|

وقتِ اشاعت :   December 31 – 2023

بلوچستان میں ریاستی جبر اور استحصال کیخلاف ابھرنے والی تحریکوں کی اپنی ایک تاریخ ہے لیکن حالیہ تحریک کا اپنا ایک پس منظر، انفرادیت اور چند ایک خصوصیات ہیں گوکہ اس کے ابھرنے کے محرکات و عوامل میں سماجی، معاشی ، معاشرتی اور ثقافتی استحصال و محرومیاں شامل ہیں لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے بلوچستان میں جاری نوآبادیاتی پالیسیوں کے نتیجے میں ماروائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں اور ڈیتھ اسکواڈز جیسے سنگین مسائل نے اس نئی عوامی مزاحتمی تحریک کی آبیاری میں کلیدی کردار ادا کیا ہے جبکہ 22نومبر کو تربت میں بالاچ مولابخش کے ماروائے عدالت قتل کے اندوہناک واقعہ نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ یہ واقعہ ہمیشہ ایک عہد ساز واقعہ کے طور پر یاد رکھا جائے گا کہ جس نے نہ صرف تمام بلوچوں کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کی چھتری تلے ایک ماس موبلائزیشن اور سیاسی مزاحمت کے لیے تیار کردیا بلکہ مسنگ پرسنز کے لواحقین کے دلوں میں بھی اْمید کی ایک نئی کرن پیدا کرکے مجموعی طور پر بلوچ معاشرہ کو متحرک کردیا۔ جبکہ اس تحریک کو منظم کرنے اور موثر بنانے میں ڈیجیٹل میڈیا کا ایک اہم اور نمایاں کردار رہا ہے۔ نوجوان قیادت نے ڈیجیٹل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز کو انتہائی موثر طریقے سے استعمال کرکے نہ صرف تمام بلوچوں کو تحریک سے جوڑدیا بلکہ وہ اپنی آواز اور تحریک کے مطالبات کو ملک اور بیرون ملک پہنچانے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ ماضی میں وہ اس طرح کی تحریکوں کو منظم اور مربوط کرنے اور خاطر خواہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے لیکن اب کی بار انہوں نے اس فرنٹ پر بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔
اس تحریک میں نہ صرف خواتین ہر اول دستے کا کردار ادا کررہی ہیں بلکہ تحریک کی قیادت انہی کے ہاتھوں میں ہے جن کا تعلق بلوچوں کی نئی پڑھی لکھی مڈل کلاس سے ہے ،یہ وہ خواتین اور بچیاں ہیں جن میں سے کسی کا خاوند، کسی کا بھائی، کسی کا والد، کسی کا منگیتر، کسی کا بیٹا جبری گمشدہ یا ماروائے عدالت قتل ہوچکا ہے جبکہ خواتین کی بھرپور شرکت نے اس نئی ابھرتی ہوئی تحریک کے ترقی پسندانہ کردار کو مزید نمایاں کرکے اس میں ایک سیاسی کشش پیدا کردی ہے۔ علاوہ ازیں اس تحریک میں بچے، بوڑھے ،بزرگ، نوجوان ، طالب علم اور بلوچ معاشرے کے تمام پرتوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ یہ تحریک تادم تحریر ایک وسیع عوامی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے یوں اس کی پشت پر ایک بڑی عوامی قوت موجود ہے۔
یہ تحریک ماضی کی سیاسی و عوامی تحریکوں سے کئی گنا بڑی ہے جس کی اپیل پر بلوچستان کی تاریخ کے سب سے بڑے اور کامیاب احتجاج، دھرنے، مظاہرہ، شٹرڈاؤن ہڑتال اور پہیہ جام ہڑتالیں ہوئی ہیں۔ کیچ سے لے کر کوئٹہ تک، کوئٹہ سے لے کر اسلام آباد تک اس تحریک کے طویل لانگ مارچ کے دوران ایک گملہ ٹوٹا اور نہ ہی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا البتہ ریاستی اداروں نے ان کے راستے میں ہرقسم کی رکاوٹیں کھڑی کرکے انہیں بے رحمانہ تشدد کا نشانہ بنایا لیکن شرکا ء نے تمام رکاوٹوں کو خوش اسلوبی سے عبور کرتے ہوئے اپنی بہادر اور نڈر قائد ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کی قیادت میں اسلام آباد تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
