|

وقتِ اشاعت :   December 23 – 2023

جس طرزِ سیاست پر ملک کی بڑی پارٹیاں مسلم لیگ نواز ، پی پی اور پی ٹی آئی یقین رکھنے کے سبب مصروف عمل ہیں

اْس سے اْن کی ذات ، پنجاب اور مقتدرہ عیش و نوش سے بہرآور ہو سکتے ہیں مگر ان کے ارمانوں کی نگری کی آبادی سے آگے اگر دیکھا جائے تو ملک کے محکوم اقوام اور محنت کش طبقات سمیت قانون ، عدل و انصاف ، انسانیت کی قدر و منزلت اور جمہوری نظام حکومت پر عمل پنجرے کے پنچھی کی مانند بدستور قفس میں ہیں جن کے درد سے بھی یہ لوگ ناواقف ہیں ۔

اب دیکھیئے کہ موجودہ دور کی معروضی تقاضوں کے تحت قومی اکائیوں کو با اختیار بنانے کے لیئے اگرچہ ضرورت اِس امر کی ہے کہ

اٹھارویں ترمیم میں موجود تمام تر کمزوریوں کو دْور کر کے ملک کے محکوم قومی اکائیوں کو مزید اختیارات دیئے جائیں مگر لگتا ہے کہ اس مقصد کے لیئے مقتدرہ چونکہ تیار نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس مقتدرہ کی خواہش ہے کہ

اٹھارویں ترمیم کو ختم کر دیا جائے یا وفاق کی مالی بوجھ کو محکوم قومی اکائیوں اور خصوصاّ بلوچستان کے سر لادا جائے مثلاّ مقتدرہ اور ان کے منظور نظر سیاست دان اس وقت بھی ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیئے بلوچستان کے ریکوڈیک اور ساحل پر نظر رکھ کر خود کو معاشی بحران اور گرداب سے نکالنے کی کاوش میں مصروف عمل ہیں ۔

ملک کے مردہ ضمیر مقتدرہ کی خود غرض اور متکبرانہ مزاج کے متعلق کوئی کیا کہے جن کو ایک طرف بلوچستان اپنی آنکھ بلکہ ساہ و نفس سے زیادہ عزیز ہے جبکہ دوسری جانب ملک کے حکمرانوں کو اپنے ہم فکر بلوچ اور غیر بلوچ سیاست دانوں کے ساتھ بلوچ باشندوں سے شدید ترین نفرت ہے۔ اس کے لئے کوئی کیا مثال دے ویسے ہر کسی کو علم ہونے کے سبب ضرورت تو نہیں ہے

مگر پھر بھی ملک کے اداروں کے ہاتھوں ہر روز بلوچ باشندوں کی گمشدگیاں، عورتوں کی گرفتاریاں، بے حرمتیاں اور پھر تشدد زدہ لاشیں اس دلیل پر مْہر ثبت کر دیتی ہیں ، ان کے علاوہ بلوچ طلبا اور طالبات کے لیئے دنیا و جہاں کے دروازے کھلے ہیں

وہ اس دنیا میں جہاں چاہیں جدید ترین سائنسی اور فنی علوم حاصل کر سکتے ہیں

مگر اس روئے زمین پر پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں بلوچ طلبا اور طالبات کو علم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔بلوچ اگر تعلیم حاصل کرنے کے لیئے پنجاب کا رخ کریں تو وہاں جماعت اور سرکار کے غنڈے بلوچ طلبا کو مارنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی بلاجواز الزام میں کافروں کی طرح عقوبت خانوں میں سزا کے لیئے ڈالنے اور گمشدہ کرنے کے لیئے تیار کھڑے ہیں ۔

ان حالات میں جبکہ ملک کی بڑی پارٹیاں سیاسی اور معاشی فوائد کے حصول اور تحفظ ذات کی خاطر ملک اور مظلوم اقوام کی پرواہ کیئے بغیر ذاتی اور سیاسی اغراض حاصل کرنے کے درپے ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ محکوم قومی اکائیوں کے قوم دوست سیاست دانوں کو بڑی پارٹیوں کا لحاظ کئے

بغیر بلکہ ان سے الگ ہدف اورحکمت عملی ترتیب دے کر چلنا چاہیئے

محکوم اقوام کے قوم دوست پارٹیوں کو ان اقوام کو درپیش یکساں نوعیت کے مسائل کے حل کی خاطر پرامن بقائے باہمی ، برداشت اور بھائی چارگی کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے کے ساتھ ایکتا پیدا کر کے آگے بڑھنا چاہیئے۔

