بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف علماء کرام بھی میدان میں آگئے ہیں۔
انہوں نے اپنے خطبوں اور بیانات میں جبری گمشدگی کو نا صرف ملکی قانون و آئین سے متصادم بلکہ شرعی لحاظ بھی جرم قراردیا ہے اور کہا ہے کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ اجتماعی سطح پر ظلم ہے۔ لیکن مقدّمہ چلائے بغیر اور کسی کا جرم ثابت کیے بغیر اسے اٹھا لینا،اور اٹھا کر بند کردینا اور اس پر ظلم و ستم کرنا،
اس پر تشدد کرنا، یہ نہ صرف قرآن کے خلاف ہے بلکہ احادیث کے بھی خلاف ہے۔
یہ بلوچ خواتین اور بچیوں کی بڑی کامیابی ہے۔ انہوں نے اپنے اوپر ہونے والی ریاستی جبر کا مقابلہ کیا
اور اپنی ہمت اور برداشت سے تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کو یکجا کیا۔ جبکہ دوسری جانب پاکستان سمیت دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے ہیں، امریکہ، کینیڈا، برطانیہ سمیت پوری دنیا کی عوام لاپتہ افراد کے لواحقین پر تشدد کے خلاف سڑکوں پر آگئے ہیں۔
مشہور و معروف عالم دین مولانا ڈاکٹر منظور احمد مینگل نے اسلام آباد میں بلوچ خواتین پر تشدد پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ
ہمارے پاکستانی ریاستی اداروں نے پاکستان میں ایک الگ فلسطین قائم کردیا ہے۔ اداروں نے اپنے جبر و ستم سے بلوچستان کو فلسطین میں تبدیل کردیا ہے۔
منظور مینگل صاحب اپنے بیان کے دوران آبدیدہ ہوگئے۔ اور کہا کہ بلوچ مائیں اور بہنیں انہیں معاف کردیں۔
بقول ان کے کہ وہ آزاد نہیں ہیں۔ مولانا منظور مینگل نے مزید کہا”ہم بزدل ملا اپنے اداروں کا نام بھی نہیں لے سکتے ہیں۔
اس وحشیانہ تشدد پر آج ہم اپنی بہنوں اور ماؤں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں ہیں۔ اگر ہم تمام ملا ایک ساتھ ہوجائیں تو ان کو ہم بتاسکتے ہیں کہ ملا کون ہیں؟۔ ہم بزدلوں کے ہاتھوں میں پھنسے ہوئے ہیں “۔
مولانا صاحب کوئی معمولی مولانا نہیں ہیں۔ وہ ایک قابل احترام عالم دین ہیں۔ ان کے لاکھوں چاہنے والے ہیں۔
مولانا ڈاکٹر منظور احمد کا تعلق بلوچستان کے ضلع خضدار سے ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے سے حاصل کرنے کے بعد سندھ کے مختلف مدارس میں اسلامی تعلیمات حاصل کیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے ٹنڈو جام یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی لی۔
ڈاکٹر صاحب کو بلوچی، براہوی، سندھی، پشتو، اردو، عربی اور فارسی زبان پر عبور حاصل ہے
۔ اپنے سخت گیرموقف کی وجہ سے ان پر کئی بار قاتلانہ حملے بھی ہوئے ہیں۔ تاہم وہ اپنے موقف سے کبھی بھی دستبردار نہیں ہوئے۔اسلام آباد کی سرکار کی جانب سے بلوچستان کے ساحل و وسائل پر قبضہ گیریت سے متعلق مولانا منظور مینگل کا کہنا تھا کہ بلوچ اپنی سرزمین سے نکلنے والے معدنی وسائل کسی کو بھی نہیں دیگا۔
انہوں نے پٹھان، سندھی اور دیگر اقوام سے اپیل کی کہ وہ بلوچوں پر ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں اور قومی جبر کے خلاف بلوچ خواتین کی آواز بن جائیں
۔
مغربی بلوچستان (ایرانی بلوچستان) سے تعلق رکھنے والے نامور عالم دین مولانا عبدالغفار نقشبندی نے مشرقی بلوچستان (پاکستانی بلوچستان) کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں گزشتہ سال نومبر کے مہینے میں بالاچ بلوچ سمیت چار افراد کو ایک جعلی مقابلے میں شہید کرنے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ وہ اس طرح کے ریاستی جبر کو نہیں مانتے۔ انہوں نے اپنے خطبے میں کہا کہ پاکستانی حکمران بلوچوں پر اپنی زیادتیاں بند کریں۔