اس وقت یہ بلوچستان کی سب سے بڑی عوامی تحریک ہے جو پورے بلوچ معاشرے میں سرایت کرچکی ہے۔ اس کی عوامی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ مارچ جہاں جہاں سے گزرا ہے وہاں کے لوگوں نے نہ صرف ان کا فقید المثال استقبال کیا ہے بلکہ ان پر گل پاشیاں بھی کی ہیں۔ اس تحریک کو نہ صرف بلوچستان میں بلکہ سندھ اور پنجاب کے بلوچ علاقوں کے علاوہ غیربلوچ علاقوں میں بھی بڑی عوامی حمایت مل رہی ہے۔ ان کے مطالبات کے حق اور ان پر ریاستی تشدد کے خلاف بڑے بڑے عوامی اجتماعات اور مظاہرے ہوئے ہیں۔ لاہور جیسے شہر میں بھی ایک بہت بڑا عوامی احتجاج ہوا ہے۔ اس تحریک کی عوامی حمایت اور شدت نے عالمی ذرائع ابلاغ کو بھی اپنی طرف متوجہ کردیاہے۔ اس کی باز گشت پوری دنیا میں محسوس کی جاری ہے۔ یورپی یونین سے لے کر امریکی وزیر خارجہ تک سب نے لب کشائی کی ہے۔
یہ ایک پْرامن عوامی تحریک ہے لیکن ریاستی ادارے اور ان کے گماشتے دانستہ طور پر انہیں مشتعل کرکے تشدد پر اکسانے اور ریاست مخالف بنانے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں تاکہ اسے بھرپور عوامی حمایت سے محروم کرکے آسانی کے ساتھ کچل دیا جائے۔ اس تحریک کی قوت محرکہ ریاستی جبر اور استحصال ہے یہ وہ بنیادی حقائق ہیں جسے ارباب اختیار ماننے کے لیے تیار نہیں بلکہ ان کے خلاف جو ریاستی و حکومتی بیانیہ پیش کیا جارہاہے وہ ان کے زخموں پر مزید نمک پاشی کے مترادف ہے۔ حکومتی بیانیے میں بے بنیاد الزامات اور بھونڈے پروپیگنڈہ سے حقائق کو نہ صرف چھپانے اورمسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے بلکہ حکومتی بیانیے سے ریاستی جبر کو مزید جواز فراہم کیا جارہاہے۔ ویسے بھی اپنی نااہلی اور کمزوری کوچھپانے کے لیے دوسروں کو موردالزام ٹھرانا بہت اچھا بہانہ ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین قائدین کو دہشت گردوں کی اولادیں کہنا نہ صرف مضحکہ خیز ہے بلکہ پوری انسانیت اور آئین و قانون کی حکمرانی کی جنگ لڑنے والوں کی توہین و تذلیل ہے۔ سرفرازبگٹی، انورالحق کاکڑ، جان اچکزئی اور علی مدد جتک جیسے لوگ اس استحصالی نظام کے بینیفشری ہیں اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ Quo Status برقرار رہے تاکہ اسلام آباد کی منڈی میں ان کی مانگ اور دام دونوں برقرار رہیں۔ حالانکہ ڈاکٹر مہرنگ بلوچ اور ان کے رفقاء کا بنیادی مقصد قانون کی بالادستی قائم کرنا ہے۔ وہ اس ملک میں آئین و قانون کی بالادستی چاہتی ہیں۔ وہ عدالتوں کو آزاد دیکھنا چاہتی ہیں وہ فئیر ٹرائل کا حق مانگ رہی ہیں۔ اپنے لاپتہ پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کررہی ہیں۔ ویسے ہی جبری طور پر لاپتہ کرنا انسانیت کے خلاف سب سے بڑا جرم ہے وہ اس جرم کے خلاف انتہائی جرات مندی سے سینہ سپر ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی ریاست سے انصاف، عدل، امن اور بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ چاہتی ہے ستم ظریفی یہ ہے کہ کشمیر اور فلسطین میں ہونے والے مظالم پر بات ہوسکتی ہے مگر پاکستان میں بلوچ یا دیگر محکوم اقوام کے حقوق پر بات غداری یا دہشت گردی قرار دی جاتی ہے اور اس کی سزا بھی بھگتنا پڑتی ہے۔
اس تحریک کے قائدین اور شرکاء نے عدلیہ سے لے کر مقنّنہ تک سب کے دروازوں پر دستک دی ہے کہ شاید ان کے دکھوں کا کوئی مداوا ہوجائے۔ بے حس حکمران ان کے زخموں پر مرہم رکھ دیں اور ان کے تحفظ کا کوئی بندوست ہوسکے لیکن انہیں نہ صرف ہر طرف سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ مزید تیسرے درجے کا شہری ہونے کا احساس دلا کر ریاستی جبر میں مزیدشدت لائی گئی۔ نتیجتاً انہوں نے تنگ آکر جد و جہد کا ایک اور آئینی طریقہ دھرنا، احتجاج اور لانگ مارچ کا راستہ اختیار کیا۔ جس نے ماس موبلائزیشن کے ذریعے معاشرے کے تمام پرتوں کو متحرک کرکے ایک عوامی تحریک کی شکل اختیار کرلی ہے جو کوہ باتیل سے لے کر کوہ سلیمان تک پھیلا ہوا ہے اس کی اثر اور شدت ریاستی ربڑ اسٹیمپ پارلیمنٹ کی طاقت سے کہیں زیادہ ہے۔
