|

وقتِ اشاعت :   January 30 – 2024

سینئر صحافی اور مصنف نادر شاہ عادل کی وفات سے دنیائے صحافت ایک عظیم ہستی سے محروم ہوگئی۔

شاہ صاحب نے ہمیشہ اپنے قلم سے مظلوم اور محکوم اقوام کی نمائندگی کی، ظالم و جابر حکمرانوں کو منہ توڑ جواب دیتے رہے۔ شاہ صاحب آج بظاہر تو ہم سے جدا ہوئے ہیں لیکن انکی زبان و قلم سے نکلے ہوئے الفاظ لوگوں کے ذہنوں میں زندہ رہیں گے۔


“شاہ جی” سے میری پہلی ملاقات میرے محترم استاد اور سینیئر صحافی “لطیف بلوچ” کے توسط سے ہوئی، جب وہ روزنامہ مشرق کراچی کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر تھے۔ یہ 1995 کی بات ہے جب میں نے صحافتی دنیا میں نیا نیا قدم رکھا تھا۔ اس ملاقات میں نادرشاہ عادل نے مجھے روزنامہ مشرق میں بطور رپورٹر کام کرنے کا موقع فراہم کیا۔
روزنامہ ایکسپریس کراچی کے ایڈیٹر حسن عباس اس زمانے میں روزنامہ مشرق کے نیوز ایڈیٹر ہوا کرتے تھے۔

اسی طرح کراچی کے دیگر نامور صحافی بھی مشرق اخبار میں رپورٹر ہوا کرتے تھے۔ جن میں ریحان ہاشمی، کامران جیلانی، ندیم خان سمیت دیگر شامل تھے۔


مجھے فخر ہے کہ میں شاہ جی جیسے قلم کار اور مصنف کی شاگردی میں رہا۔

انہوں نے مجھے قلم پکڑنا سکھایا اور صحافتی تربیت کی۔ معذرت کے ساتھ آج کل صحافتی شعبے میں ہر کوئی اپنے آپ کو عقل کل سمجھتا ہے مگر اس زمانے میں سینیئرز کی عزت کی جاتی تھی۔

ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمیں لطیف بلوچ اور نادرشاہ عادل جیسے نامور اساتذہ کی صحبت نصیب ہوئی۔سینئر صحافی نادر شاہ عادل طویل علالت کے بعد ہمیں چھوڑ گئے۔ وہ کم از کم 45 سال تک صحافت سے وابستہ رہے۔

نادر شاہ عادل 23 اپریل 1950 کو لیاری کے ایک بلوچ گھرانے میں پیدا ہوئے۔

وہ کئی اہم صحافتی اداروں سے وابستہ رہے جن میں مشرق، خبریں، امروز، ایکسپریس سمیت دیگر جرائد و اخبارات شامل ہیں۔ وہ آخری ایام میں طویل مدت تک کراچی کے روزنامہ ایکسپریس کے ایڈیٹوریل سیکشن کے انچارج تھے۔
نادر شاہ عادل بلوچی زبان کی نامور شاعرہ بانل دشتیاری کے فرزند تھے۔

لیاری سے تعلق رکھنے والے دیگر سینیئر صحافی صدیق بلوچ ، غلام علی کاکا ، علیم الدین پٹھان اور لطیف بلوچ ان کے ہم عصر تھے۔
شاہ جی’بلوچستان کا مقدمہ‘ نامی کتاب کے مصنف تھے۔ وہ دیگر صوبوں سے متعلق بھی لکھتے تھے۔ انہوں نے پہلی بلوچی فلم ’’ھمل ء ْ ماہ گنج‘‘ میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ تاہم وہ بلوچی فلم تنازعے کا شکار ہوگئی تھی۔ بلوچی فلم ’’ھمل ء ْ ماہ گنج‘‘ کے ہیرو

اور ڈائریکٹر انور اقبال نے مختلف سینما گھروں میں فلم کی اسکریننگ کی کوشش کی لیکن انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ دو سینما گھروں نے بلوچی زبان کے نام پر فلم چلانے کی کوشش کی تو ان سینما گھروں کو نقصان پہنچا گیا۔ بلوچ قوم کو اس فلم کے خلاف ورغلایا گیا اور فلم کو بلوچ قوم کی ثقافت کے منافی قراردیا گیا جس کی وجہ سے اسے ریلیز نہ کیا جاسکا۔ف

لم رومانوی بلوچ لوک داستان مکران کی ایک قدیم بندرگاہ “کلمت” کے سردار جیئند کے بیٹے ’ھمل‘ کی زندگی کی کہانی پر مبنی تھی۔

