بلوچ یکجہتی کمیٹی کا قافلہ اسلام آباد یاترا کے بعد خالی ہاتھ واپس بلوچستان لوٹ آیا۔ تربت سے اسلام آباد تک بلوچ لانگ مارچ نے ملک خصوصاً بلوچستان کی سیاسی اور آئینی ڈھانچے کی بنیاد ہلاکر رکھ دی ہے۔ پرانی سوچ کی جگہ ایک نئی سوچ نے جنم لیا۔ ریاستی بیانیے کا پول کھل چکا ہے۔ ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگی جیسے واقعات نے ملکی و بین الاقوامی قوانین پر ان گنت سوالات چھوڑے ہیں۔ اس عمل سے پارلیمانی جماعتوں اور عدلتی نظام کی کارکردگی کا پردہ بھی فاش ہوگیا اور یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ، سیاسی جماعتوں، انتظامیہ اور میڈیا کا گٹھ جوڑ ہے۔ ان کے مفادات مشترک ہیں۔ ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ہے۔ قانون صرف اشرافیہ کے لئے ہے۔ مظلوم عوام کے لئے قانون اندھا اور بہرہ ہے۔ پارلیمنٹ ڈمی ہے۔ پارلیمانی جماعتوں میں سیاسی جرات و ہمت نہیں ہے۔ ملک کا قانون اور آئین پنجابی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے اردگرد گھومتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ریاست کی سلامتی اور استحکام کے لئے پنجابی عوام کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ پنجابی شاؤنزم کا وقت ختم ہوگیا ہے۔ پنجابیوں کو حقیقت پرست بننا پڑے گا۔ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنا پڑے گا۔ اس طرح پاکستان کی ریاست نہیں چل سکتی۔ پنجابیوں کو دل گردے کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ اچھائی اور سچائی اسی میں ہے کہ پنجابی عوام کو بلوچ عوام کو مساوی حقوق دلانے کے لئے پنجابی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے مدمقابل ہونا پڑے گا۔ اب بلوچ کا کیس پنجاب کے کورٹ میں ہے۔
بلوچ لانگ مارچ نے ناصرف بلوچستان میں ہونے والی شورش زدہ حالات کی وجوہات اور اسباب کو اجاگر کیا بلکہ وہاں ریاستی بیانیے کاپول بھی کھل گیا۔ بلوچستان کے عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو پنجاب کے عوام کے سامنے رکھ دیا اور انہیں یہ باور کروایا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی اور جبری گمشدگی جیسے ماورائے قانون جرم کا سلسلہ تواتر سے جاری ہے جس کی اجازت ملکی آئین و قانون نہیں دیتا۔ اس سے قبل ریاستی بیانیہ یہ تھا کہ بلوچستان میں سب کچھ ٹھیک ہے۔ یہ چند دہشت گردوں کا مسئلہ ہے۔ یہ بیانیہ جنرل مشرف کے دور میں شروع ہوا تھا۔ بلوچستان کے عوام پر مختلف الزامات لگائے گئے۔ جنرل مشرف اپنی تقریروں میں یہ کہتا تھا کہ بلوچستان کا مسئلہ تین سرداروں کا ہے۔ جن میں نواب اکبر بگٹی، نواب خیربخش مری اور سردار عطااللہ مینگل شامل ہیں۔ ان تینوں سرداروں کو گزرے ہوئے کئی سال بیت گئے۔ پھر دوسری حکومت آئی اس نے بلوچستان میں جاری تحریک کو غیرملکی ہاتھ قراردیا اور کہا کہ بلوچستان میں حالات خراب کرنے میں بیرونی ہاتھ ملوث ہیں۔ یہ الزامات ہنوز جاری ہیں۔لیکن لاپتہ افراد کے لواحقین حکومتی بیانیہ کو جھوٹ قراردینے میں کامیاب ہوگئے۔ لواحقین نے اپنا کیس پنجاب کے عوام کے سامنے پیش کردیا۔ اور کہہ رہے ہیں کہ وہ کوئی غیرملکی ایجنٹ نہیں ہیں۔ اور نہ ہی کوئی دہشت گرد ہیں بلکہ اس ملک کے شہری ہیں۔ اور وہ نہتی خواتین اور بچیاں ہیں۔ جو ہزاروں کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے انصاف مانگنے پنجاب آئی ہیں۔ وہ اپنے پیاروں کی بازیابی چاہتی ہیں۔ جو کئی سالوں سے جبری گمشدگی کا شکار ہیں۔ اگر ان کے پیارے زندہ ہیں تو انہیں پاکستانی عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ بے شک اگر کسی نے جرم کیا ہے تو انہیں سزا دی جائے۔ جو انہیں قبول ہے۔
