بلوچستان اور اسلام آباد کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کا وقت آگیا ہے ،
بلوچستان کے اہم مسائل کو حل کرنا بہت ضروری ہے تاکہ بلوچستان میں امن وامان سمیت خوشحالی کے دور کا آغاز ہوسکے اور اس کے لیے سب ہی کوشاں ہیں کہ بلوچستان امن کا گہوارہ بنے اور ترقی کی راہ پرگامزن ہوسکے۔ بلوچستان کی محرومیوں کا خاتمہ ہوسکے
بلوچستان کے اسٹیک ہولڈرز کے وفاق کے ساتھ جن معاملات پر تحفظات ہیں انہیں دور کرنا بھی ناگزیر ہوچکا ہے۔
بلوچستان نہ صرف ملک میں بلکہ پورے خطے میں اہمیت رکھتا ہے اس کی اہمیت اور جغرافیہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بلوچستان میں تجارت کو فروغ دیاجاسکتا ہے یہ اس وقت ممکن ہے جب بلوچستان کے اندرونی معاملات کو حل کیاجائے
خاص کر اس میں سیاسی مسائل سرفہرست ہیں جن کی نشاندہی قوم پرست جماعتوں سمیت تمام بلوچستان کی سیاسی جماعتوں نے کی ہے کہ وفاق بلوچستان کے مسائل کو ترجیح دیتے ہوئے اس کے لیے ایک مکمل میکنزم بنائے تاکہ یہ دیرینہ مسائل جو ہر چند عرصے بعد سراٹھاتے ہیں
جس میں لاپتہ افراد کا مسئلہ بھی خاص طورپر شامل ہے جس کے لیے کمیٹیاں ماضی کی حکومتوں کی جانب سے بھی بنائی بھی گئیں مگر کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوئی اب اس مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ لینا ضروری ہے
اور آئینی وقانونی طریقے سے اسے حل کرنے کے حوالے سے بلوچستان کے تمام اسٹیک ہولڈر کو کمیٹی میں شامل کیاجائے تاکہ مستقل بنیادوں پر یہ کام کرے اور یہ معاملہ حل کی جانب بہتر انداز میں بڑھ سکے۔ گزشتہ روز نگران وزیراعلیٰ بلوچستان میر علی مردان ڈومکی نے کہا کہ
بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال ماضی کی نسبت بہت بہتر ہے نگران صوبائی حکومت عام انتخابات کے انعقاد کے لیے پرعزم ہے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ ایک اہم مسئلہ ہے، جس کے لیے مختلف کمیٹیاں اور کمیشن قائم کیے گئے ہیں، ان کمیٹیوں کی فیکٹ فائنڈنگ سے قبل کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا
، جس کے بارے میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس سلسلے میں لاپتہ افراد کمیشن کام کر رہا ہے اور بہت سے لوگ اپنے گھروں کو واپس آ چکے ہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے ان خیالات کا اظہار سندھ کے علاقے سکھرنڈ کے نواحی گاؤں شاہ میر راہو میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا کہ ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تربت واقعے پر بنا دی گئی ہے۔
ملزم اہلکاروں کو برطرف کرکے شفاف تحقیقات کی جارہی ہے۔ اسلام آباد میں مظاہرین کے ساتھ ناروا سلوک کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیر اعلیٰ نے کہا کہ تین وفاقی وزراء پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ اسلام آباد پولیس کو ریڈ زون میں داخلی راستے پر معمول کی کارروائی کرنا پڑی، گرفتار مظاہرین کی اکثریت کو رہا کر دیا گیا ہے۔ باقی گرفتار افراد کو مذاکرات کے ذریعے رہا کیا جائے گا۔
ماہرنگ بلوچ نے اپنے مطالبات تحریری طور پر دینے کا کہا ہے تاہم ابھی تک کمیٹی کو ایسے مطالبات موصول نہیں ہوئے ہیں۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ پاکستان کی ترقی اور مختلف قوموں کے درمیان بھائی چارہ قائم کرنا ہے۔
البتہ نگراں حکومت میں موجود وزراء مشیربھی بلوچستان میں دیرپا امن کی خواہش نہ صرف رکھتے ہیں بلکہ اس میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار بھی دکھائی دیتے ہیں مگراسے ایک منتخب حکومت نے ہی حل کرنا ہے۔ مرکز اور بلوچستان میں مخلوط حکومت ہی بنے گی ان کی ترجیحات میں بلوچستان کے مسائل کا حل لازمی شا مل ہونا چاہئے اور اپوزیشن کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنا ہوگا۔ امید ہے کہ بلوچستان کے مسائل حل کی طرف بڑھیں گے بلوچستان کے دیرینہ مسائل حل ہونے سے ملک میں ایک مثبت تبدیلی رونما ہوگی۔