ریاست کی تخت، اسلام آباد، بلوچ قوم کے لئے نو گوایریا بن گیا۔ بلوچ لانگ مارچ کے لواحقین کو ریاست کی جانب سے انصاف ملنے کی بجائے ریاستی ہتھکنڈوں اور سازشوں کا سامنا کرنا پڑا جس کے باعث بلوچ مائیں اور بہنیں اسلام آباد سے نفرت کا پیغام لے کر بلوچستان کے لئے روانہ ہورہی ہیں۔
یہ پیغام ریاست کے لئے نیک شگون نہیں۔ اب بلوچ کبھی بھی اسلام آباد انصاف مانگنے نہیں جائیں گے کیونکہ وہاں انصاف ملنے کی جگہ ان کا استقبال تشدد سے کیا گیا۔ ریاست کی جانب سے بلوچ لواحقین کیمپ کے خلاف طاقت کا استعمال، شرکا کو فورسز کی جانب سے ہراساں کرنے اور کیمپ کو اکھاڑ پھینکنے کی دھمکیاں دی گئیںجس سے تنگ آکر بلوچ لانگ مارچ کا دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا۔
یہ اعلان بلوچ یکجہتی کمیٹی کے منتظمین نے اسلام آباد نیشنل پریس کلب کے باہر ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا اور کہا کہ ستائیس جنوری کو کوئٹہ میں ایک جلسہ عام کا انعقاد کیا جائیگا۔ جہاں پورا مدعا بلوچ قوم کے سامنے رکھیں گے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد سے ملنے والی اس نفرت کو بلوچستان کے گھر گھر پہنچائیں گے۔
بلوچ لانگ مارچ کے شرکاء اس امید کے ساتھ اسلام آباد پہنچے تھے کہ انہیں انصاف ملے گا۔ یہ نہتی خواتین اور بچیاں تھیںجو ہزاروں کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے انصاف مانگنے اسلام آباد آئی تھیں۔ جن کے پاؤں میں چپل تک نہیں تھی، وہ ننگے پاؤں فریاد لے کر آئیں تھیں۔ وہ اپنے پیاروں کی بازیابی چاہتی تھیں۔ کسی کا والد، کسی کا بھائی اور کسی کا بیٹا کئی سالوں سے جبری گمشدگی کا شکار ہے۔ ان کا صرف یہ معصومانہ مطالبہ ہے وہ یہ کہ اگر ان کے پیارے زندہ ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ بے شک اگر کسی نے جرم کیا ہے
تو انہیں سزا دی جائے۔ وگرنہ انہیں بازیاب کیاجائے۔
ملکی آئین و قانون کے مطابق بلوچ بھی پنجابی کی طرح مساوی حقوق کے حقدار ہیں۔ ملکی آئین و قانون بلوچستان کے لوگوں نے نہیں بنائے تھے بلکہ پنجاب کے لوگوں نے بنائے تھے۔ حالانکہ یہ آئین گن پوائنٹ پر بنائے گئے تھے۔
پھر بھی بلوچ کہہ رہے ہیں کہ اسی آئین و قانون کے تحت ان کے لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے۔ انہیں ملکی عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ مگر ریاستی ادارے اپنے آئین و قانون کی روگردانی کررہے ہیں۔ اور اوپر سے بے قصور اور پرامن لانگ مارچ کے شرکا کو مجرم بناکر قید کردیا تھا۔ یہ دہشت گرد نہیں تھے۔ معصوم بچیوں ،ماؤں اور بہنوں کو سڑکو ں پر اغوا کیاگیا۔ معصوم بچیاں اپنی ماؤں پر تشدد دیکھ کر چیخ و پکار کررہی تھیں
لیکن کوئی سننے والا نہیں تھا۔
سب سے پہلے حکومتی اداروں نے اسلام آباد میں بلوچ خواتین اور بچیوں کا لاٹھی چارج اور شیلنگ سے استقبال کیا ان پر رات کو واٹر کینین کا استعمال کیا گیا۔ انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انہیں بالوں سے گھسیٹ کر پولیس موبائلوں میں ڈالا گیا۔
انہیں پولیس تھانے میں قید کیا گیا۔ ان پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے۔ انہیں ڈرانے اور دھمکانے کے تمام حربے استعمال کئے گئے۔ بعد میں انہیں پنجاب بدر کرنے کا پلان بنایا گیا۔ انہیں زبردستی بسوں میں ڈال کر واپس بلوچستان روانہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم بلوچ خواتین نے ہمت و جرات کا مظاہرہ کیا اور وہ آخری دم تک ڈٹی رہیں اور اسلام آباد نیشنل پریس کلب کے سامنے پہنچنے میں کامیاب ہوگئیں