محکوم اقوام کے قائدین سیاسی میدان میں سرگرم ہونے کے سبب ہم سے زیادہ خود بھی تجربہ رکھتے ہیں اس لیئے کہ ان کو ملک کی پوری سیاسی تاریخ اور پھر گزشتہ 35 سالہ دور کی سیاست پر “جس میں قائدین خود کسی نہ کسی شکل میں شریک اور سرگرم عمل رہے ہیں”

نظر دوڑا کر نہ صرف دیکھنا بلکہ سمجھ لینا چاہیئے کہ اس دوران محکوم اقوام کے نمائندے مذکورہ بڑی پارٹیوں کے ساتھ حکومتوں میں اگر شراکت دار رہی ہیں تو اس سے ان نمائندوں نے کس حد تک مظلوم اقوام کی نمائندگی کا فریضہ سرانجام دیا ہے

اور بڑی پارٹیوں نے مظلوم اقوام کے نمائندوں کو ملک میں قومی جبروبالادستی کے خاتمے اور قومی برابری کے اہداف اور مقاصد کے حصول کے سلسلے میں مظلوم اقوام کے قوم دوست نمائندوں کے ساتھ کس حد تک تعاون کیا ہے ۔

یہاں پر ہم سمجھتے ہیں کہ بڑی پارٹیوں نے محکوم اقوام کے لیئے آواز بلند کر کے اور جدوجہد کرتے ہوئے ملک میں قومی برابری اور یکساں ترقی کے لیئے جدوجہد کرنا تو درکنار مقتدرہ کی منشا اور اشاروں کے بغیر ملک میں بحالی جمہوریت کے لیئے بھی کبھی جدوجہد نہیں کی ہے ،سوال اگر محکوم اقوام کے قائدین کے ساتھ ہمکاری اور تعاون کی ہو تو ان بڑی پارٹیوں کا کردار انتہائی حدتک مشکوک رہا ہے جو مقتدرہ کے اشاروں پر محکوم اقوام کے خلاف فقط استعمال ہوتی رہی ہیں ۔

ان بڑی پارٹیوں کے تعاون سے محکوم اقوام کے قائدین کچھ بھی نہیں کروا سکے ہیں ہاں خاص ادوار میں کہیں پر اگر کچھ ہوا ہے تو اس کی وجہ بلوچ نمائندوں کا کمال اور کارکردگی سے زیادہ مقتدرہ کے اہداف اور مْتعینہ ٹارگٹ رہے ہیں یا پھر ناخوشگوار واقعات اور حادثات نے ان کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ وقتی طور پر اور دکھاوے کی حد تک کچھ کریں ۔

اس سلسلے میں تقسیم بنگال کے بعد بلوچ قوم پرست سیاست دانوں کو کچھ کرنے کا موقع مل گیا تھا مگر بلوچستان حکومت کی مثبت کارکردگی کو دیکھتے ہوئے بدبخت مقتدرہ نے بہت کچھ کرنے سے پہلے مسٹر بھٹو کے ذریعے

بلوچستان کی حکومت کو نہ صرف برخاست کر دیا بلکہ بلوچوں پر فوج کشی بھی کر دی ۔

ماضی کے طرز عمل پر چلنے اور بڑی پارٹیوں سمیت مقتدرہ کے پیچھے پڑے رہنے سے بہتر یہی ہے کہ مظلوم اقوام کے نمائندے اور سیاسی پارٹیاں قومی محکومیت کے سوال کو اپنی سیاست کا محور اور منبع بنا کر عمل کرنا شروع کردیں کہ پاکستان چونکہ چار مختلف اکائیوں” اقوام ” پر مشتمل ایک ملک ہے لہٰذا ملک کے اِن اکائیوں میں جو آمدن اور وسائل موجود ہیں یا پیدا ہو سکتے ہیں ان پر اوّلین استحقاق اْنہی اکائیوں کی عوام کا ہے اس کے علاوہ یہ بھی کہ ایک دو شعبوں کے علاوہ دیگر تمام اختیارات قومی اکائیوں کے حوالے کر دیئے جائیں

تاکہ قومی اکائیاں خود کو محفوظ سمجھ لیں اور ملک ماضی کی ناگوار تجربات سے بچ کر یکسوئی کے ساتھ آگے بڑھ سکے۔ طویل دور تک اس پالیسی پر چلتے رہنا کہ بلوچ نوجوانوں ، طلبا، طالبات، سیاسی اور سماجی کارکنان کے لیئے پنجاب میں پڑھنا یا ظلم و جبر کی صورت میں احتجاج ریکارڈ کروانا ممکن نہ رہے، اس پر بلوچ قوم دوست قیادت کو خود بھی سوچ لینا چاہیئے کہ بلوچ قوم کی جانب سے جلد یا بدیر اس پالیسی کے خلاف شدید ترین ردعمل آنا ہے۔