|

وقتِ اشاعت :   January 11 – 2024

پاکستان جیسا ملک کرہ ارض پر شاید ہی کہیں ہو جہاں مسائل میں گرے لوگوں کو اس حبس زدہ ماحول میں پریشانیوں اور مشکلات کے باوجود زندہ رہنے کے گْر آتے ہوں اور پھر اس پریشان حال پاکستان میں بھی ایک علاقہ ایسا ہے جہاں مسائل کے پہاڑوں سے لینڈ سلائیڈنگ کا سلسلہ جاری و ساری ہے اوریہ لیاری ہے جو دو دہائیوں تک خوف و دہشت کے دلدل میں دھنسے رہنے کے بعد نکل کر بھی مسائلستان ہی نظر آتا ہے


موسیقی ،کھیلوں اور دنیا میں نام بنانے والے قابل لوگوں کا یہ علاقہ لیاری صرف اسی وقت باقی ملک ،میڈیا یا سیاستدانوں کی نظروں میں آتا ہے جب فٹبال کے عالمی مقابلے ہورہے ہوں یا یہاں کا کوئی بچہ دنیا میں فتح کے جھنڈے گاڑھ رہا ہو یا پھر ماضی کی طرح کوئی گینگسٹر دن دیہاڑے کسی کو زمین میں گاڑھتا نظرآئے وگرنہ لیاری کا نام لیوا کوئی نہیں۔۔ لیاری کہاں ہے ؟کیوں ہے ؟کس جگہ ہے ؟

باقی شہر کو صرف اتنا ہی بتایا جاتا ہے کہ بڑا ہی دہشت ناک علاقہ ہے نوگو ایریا ہے بھئی نوگو ایریا حالانکہ شہر کی ابتدا اسی غریب علاقے سے ہوئی تھی ڈیفنس ،گلشن اورجوہر جیسے علاقے تو ابھی ہماری گناہ گار آنکھوں کے سامنے آباد ہوئے ہیں لیاری کے نام پر سیاست چمکانے والے مذہبی ،پرانی اورنئی جماعتوں کو بھی اس کی اس وقت یاد آتی ہے جب انتخابات قریب ہوں یا کسی ترقیاتی منصوبے کے نام پرفنڈز کی منظوری کا معاملہ ہو یا سیاست چمکانے کا موسم۔


اب جب انتخابی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں تو لیاری والوں کا بھی فرض ہے کہ اپنے مسائل ان نام نہاد خادموں کے سامنے رکھیں جو اگلے پانچ سال مزید لیاری کے نام پر حکومت کریں گے تو بحیثیت لیارین ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ایک ایک کرکے مسائل ان سیاسی مجسموں کو گنوائیں جو جیتنے کے بعد ساکت ہوکر گونگے اوربہرے ہونیوالے ہیں
لیاری کا سب سے بڑا مسئلہ
لیاری کا سب سے بڑا مسئلہ اس وقت بجلی کا ہے جہاں باقی شہر کی طرح لیاری میں بھی کے الیکٹرک کی تانہ شاہی جاری ہے مہنگائی کے دنوں میں آنے والے بڑے بڑے بل لوگوں کیلئے درد سر بن چکے ہیں جنہیں لیاری کے پندرہ بیس ہزار تنخواہ لینے والے لوگوں کیلئے بھرنا آسان نہیں پھر اس پر کے الیکٹرک کی جانب سے بجلی کی چودہ چودہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ اور بھاری بھر کم بلوں نے اذیت میں مبتلا کردیا ہے

تو احتجاجاً لیاری والوں نے بجلی کے بل ادائیگی سے ہاتھ اٹھالیے ہیں

اور وہ بھی اب اس اندھیر نگری میں ہی رہنے کو ترجیح دینے لگے ہیں جہاں لوگ بجلی آنے کا کم اور جانے کا انتظار زیادہ کرتے ہیں
لیاری کا دوسرا بڑامسئلہ
لیاری کا دوسرا سب سے بڑا مسئلہ گیس کا ہے یعنی ایندھن ہو تو چولہا جلے جب گیس ہی نہیں تو چولہا کیا خاک جلے گا جس کی وجہ سے اس گنجان آباد علاقے میں رہنے والے لوگ کبوترکے پنجروں جیسے فلیٹ کے کمروں ،گھروں اور مکانات میں لکڑیاں جلانے یا نت نئے چولہوں کے استعمال پر مجبور ہیں۔ جہاں کراچی شہر کے دیگر علاقوں میں گیس پریشر نہیں تو وہیں لیاری کے ایسے کئی علاقے ہیں

