڑتا ہے جو 1953ء کے دور میںانہوں نے دیا تھا کہ ملک میں جب بھی انتخابات ہوں مسلم لیگ ہار جائے گی ،موجودہ دور میں بھی وہی پوزیشن ہے کہ جس وقت بھی غیرجانبدارانہ بنیادوں پر انتخابات ہوں مسلم لیگ نواز پی ٹی آئی کے مقابلے میں ہار جائے گی۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کے عوام 76 سالہ دور میں جو سزا کاٹ چکے ہیں وہ کافی ہے لہٰذا اب عوام کو آزاد کر دینا چاہیے تاکہ وہ آزاد اور جمہوری دنیا کی طرح جس کو چاہیں اپنا نمائندہ منتخب کر یں

اگر نہیں تو دوسری ممکنہ صورت کے متعلق ڈاکٹر اِلہان نیاز کہتے ہیں کہ” دیکھیں آج کل لوگ ایک اصطلاح استعمال کر رہے ہیں کہ پاکستان ایک پولی کرائیسز میں ہے اْس میں سیاسی بحران بھی ہے ،

اس میں اقتصادی بحران بھی ہے اس میں اور بھی بہت ساری چیلنجز ہیں فارن پالیسی کے، سیکیورٹی کے، ماحولیات کے، آبادی کے، یہ سارے اگلے پانچ چھ سال میں اْس نقطے پر پہنچ رہے ہیں

یا ان سے ہم کسی نہ کسی طریقے سے نمٹ لیں گے یا وہ پھر ہمیں فارغ کر دینگے”
خدا فراغت کی آزمائش سے بچا لے جب دوا نہ ہو تو صرف دعا ہی کی جاسکتی ہے۔