یہ وہ دور تھا جب پندرہویں صدی میں پرتگیزی عمان پر حملہ کر چکے تھے اور ان کی نگاہیں بلوچستان کے ساحلوں پر بھی تھیں۔ ھمل اپنے باپ جیئند کی موت کے بعد سردار بنا۔ اس نے اپنے باپ کی نصیحت کے مطابق پرتگیزیوں کے خلاف مزاحمت کی۔ فلم کی کہانی میں ھمل کی اپنی بیوی ماہ گنج سے محبت کی داستان بھی شامل ہے۔ نادر شاہ عادل نے اس فلم میں ھمل کے دوست گوریچ کا کردار ادا کیا تھا۔
اس فلم کے وسائل کا انتظام انور اقبال نے خود کیا تھا۔ فلم کا اسکرپٹ بلوچی زبان کے نامور ادیب، محقق اور شاعر ظہور شاہ ہاشمی نے تیار کیا تھا۔ اردو اور بلوچی کے معروف شاعر عطا شاد نے فلم کے گانے لکھے اور فتح محمد نذر نے اس کی موسیقی ترتیب دی جس کے بعد 1974 میں فلم کی شوٹنگ شروع ہوئی۔ فلم میں کام کرنے تمام لوگوں نے بلا معاوضہ کام کیا۔ فلم کے دیگر اداکاروں میں میں ساقی، انیتا گل ، اے آر بلوچ، نور محمد لاشاری اور دیگر شامل تھے۔


انور اقبال نے بڑی مشکل سے یہ فلم بنانے کے لیے پیسے جمع کیے تھے۔ فلم کے خلاف سخت احتجاج کے بعد عطا شاد نے انور اقبال اور نادرشاہ عادل سے کراچی میں ملاقات کی اور کہا کہ آپ لوگوں نے فلم تو بنالی، لیکن لوگ ضد پر آ گئے ہیں اور معاملہ سیاسی ہو گیا ہے۔

لہذا فلم ریلیز نہ کریں۔ کئی سال بعد عطا شاد نے اسی بلوچی فلم ہی کی کہانی سے ماخوذ ایک ٹی وی ڈرامہ لکھا۔ ’آب اور آئینے‘ کے نام سے بننے والا یہ ڈرامہ دو قسطوں میں پیش کیا گیا جس میں ہیرو کا کردار انور اقبال ہی نے ادا کیا اور اس پر کسی بلوچ نے اعتراض نہیں کیا۔
اگر دیکھا جائے پہلی بلوچی فلم ’’ھمل ء ْ ماہ گنج‘‘ کی تحریر میں جان تھی، پروڈکشن معیاری اور اداکار باصلاحیت اور پروفیشنل تھے۔ اگر اس فلم کو چلنے دیا جاتا تو آج بلوچوں کی زبان اور ثقافت کو فروغ ملتا اور ان کی تاریخ اجاگر ہوجاتی۔ بلوچ قوم فلم کی صنعت سے استفادہ کرتی تو بے شمار بلوچ برسر روزگار ہوتے۔ ان کے لئے روزگار کے مواقع کھلتے، ان کی فلمیں دبئی، قطر، پاکستان، سمیت دیگر ممالک کے سینما گھروں کی زینت بنتیں۔
اس وقت امریکا اور بھارت سمیت پوری دنیا فلم انڈسٹری سے پیسہ کمارہی ہے۔ 2010 میں مجھے جنوبی ایشیاء کے دیگر ڈاکومینٹری فلم میکرز کے ساتھ امریکا جانے کا موقع ملا۔ یہ دورہ دراصل ایک مطالعاتی دورہ تھا جس کا انتظام امریکی حکومت نے کیا تھا۔

اس دورے کے دوران ہماری ملاقاتیں امریکا کے نامور فلم میکرز سے ہوئیں۔ بالی ووڈ کے ایک فلم میکر نے ہمیں بتایا کہ بھارت کی فلم انڈسٹری امریکا کی فلم انڈسٹری سے زیادہ کمارہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر انڈیا کی دیگر صنعتیں نہ چلیں تو بھی انڈین فلم انڈسٹری پوری ریاست کو چلا سکتی ہے۔ اس بات سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچی فلم کو چلنے دیا جاتا تو آج بلوچوں کے لئے ایک نئی صنعت کے دروازہ کھل چکے ہوتے جس سے نہ صرف بلوچی زبان کو فروغ ملتا بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں بلوچ اس صنعت سے روزگار حاصل کر رہے ہوتے۔ بلوچوں کی اس وقت کی قیادت بردباری کا مظاہرہ کرتی تو آج بلوچ اتنی بڑی صنعت سے محروم نہ رہتے۔

میری نظر میں بلوچ قیادت نے اس وقت جذباتی فیصلہ کیا تھا جس سے ہماری زبان اور ثقافت کو شدید نقصان پہنچا۔
دنیا میں بے شمار قدیم زبانیں ختم ہورہی ہیں۔ ان زبانوں کو فروغ دینے کے لئے اقوامِ متحدہ کے تحت ہر سال مادری زبان کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا میں آخری سسکی لینے والی زبانوں کو بچانا ہے۔ اگر بلوچ انور اقبال، سید ظہور شاہ، عطا شاد

اور نادرشاہ عادل کے ساتھ تعاون کرتے آج بلوچی زبان کو نہ صرف فروغ ملتا بلکہ بلوچ اپنی سیاسی، تاریخی، سماجی اور اقتصادی معیارات کو بہتر سے بہتر کرسکتے تھے۔ شاید یہ بلوچ قیادت کی ایک تاریخی غلطی تھی جو آج بلوچوں کی نئی نسل بھگت رہی ہے۔