|

وقتِ اشاعت :   December 20 – 2023

عمران خان کے ہاتھوں سیاست، معیشت ، ثقافت، ہمسایہ ممالک سمیت بین الاقوامی تعلقات ، اخلاقی اقدار اور روایات کو زمین بوس کرنے کے بعد ملک کی تاریخ میں یکے بعدے دیگرے پروجیکٹوں کے ٹھیکیداروں نے لگتا ہے کہ

مراجعت سے کام لے کر اِس بار دوبارہ نواز شریف کی پارٹی کو آگے لانے اور تخت و تاج پر بٹھانے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔

نواز شریف کی ذاتی خواہش اور دلی ارمان یہی ہے کہ جن قوتوں نے ذاتی پرخاش کی بنیاد پر ان کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک روا رکھا تھا اْن سے باز پرس ہونا چاہیئے تاکہ مقدر کے اِن سکندروں کو روکا جا سکے کہ آئندہ وہ اِس قسم کی روش دْھرانے سے پہلے ہزار بار سوچ لیں کہ ہمیں بھی روزِ محشر سے پہلے جہانِ فانی میں قانون کے سامنے جواب دہ ہونا اور سزا بھگتنا ہے مگر اس مقصد کے لیئے پارٹی کے دیگر قائدین تو دْور ان کا اپنا سگا بھائی بھی تیار نہیں ہے کہ

مقتدرہ سے باز پرس ہو سکے ۔لندن میں ذمہ دار عناصر کے متعلق نواز شریف نے معمولی لب کشائی کیا کر دی تھی کہ شہباز شریف اپنی تھکاوٹ کو دْور کیئے بغیر بھاگے دوڑے دوبارہ لندن پہنچ گئے اور وہاں ہزار منت سماجت کے بعد نواز شریف کو راضی کرنے میں کامیاب تو ہو گئے کہ

انتخابات میں عمران خان کو شکست دے کر کامیابی حاصل کرنے کے لیئے ہم عوام کو کچھ سبز باغ دکھائیں گے ، گزشتہ دورِ حکومتوں کی چند مثالیں دیں گے اور پھر مقتدرہ کے تعاون سے انتخابات میں ہم عمران خان کو شکست دیں گے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ دلیل ایک حد تک درست بھی ہے

کیونکہ مقتدرہ عمران خان کی پارٹی کو بہر طور ہرانے کے درپے ہے اور اس مقصد کے لیئے پنجاب میں نواز لیگ مقتدرہ کے پاس موجود دیگر تمام مْہروں سے زیادہ مضبوط اور موثر ترین ہے مگر اِس سے آگے اہم ترین درپیش مسئلہ یہ ہے کہ لیگی قیادت پنجاب کے عوام کی مزاج کا کیا کریں گے

جو ملک کو نزع کی عالم تک پہنچانے کے ذمہ داروں سے تنگ آ چکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تمام تر معاملات میں اْن عناصر کی غیرضروری دخل اندازیوں سے ملک محفوظ رہے اوریہ بھی کہ عمران خان دل ہی دل میں اگرچہ ان عناصر کے ساتھ ہمکاری کے لیئے بے تاب ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ عوامی سطح پر اور نمائش کی حد تک عمران خان ان عناصر کو سخت ترین چیلنج کر رہے ہیں جس کے سبب عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت عمران خان کی پشت پر ہیں

اور ان کے ساتھ ہمدردانہ جذبات اور جْھکاؤ رکھتے ہیں۔ ملک کے دیگر اقوام اور اکائیوں کے علاوہ ” جو پہلے ہی مقتدرہ کی جابرانہ روش سے بیزار ہونے کے سبب تنگ آ کر سخت ترین ردعمل ظاہر کرنے کے لیئے آمادہ دکھائی دے رہے ہیں” پنجاب کے مڈل کلاس اور غریب طبقات کے اندر مذکورہ عناصر کے خلاف نفرت کے جذبات شدت کی حد تک سر اْٹھا چکے ہیں

لہٰذا اس صورت حال میں کس طرح ممکن ہے کہ نوازشریف اپنے مداریشہباز شریف کے نقشِ قدم پر چل کر تمام مثبت اقدامات اور بہتر کارکردگیوں کو اْن عناصر کے کھاتے میں ڈال دے جو اپنی فطرت میں کرپشن ، لوٹ مار اور جابرانہ اقدامات کے علاوہ کچھ اورنہیں جانتے

اور ناکامیوں کی ذمہ داریاں خود قبول کر لیں، اس طرح کرنا شاید نواز شریف کے لیئے ممکن نہ رہے پھر یہ بھی کہ اْن عناصر کی مزاج و طبیعت بھی تو عجب بنیادوں پر استوار ہے وہ نہ صرف موجودہ دور میں خود کو قوانین اور پابندیوں سے بالا تر سمجھتے ہیں بلکہ ان کا عزم مصمم ہے کہ ملک کے قیام سے لیکر آج تک وہ اور ان کے پیشرو جو کچھ کرتے رہے ہیں اْن سب سے کوئی باز پرس یا تنقید اور سزا نہ ہو، اب اس طرح تو دنیا میں کوئی بھی انسان ،