انہوں نے سیستان بلوچستان کی بلوچ قوم کی جانب سے پاکستانی بلوچستان کی عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا اظہار بھی کیا اور کہا کہ وہ ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
مولانا عبدالغفار نقشبندی صاحب ایران میں چلنے والی بلوچ تحریک کے سرکردہ رہنما ہیں۔
ایران میں ہونے والی زیادتیوں کے خلاف ایک مضبوط آواز بھی ہیں جس کی پاداش میں انہیں قید وبند کا سامنا کرنا بھی پڑا ہے۔ تاہم ایرانی حکومت ان کی آواز کو دبانے میں ناکام ہوئی۔ پاکستان کی طرح ایران میں بھی بلوچ قوم کو سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق حاصل نہیں۔ وہ دوسرے درجے کے شہری سمجھے جاتے ہیں۔
ملک کے مشہور عالم دین مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے بھی جبری گمشدگی جیسے اہم مسئلے کو ”اجتماعی سطح پر ظلم“ قرار دیا۔
مفتی صاحب کا کہناتھا کہ ہمارے ملک میں کسی انسان کی کوئی قدرو قیمت نہیں رہی، کسی بھی شخص کو آکر پکڑ لیا جاتا ہے، غائب کردیا جاتا ہے، وہ لاپتہ ہوجاتا ہے۔ اور اس کے ماں باپ کو اس کے بہن بھائیوں کو پتہ نہیں ہوتا کہ اس کو کیوں گرفتار کیا گیا، اسے کیوں پکڑا گیا؟ ان کا کہنا تھا کہ
اگر کسی شخص کو کسی جرم میں گرفتارکیا جائے تو اس میں شریعت کا قاعدہ بھی یہی ہے
اور قانون کا تقاضہ بھی کہ اس کے اوپر مقدّمہ چلایا جائے،
اس کے بارے میں تفتیش کی جائے، علیٰ الاعلان اس پر مقدّمہ چلا کر یہ ثابت کیا جائے کہ اس نے فلاں جرم کیا ہے اور اس جرم کی وجہ سے اسے سزا دینی ہے، لیکن مقدّمہ چلائے بغیر اور کسی کا جرم ثابت کیے بغیر اسے اٹھا لینا،اور اٹھا کر بند کردینا اور اس پر ظلم و ستم کرنا، اس پر تشدد کرنا، یہ ناصرف قرآن کے خلاف ہے بلکہ اس حدیث کے بھی خلاف ہے۔
حکومت کو علماء کرام کی ان آوازوں کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے ان علماء کرام کو کمتر نہ سمجھیے، حقارت کی نظر سے نہ دیکھیئے کیونکہ عالم دین کی عزت کرنا اپنے ایمان کی حفاظت کرنا ہوتا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لانگ مارچ کی بنیاد رکھنے میں بھی علماء کرام نے کلیدی کردار ادا کیا جس میں سر فہرست عالم دین واجہ صبغت اللہ بلوچ ہیں۔ وہ اسلامی اسکالر، دانشور و مفکر مولوی عبدالحق بلوچ (مرحوم) کے صاحبزادے ہیں۔
مولوی عبدالحق بلوچ میرے (راقم) کے بڑے بزرگوں میں تھے۔ ان کے صاحبزادے واجہ صبغت اللہ بلوچ لانگ مارچ تحریک کے بانی رہنما ہیں۔
وہ آج کل اسلام آباد میں بلوچ ماؤں اور بیٹیوں کے ہمراہ موجود ہیں اور ان کی سرپرستی بھی کررہے ہیں۔ واجہ صبغت اللہ بلوچ نے اس لانگ مارچ کا آغاز دو نعروں سے کیا تھا۔
جو بلوچستان کے تربت، پنجگور، شاشان، جھالاوان، ساراوان، شال، کوہ سلیمان سے ہوتا ہوا اقتدار کے مرکزی شہر اسلام آباد میں داخل ہوا۔ جہاں ان کا دھرنا جاری ہے۔
واجہ صبغت اللہ بلوچ کے یہ نعرے تھے۔ ” تم کتنے بالاچ مارو گے ہر گھر سے بالاچ نکلے گا!۔ تم مارو گے ہم نکلیں گے!”۔ واجہ صبغت اللہ بلوچ کے یہ نعرے بالکل صحیح تھے۔ آج مولانا ڈاکٹر منظور احمد مینگل،
مولانا عبدالغفار نقشبندی، مولانا مفتی محمد تقی عثمانی اور دیگر لاکھوں لوگ بلوچستان میں جاری ظلم و ستم کے خلاف میدان میں اترآئے ہیں۔ اب حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بلوچ کو ریاستی جبر کے ذریعے نہیں دبایا جاسکتا
۔ اگر حکمرانوں کو بلوچی زبان سمجھ میں نہیں آرہی ہے تو آج بلوچ قوم، پنجابی زبان میں ‘ساڈا حق ایتھے رکھ’ کا مطالبہ کررہی ہے جو حکومت کو دینا پڑیگی۔