جہاں نے انہوں نے اپنا احتجاجی کیمپ لگایا۔ تاہم حکومت اپنے حربوں سے باز نہیں آئی۔ نوبت لاؤڈ اسپیکر کی چوری تک پہنچ گئی۔سیکیورٹی ادارے رات کے تین بجے مظاہرین کے لاؤڈ اسپیکر چوری کرکے لے گئے۔ اس طرح کی گری ہوئی حرکت کرنے سے ان کے معیار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اسپیکر کی چوری کے بعد حکومت کے سربراہ یعنی نگران وزیراعظم انوارالحق چودھری (کاکڑ) میدان میں اتر ے۔
چودھری صاحب نے ایک تقریب کے دوران اسلام آباد پریس کلب کے باہر جاری بلوچ لاپتہ افراد کے دھرنے کے لواحقین کی وابستگی کو بلوچستان کی آزادی پسند تنظیموں سے منسلک کیا اور اسلام آباد پولیس کی جانب سے بلوچ خواتین پر بدترین تشدد کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ
چار ڈنڈے پڑنے پر واویلا کیا جارہا ہے۔
اس طرح کے ریمارکس سے بلوچ عوام اوربلوچی روایات کی تذلیل کی گئی۔نگران وزیراعظم کے اس طرح کے جملوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی پامالی اور جبری گمشدگی جیسے اہم مسئلے پر حکومت سنجیدہ نہیں ہے اور وزیراعظم اپنے ملکی آئین و قانون کے برعکس خیالات کے مالک ہیں۔
جس سے وفاق اور بلوچ کے عوام میں جاری خلیج میں مزید دراڑیں پیدا ہوگئیں ہیں۔
نگران وزیراعظم کے ریمارکس کے بعد بھی بلوچ خواتین نے اپنی سیاسی بصیرت سے حکومتی ہتھکنڈوں کا مقابلہ کیا اور ہمت و جرات کا مظاہرہ کیا۔ لیکن حکومت اپنے ناکام ہتھکنڈوں سے باز نہیں آئی۔
سرکار نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک نگران وزیر کو میدان میں اتار دیا۔ جہاں وہ اسلام آباد پریس کلب کے باہر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاجی دھرنے کے مد مقابل آگئے۔
انہوں نے وہاں اپنا ایک الگ کیمپ لگادیا اور لاپتہ افراد کے لواحقین کے خلاف بیانات دینے لگے۔
ریاست کی جانب سے طاقت کے ذریعے بلوچ خواتین کا مقابلہ کرنے میں ناکامی کے بعد سرکاری ادارے بلوچ غیرت مند خواتین اور بچیوں کی نازیبا تصاویر بناکر میدان میں اتر ے۔
بلوچ خواتین کے خلاف بے بنیاد اور من گھڑت کہانیاں سامنے لائے۔ یہ عمل ان کی کمزوریوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ فوٹو شاپ کے ذریعے بلوچ بچیوں کی نازیبا و غیراخلاقی ایڈٹ کردہ تصاویرجاری کی گئیں جس کا مقصد عورت ذات کو بلیک میل کرنے کی ناکام کوشش تھی۔
تاہم بہادرغیرت مند بلوچ قوم کی بیٹی اور بلوچ یکجہتی کمیٹی لانگ مارچ کی قیادت کرنے والی سمی دین بلوچ نے اس اوچھے ہتھکنڈے کا منہ توڑ جواب دیا اور اپنا نقاب اتار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بطور عورت میرے نقاب لگانے کے فیصلے کو کمزوری سمجھا گیا۔ اور کہا کہ وہ اتنی کمزور اور لاچار نہیں ہے بلکہ وہ ایک باہمت اور غیرت مند لڑکی ہے۔
اس حرکت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ
یہ نہتی بلوچ لڑکیاں نہیں ہیں۔ یہ بے چاری اور لاوارث لڑکیاں نہیں ہیں۔ بلکہ ریاست نہتی اور بے چاری ہے۔ ریاست کی اس لاوارثی اور کمزور پن پر افسوس ہوتا ہے جو اتنی کمزور ہوگئی ہے کہ وہ اس نہج پر پہنچ چکی ہے۔
بات یہاں ختم نہیں ہوئی ،اسلام آباد نیشنل پریس کلب کی انتظامیہ بھی میدان میں آگئی۔
دھرنے کے خلاف پولیس کو لیٹر لکھا تاہم کچھ سینئر صحافیوں اور سول سوسائٹی کی جانب سے سخت ردعمل آنے کے بعد پریس کلب کی انتظامیہ نے اپنا لیٹر واپس لے لیا۔
ان تمام سازشوں کا مقابلہ کرنے کے بعد لانگ مارچ کے شرکاء نے یہ فیصلہ کیا کہ اب انہیں پنجاب کی سرزمین پر کوئی انصاف ملنے والا نہیں ہے۔ اب شاید انہیں انصاف بلوچستان کے پہاڑوں پر ملے گا۔ یہ راستہ انہیں حکومتی پالیسیوں اور ہتھکنڈوں نے دکھایا ہے۔ اس کا قصور وار بلوچ قوم نہیں بلکہ ریاستی ادارے ہیں۔