بلوچ کا یہ بیانیہ سننے کے بعد پنجاب کے عوام کو ایک فیصلہ کرنا پڑے گا۔ اور وہ فیصلہ ملک کی سلامتی اور استحکام کے لئے بہتر ہوگا۔ چھوٹے صوبوں کو مساوی حقوق دینے کے لئے پنجابی عوام کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ جب پنجاب کی عوام سڑکوں پر ہوگی اور عوامی ردعمل کا مظاہرہ کرے گی۔ یہ عوامی ردعمل فوج، پارلیمان اور عدلیہ کو اپنا اپنا کردار ادا کرنے پر مجبور کرے گا۔ ریاست کے تمام اداروں کو اپنے اپنے دائرہ اختیار میں لائے گا۔ جس کا جو کام ہوگا وہ صرف وہی کام کرے گا۔ مجرم کو پکڑنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہوگی۔ اور سزا دینا عدلیہ کا کام ہوگا۔ جبکہ قانون سازی کرنا پارلیمان کا کام ہوگا۔ ویسے تو ملکی قانون و آئین واضح ہے۔ بس صرف اداروں کو بھی اس قانون کی پاسداری کرنا ہوگی۔
پنجابی بھی بلوچ کو اپنا رول ماڈل بناکر دل و گردہ کا مظاہرہ کریں۔ یہ رول ماڈل ایک تاریخی واقعے سے جڑا ہوا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں بلوچوں کو عمان کی فوج میں بھرتی کے خلاف ایک تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک کا آغاز بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے پلیٹ فارم سے کیا گیا۔ بعد میں اس تحریک کو پوری بلوچ قوم نے سپورٹ کیا۔ دراصل عمان کے سلطان قابوس نے اپنے ملک میں مظلوم و محکوم عرب عوام کے حقوق سلب کئے ہوئے تھے۔ جس پر وہاں ایک تحریک نے جنم لیا اور اس تحریک نے ایک باغیانہ شکل اختیار کرلی تھی۔ اس تحریک کو کچلنے کے لئے عمان کے سلطان قابوس نے بلوچستان میں بلوچ نوجوانوں کو اپنی فوج میں بھرتی کرنا شروع کردیا۔ بلوچ نوجوانوں کو بڑے بڑے مراعات دیئے گئے۔ انہیں عمانی فوج میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز کیا گیا۔ اس جنگ کے نتیجے میں سینکڑوں مظلوم عرب مارے گئے۔ ہزاروں عمانی عرب قید و بند ہوگئے۔ اس صورتحال کے خلاف بلوچستان کے عوام نے عمان کے خلاف ایک تحریک چلائی اور بلوچ نوجوانوں کو عمانی فوج میں بھرتی کے خلاف آواز بلند کی۔ بلوچ قوم نے یہ واضح پیغام دیا کہ وہ کسی بھی سرزمین پر قابض کا کردار ادا نہیں کرے گا۔ بلوچوں نے عمان حکومت کی طرف سے دیئے گئے تمام مراعات کو مسترد کردیا۔ اور ایک ترقی پسند قوم ہونے کا ثبوت دیا۔ اگرچہ اس کے عوض بلوچ کو بہت کچھ کھونا پڑا لیکن وہ کرائے کے فوجی نہیں بنے۔اس تحریک میں مکران سے تعلق رکھنے والے نوجوان، عبدالحمید بلوچ کو ضیاء کی آمر حکومت نے گرفتار کرکے مچھ جیل میں قید رکھا۔ اور ان کو سزائے موت دی۔ اس عمل کے خلاف پوری بلوچ قوم نے آواز بلند کی جس کی پاداش میں بے شمار بلوچ نوجوانوں کی گرفتاریاں ہوئیں۔ تاہم اس وقت کے ضیاء کی آمر حکومت نے عبدالحمید بلوچ کو پھانسی دی۔ شہید عبدالحمید بلوچ کی اس قربانی کانتیجہ یہ نکلا کہ عمان کے سلطان قابوس نے اپنی عرب قوم کے سامنے ہتھیار پھینک دیے اور انہیں معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق دینے پڑے۔
اب مدعا پنجابی عوام کے سامنے ہے۔ اگر پنجابی کو پاکستانی ریاست بچانا ہے تو انہیں کھل کر سامنے آنا پڑے گا۔ یہ ان کے امتحان کا وقت ہے۔
گیند پنجاب کے کورٹ میں
وقتِ اشاعت : January 28 – 2024