گروہ یا ادارہ نہیں کر سکتا کہ وہ جو کچھ چاہے کر تا پھرے لیکن اوراْن سے باز پرس کرنے والا کوئی نہ ہو ۔جو لوگ موجودہ دور میں ریاستی مناصب پر براجمان ہیں اْن کے ساتھ ساتھ پیشروؤں کے تذکرے تک گناہِ کبیرہ ٹھہر جائیں اس قسم کی روش سے دنیا بالکل بھی آشنا نہیں ہے۔

نہیں کہنا چاہیے مگر سچ تو یہی ہے کہ مقتدرہ کے ساتھ دو دو ہاتھ کیئے بغیر پاکستان اور جمہوریت یا جمہوری طرزِ حکومت ، شفاف اور غیرجانبدارانہ انتخابات ایک ساتھ نہیں چل سکتے اس مقصد کے لیئے سیاسی پارٹیاں مقتدرہ کے ساتھ پنجہ آزمائی کر کے جمہوریت کو عقوبت کی سزا اور اذیت سے نجات دلا دیں۔

جمہوری پارٹیوں میں اتنی جان نہیں ہے کہ وہ جمہوریت کو اْس کی روح اور ماہیت کے مطابق بحال کر دیں جس کے باعث جمہوریت حقیقی معنوں میں بحال ہو سکے پی ڈی ایم میں شامل پارٹیوں کی طرح عمران خان بھی نہیں چاہتے کہ جمہوریت بحال ہو ۔

لہٰذا پاکستان کے اختیار داروں کو چاہیے کہ وہ انتخابات کا ڈھونگ رچا کر عوام کو تکلیف سے دوچار کئے بغیر اپنے منظور نظر لوگوں کو منتخب کر کے سامنے لائیں اور وزیر بنا دیں ویسے بھی ملک کی تاریخ میں اب تک یہی ہوتا رہا ہے بس اس کو قانونی شکل دے کر یا پھر روایت بنا کر رائج کر دیں تاکہ

یہ قصہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے صاف ہو سکے۔اس سوال پر عدالت کے ذریعے بحث و تکرار کر کے فیصلہ کروانا وقت ضائع کرنے کے برابر ہے کیونکہ ایک بات تو پہلے سے ہی طے ہے کہ ان انتخابات کے نتائج کو کسی نے قبول توکرنا نہیں ہے اور نہ ہی اس خوش فہمی میں رہنا چاہیے کہ

ان انتخابات کے بعد ملک میں سیاسی استحکام آئے گا اور ملکی معیشت ترقی و پیش رفت کی جانب گامزن ہو جائے گی

اور ملک میں غیرملکی سرمایہ کار آ کر سرمایہ لگا دیں گے۔ ان مقاصد کے سامنے رکاوٹ پیدا کرنے کے لیئے اور شفافیت کے ساتھ انتخابات کے انعقاد کو مشکوک بنانے کے لیئے پی ٹی آئی اس وقت بھی مصروف عمل ہے پھر ملک کی مقتدرہ بھی ان کے ہاتھوں بے بس دکھائی دے رہا ہے ورنہ جو کچھ عمران خان نے کر دیا ہے

وہ کوئی اور کرتا تو اس وقت تک اس ملک میں ان کی پارٹی کے نام لینے والے تک نہ ہوتے مگر ان کو جیل میں بھی وہ سہولیات میسر ہیں جن کے متعلق کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس انہونی وجہ اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے کہ ترقی یافتہ دنیا کی نظریں اس عمل پر مرکوز ہیں کہ پاکستان کی مقتدرہ عمران خان کے ساتھ کس قسم کا برتاؤ روا رکھتی ہے کاش کہ محکوم اقوام کے ساتھ مقتدرہ کی روش جس قسم کی ہے دنیا اس جانب بھی متوجہ ہوتی۔

اب یہ نکتہ کہ متعینہ تاریخپر انتخابات ملتوی ہوں اس کے لیئے سپریم کورٹ تیار نہیں ہے اور پھر بین الاقوامی دباؤ بھی ہے مگر ان انتخابات میں چونکہ پی ٹی آئی کے لیئے دائرہ تنگ کر دیا گیا ہے اس لیئے پی ٹی آئی کے امیدوار انتخابی عمل سے باہر رہیں گے یا پھر ان کی کامیابی کے امکانات بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہونگے لہذا انتخابات کے بعد ملک سیاسی استحکام کی جانب بڑھے گا اس خیال کو دل سے نکال دینا چاہیئے جس طرح کہ گزشتہ بارہ سالوں کے دوران پاکستان سیاسی کشاکش کی کیفیت سے دوچار رہا ہے

یا پھر شہباز شریف کے دور سے اب تک ملک کو جس صورت حال کا سامنا رہا ہے ،انتخابات کے بعد کے دور کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیئے ،ہاں البتہ اتنے مقدمات میں سے کسی ایک میں عمران خان کو عمر قید کی سزا ہو اور پی ٹی آئی پر پابندی لگ جائے تو یہ الگ بات ہے ویسے اِس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا مگر یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ملک سیاسی اور معاشی استحکام کی جانب آگے بڑھے گابلکہ اس کے برعکس جس طرح کہ ڈاکٹر الہان نیاز نے کہا ہے وہ امکان بھی موجود ہے