 جہاں پریشر تو اپنی جگہ سرے سے گیس ہی نہیں آرہی اور اس گیس کی قلت کو بھی دوسال ہونے کو ہیں، اس پر جب سوئی سدرن گیس کمپنی والوں سے بات کریں تو وہ جواب دیتے ہیں کہ 107ایم ایم سی ایف ڈی گیس میں کمی کا سامنا ہے یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ کیا کمی صرف لیاری والوں کیلئے ہے
لیاری کا تیسرابڑا مسئلہ
لیاری کا تیسرا بڑا مسئلہ پینے کے پانی کا ہے جہاں پمپوں میں پانی تو آتا ہے لیکن اتنا صاف نہیں ہوتا کہ پیا جاسکے جس کی وجہ سے اب آر او پلانٹ والوں کی چاندی ہوگئی ہے ماضی میں لیاری کو کے ون کبھی کے ٹو کبھی کے تھری جیسے پانی کے منصوبوں کی تختیاں دکھا دکھاکر باور کرایا جاتا تھا کہ پانی کا مسئلہ حل ہوگیا ہے بالکل ٹھیک لیاری میں پانی کا مسئلہ تو حل ہوگیا ہے لیکن صاف پانی کا نہیں کیونکہ لوگ دھونے اور دھلانے کیلئے پمپوں کا پانی ضروراستعمال کررہے ہیں لیکن پینے کیلئے مجبوراً آر او پلانٹ ہی واحد سہارا ہیں
لیاری کا چوتھا بڑا مسئلہ
چوتھا بڑا مسئلہ صحت کا ہے جہاں لیاری میں نام کو تو ایک جنرل اسپتال موجود ہے لیکن ڈاکٹروں اورسہولیات کی کمی کی وجہ سے وہاں جانا محال ہے کسی مریض کو اس اسپتال میں داخل کروانے کیلئے کیا کیا اورکتنے پاپڑبیلنے پڑتے ہیں اس بارے میں مقامی زیادہ اورغیر مقامی کم ہی جانتے ہیں لیاری میں مراکز صحت کی بھی بھرمار ہے مگر غیر مقامی عملے کی عدم دلچسپی کے باعث یہ بھی اکثرویران ہی نظر آتے ہیں
لیاری کا پانچواں بڑا مسئلہ
لیاری کا اہم مسئلہ یہاں تعلیم کا ہے جہاں کہنے کو بیسیوئوں سرکاری اسکول ،ڈگری کالجز اور یونیورسٹی ہے لیکن شاید یہاں بھی مقامی صرف ملازم ہی بھرتی ہیں اسکول کی عمارتیں شایان شان کھڑی ہیں لیکن عملہ نہ ہونے کے برابر ہے یہاں کہیں اچھی اور معیاری تعلیم مل بھی رہی ہے تو وہ نیم سرکاری اداروں کے تعاون سے چلنے والے اسکول میں ہی مل رہی ہے یا ایک آدھ پرائیویٹ اسکولوں میں سینگولین ،عمر لین اور کلاکوٹ میں ایسے اسکول بھی ہیں

