|

وقتِ اشاعت :   January 11 – 2024

ریاست جان بوجھ کر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لانگ مارچ کو طول دے کر دنیا کو بتانا چاہتا ہے کہ بلوچ آزادی نہیں بلکہ مملکتِ خداد سے انصاف چاہتے ہیں۔ اقوام متحدہ میں پسِ پردہ بلوچ جلاوطن رہنمائوں نے راہیں ہموار کیں تو ریاست نے یہ چال چل دی۔ ریاستی اداروں نے بالاچ بلوچ کو شہید کرکے بلوچ قوم کے جذبات کو ابھارا۔ بلوچ کو اس قدر مجبور کیا کہ وہ تربت تا کوئٹہ سب سے پْر ہجوم لانگ مارچ کیا

۔کوئٹہ پہنچتے ہی انہیں ایسی اذیتیں دی گئیں کہ لانگ مارچ نے اپنا رخ اسلام آباد کی طرف کرلیا وہاں انہیں طرح طرح کی اذیتیں دی گئیں۔ ٹھٹھرتی سردی میں واٹر کینن کا استعمال کیا گیا، شیلنگ کی گئی، بلوچ خواتین، بچے اور طلبا پر تشدد کیا گیا انہیں اسلام آباد سے زبردستی بسوں میں بٹھا کر کوئٹہ بھیجنا چاہا جس پر بلوچوں نے شدید ردِعمل احتجاج کی صورت میں دیا۔ اس قبل بھی بلوچ مسنگ پرسنز کے لواحقین اسلام آباد لانگ مارچ کی صورت میں آچکے ہیں لیکن اس بار اْن کا استقبال لاٹھی اور ڈنڈوں سے کیا گیا۔ 226 کے قریب افرادکو گرفتار کیا گیا جن میں طلباء، خواتین اور بچے بھی شامل تھے

۔ شہید بالاچ مولابخش کے ماورائے عدالت قتل سے دو باتیں واضح ہوکر سامنے آئی ہیں۔ ایک یہ کہ ریاست نے بلوچ قوم کو یہ پیغام دیا کہ وہ ملکی آئین و قانون سے بالاتر ہیں۔

جِن عدالتوں سے تم انصاف کی فریاد کرتے ہو ہم اس عدالت کو ہی نہیں مانتے۔ دوسری یہ کہ اس لانگ مارچ سے ریاست کے مفادات وابستہ ہیں یہ بات الگ کہ دوسری جانب ریاست نے یہ تاثر ظاہر کیا ہے کہ وہ اس لانگ مارچ سے سخت نالاں ہے۔ سردی میں کمبلیں چھیننا، اسپیکر اٹھا کر ساتھ لے جانے جیسی اوٹ پٹانگ حرکتیں ریاست کی غیرسنجیدگی کو ظاہر کرتی ہیں۔ ان حرکتوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ریاست بلوچ قوم کے جذبات سے کھیل کر اس مارچ کو طول دینے کے حق میں ہے اسے حل کرنے کے حق میں قطعی نہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج کے دوران سینکڑوں نوجوان اٹھائے گئے ہیں اورجنہوں نے احتجاج میں حصہ لیا ہے ان پر جعلی ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔

15 اگست 2020 کو جب تربت میں ایف سی ہلکار کے ہاتھوں حیات بلوچ کا قتل ہوا تو اس پر بلوچوں نے احتجاج کی صورت میں شدید ردِعمل دیا۔ مجبوراً ریاست نے ایف سی اہلکار کے خلاف ایف آئی درج کروادی اور انہیں گرفتار کرکے عمر قید کی سزا سنادی گئی۔ بالاچ مولابخش کے کیس میں سی ٹی ڈی انہیں عدالت میں پیش کرکے 10 دن کی جسمانی ریمانڈ لے لیتی ہے۔ اس کے بعد اسے شہید کردیا جاتا ہے

۔ احتجاج کی ایک نہ ختم ہونے والی لہر اٹھتی ہے ا سکے باوجود بھی ریاست مسئلے کے حل کی خواہاں نہیں ہوتی، سی ٹی ڈی اہلکاروں کے خلاف کاروائی تو دور کی بات ہے۔

البتہ سی ٹی ڈی اہلکار بھی اکثر بلوچ ہیں وہ بآسانی یہ کیس دو تین بلوچ افسران کے متھے چڑھا کر انہیں پھانسی کی سزادلواکر معاملہ ختم کرواسکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ وہ پوری دنیا کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ بلوچ قوم ریاست کے ساتھ ہیں اور وہ دہشت گروں کی مذمت کرتے ہیں اس مقصد کے لیے انہوں نے میڈیا کے کچھ ٹائوٹ تیار کئے جو بلوچ لواحقین کے کیمپ میں جاکر اْن سے بلوچ دہشت گرد تنظیموں کی مذمت کرواتے رہے۔ بجائے اس کے کہ وہ لاپتہ افراد کے مسئلے پر نظرثانی کرتے، وہ بارہا بلوچ لواحقین سے بلوچ دہشت گرد تنظیموں کی مذمت کرواتی رہیں۔

ہمارے نگران وزیراعظم جناب انوارالحق کاکڑ صاحب تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جو لوگ لاپتہ افراد کے لواحقین کی حمایت بھی کرتے ہیں وہ دہشت گرد ہیں یا انکے ساتھی ۔

کیا ریاست دنیا میں بلوچ کو دہشت گرد ثابت کرنا چاہتی ہے؟ یا یہ ڈرامہ رچا کر دنیا کو یہ بتانا چاہتی ہے کہ بلوچوں پر ظلم ریاست نہیں بلکہ بلوچ دہشت گرد کر رہے ہیں؟

اِس مقصد کے لیے انہوں نے حال ہی میں جمال رئیسانی کی سربراہی میں لاپتہ افراد کے لواحقین کے سامنے ایک کیمپ لگوادیا ہے جو بلوچ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف نعرے بلند کررہے ہیں۔ ریاست چاہتی ہے کہ ظلم بھی ہو اور امن بھی رہے۔ بلوچ خواتین نے دنیا میں ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے اور بتایا ہے ک

ہ بلوچ قوم اپنے حقوق کے لیے آخری دم تک لڑتی رہے گی۔ مہرنگ بلوچ، سمی دین بلوچ اور سیما بلوچ نے خواتین وہ جان ڈالی جس سے ہر بلوچ بچی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