کراچی میں اردو اسپیکنگ کی نمائندہ ہونے کی دعویدار اس وقت تین جماعتیں ہیں یا یوں کہیں کہ ایم کیو ایم کے تین دھڑے ہیں۔ تینوں ہی دعوے کرتی ہیں کہ وہ اردو اسپیکنگ کے نمائندے ہیں اور انتخابات میں انہی کے نمائندوں کو ووٹ دیا جائے۔
اگست 2016 کو بانی متحدہ کی تقریر کے بعد ایم کیو ایم مزید دولخت ہو گئی تھی۔ لیکن اس بار الگ ہونے والے دھڑے کے بجائے جو بنیادی پارٹی ہے اس نے ہی اپنے نام کے ساتھ سابقہ استعمال کر لیا۔
اس سے قبل 1992 میں دیکھا گیا تھا کہ جب آفاق احمد اور عامر خان ایم کیو ایم سے الگ ہوئے تھے اور انہوں نے اپنی جماعت بنائی تھی جس کا نام انہوں نے ایم کیو ایم حقیقی رکھا تھا۔ انہوں نے لاحقہ کے طور پر حقیقی کا لفظ استعمال کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ ان کی جماعت ہی دراصل حقیقی جماعت ہے، اور جس جماعت سے وہ الگ ہوئے ہیں وہ جماعت عوام کی حقیقی ترجمانی نہیں کرتی۔اگست 2016 کو بانی متحدہ کی تقریر کے بعد جب ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کی پاکستانی قیادت نے اپنے بانی اور قائد سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا تو انہوں نے اپنی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کا نام ایم کیو ایم پاکستان کر لیا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ بانی متحدہ کی ایم کیو ایم کو اپنے ساتھ اصل کا لفظ لگانا پڑا۔ اٹھارہ اکتوبر 2022 میں حلقہ این اے 237 اور 239 کے ضمنی انتخابات میں بائیکاٹ کرنے کے بعد ایم کیو ایم کے کنوینر مصطفیٰ عزیز آبادی کی طرف سے ایک پریس ریلیز جاری کیا گیا تھا جس میں پہلی بار آفیشلی اصل ایم کیو ایم لکھا گیا تھا۔ اس سے پہلے ایم کیو ایم کے ساتھ اصل کا لفظ سوشل میڈیا پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ایم کیو ایم کے کنوینر مصطفی عزیز آبادی کی طرف سے اصل کا لفظ استعمال کیے جانے کے بعد یہ لفظ باضابطہ طور پر ایم کیو ایم کا جز بن گیا۔ اور یوں جو جماعت تخلیق ہوئی تھی اسے اپنے نام کے ساتھ سابقہ استعمال کرنا پڑا۔
چونکہ میں اپنے یوٹیوب چینل پر تقریباً روزانہ ایک سیاسی وی لاگ کرتا ہوں، تو مجھ پر بھی کمنٹس میں اصل ایم کیو ایم کے سپورٹرز نے اصرار کیا کہ آپ اپنے پروگرام میں ایم کیو ایم لندن کی بجائے ایم کیو ایم انٹرنیشنل یا اصل ایم کیو ایم کہا کریں۔
فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات میں اصل ایم کیو ایم کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت تو نہیں ملی لیکن بانی متحدہ نے اپنے امیدواروں کو آزاد امیدوار کی حیثیت سے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لیے کہہ دیا تھا جس کے بعد اصل ایم کیو ایم کے کنوینر مصطفی عزیز آبادی نے بتایا تھا کہ کراچی سمیت ملک کے دیگر شہروں سے بھی ایم کیو ایم کے کارکنوں نے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیے ہیں۔اصل ایم کیو ایم کے کارکنوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے کاغذات نامزدگی تو جمع کرا دئیے لیکن انہیں خدشہ ہے کہ انہیں غیر علانیہ پابندی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس خدشے کو اس وقت تقویت ملی جب ایم کیو ایم کے بزرگ رہنما نثار پنہور اور ان کے صاحبزادے کو ان کے گھر سے نامعلوم مقام کی طرف لے جایا گیا۔ اصل ایم کیو ایم کے ایک اور رہنما جوہر عابد ایڈوکیٹ کو بھی غائب کر دیا گیا تھا لیکن پھر انہیں رہا کر دیا گیا۔ یہ دونوں حضرات بھی اصل ایم کیو ایم کی جانب سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے کاغذات نامزدگی جمع کرا چکے ہیں۔