|

وقتِ اشاعت :   December 26 – 2023

ملک کے دیگرحصوں کی طرح بلوچستان میں بھی سیاسی پارٹیوں نے آنے والے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے کمر کس لی ہے،

یہ سلسلہ جس طرح شروع ہوا وہ ایک الگ رام کہانی ہے۔امریکی سائفر سے لیکر نگراں حکومتوں کی تشکیل اور آئین سے ہٹ کر تادم تحریر ان کی موجودگی خود بڑا المیہ اور سوال ہے لیکن یہ سوالات ہر دور میں نئی کہانیوں کو جنم دینے کا سبب بنتی ہیں

ایسے میں سیاسی پارٹیوں کا اپنے منشور سے ہٹ کر ذاتی گروہی مفادات کے گرد سیاست نے انہیں عوام سے انتہائی دور کردیا ہے۔خصوصاً بلوچستان کی سیاست میں اس کے انتہائی منفی نتائج سامنے آسکتے ہیں یہ سیاسی جماعتیں اپنے منشور اور کاز سے ہٹ کر اسلام آباد سرکار کے ایسے گرویدہ بن جاتی ہیں کہ

لگتا ہی نہیں کہ یہ بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتیں ہیں یا کہ پنجاب اور آزاد کشمیر کی سرزمین سے ان کا تعلق ہے، ان سیاسی جماعتوں اور پنڈتوں نے عوام کو سوائے مایوسی کے ابتک کچھ نہیں دیا ہے۔آج بھی بلوچستان کے سلگتے مسائل جوں کے توں ہیں بلکہ ان اوربھی اضافہ ہوا ہے کمی نہیں آئی ہے۔ایسے میں ان سیاسی جماعتوں کے قوم و فعل میں تضاد

اور ان کے اراکین اسمبلی کا کردار بھی عوام سے پوشیدہ نہیں جنھوں نے عوام کے مسائل کم اور اپنے اور اپنے خاندان کے مسائل پر توجہ دیکرحکومتوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے اور یہ سلسلہ رکا نہیں مستقبل میں بھی چلتا رہے گا

اس لئے آج بلوچستان کا نوجوان سیاسی جماعتوں سے بیزار اور نالاں نظر آتا ہے، ان کے اراکین اسمبلی نے ان نوجوانوں کو شدید مایوسی کا شکار بنادیاہے۔ان اراکین اسمبلی کی مالی حالت پہلے کیا تھی اور ساڑھے تین یا چار سال میں ایم پی اے بن کر کیا بنی وہ بھی عوام کے سامنے روزروشن کی طرح عیاں ہے جسے عوام سے کسی صورت چھپانا ممکن نہیں،

اور نہ ہی اکیسویں صدی میں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکا جاسکتا ہے خصوصاً سوشل میڈیا کے اس تیز رفتار دور میں؟

اب سیاسی جماعتوں نے کارکنوں کے تحفظات اور شدید ناراضگیوں کو بالائے طاق رکھ کر ایک بارپھر چند مخصوص اور پرانے امیدواروں کوانتخابات میں اتارنے کیلئے میدان میں لانے کا فیصلہ کرکے عوام اورکارکنوں میں شدیدبے چینی اور مایوسی پیدا کی ہے جس کے مستقبل میں ہونے والے انتخابات میں انتہائی منفی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔

کارکنوں کا گلہ ہے کہ جن سابقہ اراکین اسمبلی نے پارٹی اور عوام کیلئے کوئی کارکردگی نہیں دکھائی انہیں ٹکٹ دے کر دوبارہ نوازا گیا ہے جس سے لازمی بات ہے کہ کارکنوں اور عوام میں شدید بددلی پیدا ہوچکی ہے۔

اب یہ بات وہ ہر نجی محفل میں کہتے نظر آتے ہیں کہ وہ انتخابات میں ان آزمائے ہوئے لوگوں کو کسی صورت دوبارہ ووٹ نہیں دینگے

جوکہ انتہائی خطرناک بات ہے،

پارٹی سربراہان کو چاہئے تھا کہ وہ پرانے کارکنوں کی باتوں اورشکایات کو اہمیت دیتے ہوئے نئے لوگوں کو ٹکٹ دینا چاہئے تھا جنہیں انتخابات میں آزمایاجاتا تو زیادہ بہتر ہوتا، پرانے آزمائے لوگوں کو دوبارہ آزمانا خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔انہوں نے عوام کا خیال تک نہیں رکھا اپنا بینک بیلنس بڑھانے،نئے گھروں کی تعمیر اور ان کی تزہین و آرائش پربھرپور توجہ دی، اس لئے اب عوام اور نوجوانوں میں شدید اضطراب پایاجاتا ہے جو قوم پرست پارٹیوں کیلئے نیک شگون نہیں۔