20دسمبر سے یہ تحریک ایک دھرنے کی شکل میں اسلام آبادنیشنل پریس کلب کے سامنے جاری ہے جس کے کلیدی مطالبات میں لاپتہ افراد کی بازیابی، ماروائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں کو روکنا، سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کے خلاف کاروائی، ڈیتھ اسکواڈ زکا خاتمہ، بلوچوں کے ننگ و ناموس اور جان کی تحفظ کا ضمانت جیسے بنیادی انسانی و دستوری مطالبات شامل ہیں۔ ان میں سے ایک مطالبہ ایسا نہیں ہے جو غیر آئینی یا ریاست مخالف ہو بلکہ پاکستان کا آئین و قانون اپنے ہی شہریوں کو غیر قانونی حراست، تشدد اور قتل کی اجازت نہیں دیتا، جرم کی صورت میں ان کو اپنی صفائی اور دفاع کا مکمل حق دیتا ہے لیکن ریاستی ادارے نہ آئین کو مانتے ہیں اور نہ ہی قانون کو، کیونکہ انہوں نے اس کثیرالقومی ریاست کو محکوم قوموں کا ایک جیل خانہ بنایا ہواہے جہاں قومی حقوق کی ہر آواز کو صرف طاقت کے بے رحمانہ استعمال سے خاموش کرنے کی پالیسی رائج ہے۔
اس ریاست میں ایک نہتی لڑکی سمی دین محمد اور ڈاکٹر مہرنگ بلوچ ، دہشت گردوں کے سہولت کار قرار دیے جاتے ہیں جوکہ اس ریاست کے شہری ہیں جبکہ دوسری طرف احسان اللہ احسان جیسے دہشت گرد اور اس کے سہولت کاروں کو ریاست کا دوست اور وفادار قرار دیا جاتاہے۔ آئین و قانون کو توڑنے اور روندھنے والوں کو قومی اعزازات سے نوازا جاتاہے جبکہ پْرامن مظاہرین پر لاٹھی چارج اور واٹرکنین کے ذریعے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتاہے یہی وہ مائنڈسیٹ، رویہ اور پالیسی ہے جو گزشتہ سات دہائیوں سے اس ملک میں رائج ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ ہو یا بلوچ یکجہتی کمیٹی وہ اس مائنڈ سیٹ اور نوآبادیاتی پالیسوں کے خلاف لڑرہی ہیں۔
طاقت کے گھمنڈ اور نشے میں ریاستی ادارے اپنے ہی شہریوں کے ساتھ جو ناروا سلوک کرتے ہیں یا ماروائے آئین و قانون جو اقدامات اٹھاتی ہیں عوام ان سنگین مظالم اور ناانصافیوں کوکبھی بھی نہیں بھولتیں۔ اس طرح کے سانحات اور واقعات قوموں کی اجتماعی شعور کا حصہ بن جاتی ہیں اور مدتوں تک یاد رکھی جاتی ہیں بلکہ ہر سال ان کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔ برٹش امپائر نہیں رہا لیکن میر محراب خان آج بھی زندہ ہیں۔ جنرل ایوب ، جنرل ضیاء ، جنرل مشرف نہیں رہے لیکن نواب نوروز خان، حمید بلوچ اور نواب اکبرخان بگٹی بلوچوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور ان کے قومی ہیروز ہیں۔ حیات اور بالاچ جیسے نوجوان ماروائے عدالت قتل کئے گئے لیکن ان کے لال لہونے ایک عوامی تحریک کو جنم دے کر انہیں زندہ کردیا۔ ریاستیں ہٹ دھرمی اور چودہراہٹ کی بنیاد پر نہیں بلکہ آئین و قانون کی بالادستی سے قائم رہتی ہیں۔
بلاشبہ بلوچ عوام نے عوامی مزاحمتی جدوجہد کی ایک شاندار مثال قائم کرکے اپنی تحریک کو اس خطے کی سب سے بڑی عوامی تحریک بنا کر قیادت خواتین کے ہاتھوں میں دے کر ترقی پسندی کی ایک بہت بڑی نظیر قائم کی ہے لیکن عوامی تحریکوں کو طویل عرصے تک عوامی ابھار کی حالت میں نہیں رکھا جاسکتا۔ انہیں ٹھوس سیاسی شکل دینے کے لیے ایسے ترقی پسندانہ سماجی و معاشی پروگرام درکار ہوتے ہیں جو ریاستی جبرکے سلگتے ہوئے مسائل کا حل پیش کرسکیں۔ اور عوام کی صحیح سمت درست رہنمائی کرسکیں، تحریک کے اگلے مرحلے کی پیش بندی کرسکیں۔