اصل ایم کیو ایم کے بانی اور رابطہ کمیٹی اپنے دو سینیئر رہنماؤں کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بعد یہ سوچنے پر مجبور ہو چکی ہے کہ اب انتخابات میں جانے کا فیصلہ درست ہوگا یا نہیں۔کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی ہدایت سے پہلے بانی متحدہ نے اپنے کارکنوں اور سپورٹرز سے رائے مانگی تھی کہ اس بار انتخابات میں ایم کیو ایم کے کارکنوں کو حصہ لینا چاہیے یا نہیں۔ بڑی تعداد میں انتخابات میں حصہ لینے کی رائے آنے کے بعد بانی ایم کیو ایم نے فیصلہ کیا تھا کہ انتخابات میں جانا چاہیے۔البتہ پاکستان میں بانی متحدہ کی تقریر اور تصویر میڈیا میں نشر کرنے پر پابندی عائد ہے اور یہ پابندی ایک عبوری حکم نامے کے تحت لاہور ہائی کورٹ نے لگائی تھی جو اب تک نافذ العمل ہے۔ کراچی پولیس میں بھی ذرائع کا کہنا ہے کہ اصل ایم کیو ایم کی سرگرمیوں پر پابندی عائد ہے اور اسٹینڈنگ آرڈرز ہیں کہ اگر ان کے کارکنان کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی میں ملوث پائے گئے تو انہیں گرفتار کر لیا جائے۔ایسی صورت میں اصل ایم کیو ایم کے امیدواروں کو انتخابات میں حصہ لینے اور اپنی انتخابی مہم چلانے کے لیے یقینا دشواری کا سامنا ہوگا اور اس سلسلے میں ایم کیو ایم کے کارکنان کو گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے۔تاہم ایم کیو ایم کے وہ کارکنان جنہوں نے آزاد حیثیت سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں ان کے بارے میں مقتدر حلقوں کو بخوبی علم ہے لیکن ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جا رہی۔
گزشتہ ہفتے ڈسٹرکٹ ایسٹ میں امیدواروں کا کوڈ آف کنڈکٹ کا ایک اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ذمہ داران اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران بھی موجود تھے۔ اس اجلاس کی خاص بات یہ تھی کہ بانی متحدہ کے نامزد کردہ امیدوار بھی اس اجلاس میں موجود تھے جنہوں نے وہاں ذمہ داروں سے یہ سوال کیا تھا کہ کیا وہ اپنے قائد بانی متحدہ کے ترانے الیکشن مہم کے دوران چلا سکتے ہیں۔ جس پر انہیں بس اتنا کہا گیا کہ وہ ڈپٹی کمشنر کی جانب سے جاری کیے گئے کوڈ آف کنڈکٹ پر عمل کریں۔اطلاعات ہیں کہ بانی متحدہ کی جانب سے جن افراد نے کاغذات نامزد گی جمع کرائے ہیں ان کا ایک اجلاس اتوار کو کراچی میں ہونے والا ہے جس میں وہ یہاں کے معروضی حالات پر غور کرنے کے بعد اپنی سفارشات بانی متحدہ کو بھیجیں گے۔ ان امیدواروں کی سفارشات کی روشنی میں اصل ایم کیو ایم یہ حتمی فیصلہ کرنے کے قابل ہو جائے گی کہ اسے الیکشن میں جانا چاہیے یا پھر بائیکاٹ کا آپشن استعمال کرنا چاہیے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بار ہو سکتا ہے کہ اصل ایم کیو ایم کے امیدواروں کے خلاف بڑے پیمانے پر کوئی کارروائی نہ کی جائے بلکہ انہیں الیکشن میں حصہ لینے دیا جائے لیکن ان کے انتخابی نشانات جدا جدا ہیں اور انہوں نے اپنی انتخابی مہم بھی نہیں چلائی ہے لہذا اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ وہ اتنے ووٹ حاصل نہیں کر سکیں جن کی وہ توقع رکھتے ہیں، بلکہ ان امیدواروں کی شکست کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔اگر اصل ایم کیو ایم کے نامزد کردہ وہ امیدوار جو آزاد حیثیت سے کھڑے ہیں انتخابات میں حصہ لینے کے بعد ہار جاتے ہیں تو اصل ایم کیو ایم کے بارے میں یہ تاثر کہ ان کے امیدوار ہزاروں میں نہیں، لاکھوں میں ووٹ لیتے ہیں، جاتا رہے گا، یعنی بند مٹھی لاکھ کی، کھل گئی تو خاک کی۔
بات اصل ایم کیو ایم کی
وقتِ اشاعت : January 28 – 2024