جہاں بچے تو ہیں لیکن ٹیچر نہیں محکمہ تعلیم سندھ کی نااہلی کے باعث کئی اسکولوں کی عمارتیں توکھنڈرات میں تبدیل ہوچکی ہیں لڑکیوں کی تعلیم،درس گاہوں اور تکنیکی مراکز کی کمی اپنی جگہ ایک بڑامسئلہ ہے ملا فاضل ہال کے نام سے لائبریری کی منتقلی کے بعد کتابیں پڑھنے والے لوگ الگ مشکلات سے دوچارہیں کیونکہ جہاں لائبریری منتقل کی گئی ہے وہاں منتقلی کے ساتھ ہی لائبریری کو روشن کرنے والا یو پی ایس چوری ہوگیا ہے جس کی وجہ سے اب دن بھر لائبریری اندھیرے میں ڈوبا رہتا ہے
لیاری کا چھٹا بڑا مسئلہ
مہنگائی اور بے روزگاری لیاری کے اہم اوربڑے مسئلوں میں سے ایک ہے جوڑیا بازار،بولٹن مارکیٹ ،کھارادر ،میٹھادر اور ٹمبر مارکیٹ جیسے علاقوں میں مزدوری کرنے والوں کو تنخواہ کے نام پر صرف دس بیس ہزار ہی ہاتھ آتے ہیں جو بمشکل کسی بھی گھر کے اخراجات کو پورا کرسکیں جس کی وجہ سے یہاں کی خواتین کی اکثریت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے آسرے میں رہتی ہے یا کراچی کے پوش علاقوں کی ماسیاں بن کر گھر کے اخراجات پوری کرنے میں حصہ ڈالتی ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو تویہاں شروع سے ہی ایک جھانسا دیا جاتاہے کہ بے فکر رہو تمہاری سرکاری نوکری کہیں نہیں گئی اور اسی سرکاری نوکری کے آسرے میں یہ نوجوان ہنر سیکھنے اورمزید تعلیم سے بھی محروم ہوتے ہیں
لیاری کا ساتواں بڑا مسئلہ
لیاری کا ایک گھمبیر اورخطرناک مسئلہ منشیات اورماوا گٹکا ہے جو نوجوانوں کو خطرناک راستے پر لے جارہا ہے کراچی کینسر رجسٹری کے ڈیٹا بیس کے مطابق شہر میں ہر سال ہزاروں کیس رجسٹرڈ ہورہے ہیں، جن میں خواتین کی تعداد باون فیصد اورمرد وںکی تعداد ساڑھے سینتالیس فی صد ہے جو زیادہ تر منہ کے کینسر سے متاثر ہو رہے ہیں اس کے علاوہ منشیات بحالی کے نام پر کھلنے والے مراکز کی جانچ پڑتال نہ ہونے سے یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ یہ مرکز منشیات چھڑوانے یا منشیات پر لگوانے کیلئے قائم ہیں
لیاری کا آٹھواں بڑا مسئلہ
لیاری کا ایک اہم اوربڑا مسئلہ دھڑادھڑ غیر قانونی بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر ہے جو پچھلے دس بارہ سالوں سے جاری ہے بلڈر بغیر کسی نقشے اور منصوبے کے بلڈنگ تو کھڑی کردیتے ہیں لیکن ان میں بجلی ،پانی اورگیس کے کنکشن نہیں ہوتے اوپر سے غیر مقامیوں کی آبادکاری ایک الگ مسئلہ ہے سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے غیرقانونی طور پر تعمیر کی جانے والی عمارتوں کو گیس، بجلی اور پانی کے کنکشن نہ دینے کے حکم کے باوجود تاحال یہ سلسلہ جاری و ساری ہے
لیاری کا نواں بڑامسئلہ
لیاری کے نوجوانوں کا ایک اہم مسئلہ کھیل کے میدانوں اورتکنیکی تربیت کے مراکز کی کمی یا ان مراکز میں داخلے کے مشکل طریقے ہیں جن کی وجہ سے نوجوانوں کی بڑی تعدادمایوسی کے دلدل میں دھنستی جارہی ہے کھیل کے میدان جو آباد بھی ہیں تو ان کی انتظامی باگ دوڑ سنبھالنے والا کوئی نظر نہیں آتا
لیاری کا دسواں بڑا مسئلہ
پبلک ٹرانسپورٹ یوں تو کراچی بھر کا مسئلہ ہے لیکن پیپلز بس سروس ریڈبس کے نام سے شہر کے بارہ مختلف روٹس پر چھوٹی24سیٹر بسیں ، ایک یا دوروٹ پر بڑی34سیٹر بسیں چلائی جارہی ہیں جس میں لیاری برائے نام ہی شامل ہے اس کے علاوہ پچاس الیکٹرک بسوں کا بھی تجربہ گزشتہ تین سالوں سے جاری ہے جبکہ حکومت سندھ اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے تعاون سے ریڈ لائن بس سروس منصوبے پر بھی کام جاری جو کراچی ائیرپورٹ کے قریب ملیر ہالٹ سے شروع ہوکر نمائش پر ختم ہوگا یعنی لیاری اس میں بھی شامل نہیں اب آگے سندھ حکومت کی ٹیکسی اورپنک ٹیکسی سروس بھی آنے والی ہے جانے اس میں ہمارا کتنا حصہ ہو
لیاری کا گیارہواں بڑا مسئلہ
لیاری میں گٹراورسڑک کی سیاست کبھی ختم نہیں ہوئی یہی وجہ ہے کہ اسے ہمیشہ سرفہرست مسئلوں میں ہی رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے باقی ماندہ بڑے مسئلوں پر توجہ نہیں دی جاتی اب سڑک پر پیوند کاری کرکے لوگوں کو دلاسہ دینے کا وقت نہیں اس گنجان آباد علاقے میں سگنل فری ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی وجہ سے چاکیواڑہ ،کھارادر،لیمارکیٹ میراں ناکا ،کمہارواڑہ اورنواں لین میں ٹریفک جام روز کا معمول ہے اب چھوٹی بڑی گلیوں میں ٹف پیور یعنی اینٹیں لگاکر کچھ آسانیاں پیدا توکردی گئی ہیں لیکن مستقبل میں ان اینٹوں کے اکھاڑ پچھاڑ کے بعد کیا ہوگا اللہ ہی جانے۔۔ گٹر اورنالوں کی عدم صفائی اورلائنوں کی مرمت کے نام پر کمزور پائپوں کی تنصیب بھی ایک اہم ایشو ہے
یہ لیاری کے وہ چند بڑے مسائل ہیں جو حل طلب ہیں باقی ڈکیتی، قتل و غارتگری، بھتہ خوری صرف لیاری میں نہیں کراچی کے ہر علاقے میں جاری و ساری ہیں۔ لیارین توصرف ان چند مسئلوں کا حل چاہتے ہیں لیاری ووٹ اسے ہی دے گا جو اس کا خیال رکھے گا اس کی عزت کرے گا ورنہ حل نہ ترازو کے پلڑوں سے آسکتی ہے ، نہ شیر کی دھاڑسے اور نہ ہی پتنگ اور تیر کے نشان سے۔۔ عزت دو ووٹ لو۔