بلوچ یکجہتی کمیٹی کی تحریک کا جنم ایک عورت کے لہو سے ہوا۔
شہید ملک ناز کے خون سے تحریک کی بنیاد پڑ ی جبکہ شہید بالاچ کی شہادت نے تحریک کو نہ صرف منظم و مضبوط کیا بلکہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں بلوچ کاز کو روشناس کرایا۔ شہدا کے خون نے پوری بلوچ سرزمین کو یکجا کرکے ایک انقلابی سوچ برپا کردیا
جس نے مکران سے ڈی جی خان کو یکمشت کردیا۔ کوہ سلیمان کے سپوتوں نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے شرکا کا تاریخی استقبال کرکے یہ ثابت کردیا کہ ان کا جینا مرنا پنجاب کے ساتھ نہیں بلکہ بلوچستان کے ساتھ ہے۔ یہ استقبال ایک عوامی مینڈیٹ تھا۔ اور عوامی ردعمل نے یہ ظاہر کردیا کہ کوہ سلیمان بلوچستان کا اٹوٹ انگ ہے، اور رہے گا۔
شہدا کے لہو سے ابھرنے والی بلوچ یکجہتی کمیٹی کی تحریک نے بلوچ معاشرے میں خواتین کو سیاسی میدان میں دھکیل دیا اور بلوچ عورتوں نے بھی اپنی سیاسی بصیرت سے دنیا کو یہ باور کرادیا کہ وہ مردوں سے کمتر نہیں ہیں بلکہ مردوں سے کئی زیادہ طاقتور ہیں۔ ان کی طاقت کا اندازہ ریاست کی تخت “اسلام آباد” سے پوچھا جائے۔ ان کی راتوں کی نیندیں حرام ہوگئیں ،ان عورتوں نے اپنی ہمت و حوصلہ سے اسلام آباد کے محلوں کی دیواروں کو ہلاکر رکھ دیا
جس سے حکمرانوں کی چیخیں نکل آئیں۔ اسلام آباد کی سرکار اپنی مادری زبان میں چیخ رہی تھی کہ “بلوچی مَینوں گھیر لیا مَیں کیہڑے پاسے جاواں!”۔ کیونکہ بلوچ عورتوں نے انہیں دبوچ لیا تھا۔ ان کو جانے کا راستہ نہیں مل رہا تھا۔ پاگل پن کے عالم میں وہ کبھی بلوچ خواتین کو بسوں میں ڈال کر پنجاب بدر کررہے تھے تو کبھی ان کے لاؤڈ اسپیکر چوری کررہے تھے۔ ان کو سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔اب ہر فرد کو یہ ماننا پڑے گا
کہ عورت کی شناخت کسی کی محتاج نہیں ہوتی بلکہ عورت کا وجود اس کا اپنا ہوتا ہے۔ اور عورت کی طاقت ایک حقیقت ہے۔
اس طاقت کو بلوچ قوم نے اس وقت تسلیم کیا جب بلوچ خواتین نے اسلام آباد سرکار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے للکارا۔ اور اسلام آباد کو لات مارکر واپس اپنے مادروطن بلوچستان پہنچ گئیں۔ جہاں بلوچ قوم کی جانب سے بی این ایم کے بانی چیئرمین شہید غلام محمد بلوچ کے قریبی دوست شہید میر غفار لانگو کی بہادر بیٹی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی دستاربندی کی گئی۔ قوم نے انہیں اپنا سردار (قومی لیڈر) چنا۔ اب یہ سر کٹ سکتا ہے مگر جھک نہیں سکتا۔ کئی سال بعد بلوچ سماج میں مائی چاہ گلی اور بی بی بانڑی رند کا جنم پھر سے ہوا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کا جنم 2020 کے مئی کے مہینے میں بلوچستان کے ضلع کیچ میں “برمش” یکجہتی کمیٹی کے نام سے ہوا۔ اس کی بنیاد کسی جماعت نے نہیں رکھی تھی۔ بلکہ بلوچ قوم کو ایک پلیٹ فارم کی ضرورت تھی۔ یہ سب خود رو انداز میں ہوا تھا۔ اور وقت کی بھی ضرورت تھی۔ کہتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ اور ایک بلوچ ماں “ملک ناز” کی خون سے اس تحریک کا آغاز ہوا۔ یہ آغاز اس وقت ہوا جب ضلع کیچ کے علاقے ڈنوک میں ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں نے ایک گھر میں گھس کر ڈکیتی کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران گھر میں موجود ملک ناز نامی خاتون نے مزاحمت کی۔ مزاحمت کے دوران ان کی شہادت ہوجاتی ہے۔ اور ان کی بیٹی “برمش” شدید زخمی ہوجاتی ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب پورا مکران ڈاکو راج کی لپیٹ میں تھا۔ مسلح افراد آزاد گھومتے تھے۔ سرِعام اسلحہ کی نمائش کرتے تھے۔ پرامن لوگوں کو حراساں کیا جاتا تھا۔کسی کی جان و مال محفوظ نہیں تھی۔ چادر و چاردیواری کا تقدس پامال ہورہا تھا۔ ان مسلح افراد سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی تھی۔ ریاست کے اندر ایک ریاست قائم تھی۔ پورے مکران ڈویژن میں ایک خوف کا سماں تھا۔ ہر کوئی اپنی عزت کی ڈر سے چپ رہتا تھا۔ کیونکہ ان مسلح افراد کو سرکاری پشت پناہی حاصل تھی۔ جس کی وجہ سے ان کو کھلی چھوٹ حاصل تھی۔
تاہم یہ ڈر اور خوف اس وقت ختم ہوا جب ڈنوک کے واقعہ کے خلاف ضلع کیچ کے بجائے ضلع گوادر میں ایک چھوٹا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ اس مظاہرے کی قیادت کامریڈ حسین واڈیلہ، شاہ داد بلوچ اور بالاچ قادر کررہے تھے۔ اس مظاہرے کی فوٹیج سوشل میڈیاکی زینت بن گئی ۔ مقررین اپنی تقاریر میں مسلح افراد کو للکارہے تھے۔ ان کی گونج اتنی تیز تھی کہ اسکی آواز پورے مکران ڈویژن سمیت بلوچستان، سندھ، کوہ سلیمان، ہلمند اور سیستان میں سنی گئی۔ اس طرح خوف کی کیفیت کا خاتمہ ہوا اور لوگوں کو اپنی طاقت کا اندازہ ہوگیا کہ چند مراعات یافتہ اور حمایت یافتہ مسلح افراد سے ان کی طاقت کئی گنا زیادہ ہے۔ اس دوران شہید ملک ناز کی زخمی بیٹی برمش کے نام سے یعنی “برمش یکجہتی کمیٹی” کا قیام عمل میں لایا گیا۔ برمش یکجہتی کمیٹی کی پلیٹ فارم سے ڈیتھ اسکواڈ کے خلاف مظاہرے پھوٹ پڑے۔ بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب (کوہ سلیمان) میں عوام سڑکوں پر آگئیں۔ بالآخر نامزد ملزمان کو جیلوں کے سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا۔ ڈنوک واقعہ میں زخمی ہونے والی بچی برمش کے نام سے بننے والی برمش یکجہتی کمیٹی نے اپنا ہدف پورا کرلیا۔ تاہم بلوچ قوم کو مستقبل میں اس پلیٹ فارم کی اشد ضرورت تھی جس کے باعث برمش یکجہتی کمیٹی کے نام سے چلنے والی تحریک کا نام تبدیل کرکے بلوچ یکجہتی کمیٹی رکھا گیا۔ مختصر عرصے میں اس کمیٹی نے بے پناہ کامیابیاں حاصل کیں۔ سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیراہتمام تربت سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا گیا۔
یہ کامیابی اس وقت ممکن ہوئی جب شہید بالاچ کی بہن، نجمہ بلوچ نے اپنے بھائی کے خون کا سودا نہیں کیا۔ اس بہادر بہن نے سرکار اور ان کی حمایت یافتہ آلہ کاروں کی جانب سے دیئے گئے تمام مراعات اور لالچ کو ٹھکرادیا۔ اور اپنے بھائی بالاچ بلوچ کی لاش کو دفنانے کی بجائے تربت کے شہید فدا چوک پر رکھ دیا اور لاش کو بلوچ قوم کے حوالے کردیا۔ اس طرح ملک ناز کے خون سے تحریک کا جنم اور نجمہ بلوچ کی ہمت و حوصلہ نے تحریک کو تقویت دی۔اگر یہ کہا جائے کہ
یہ تحریک بلوچ خواتین کی مرہون منت ہے تو یہ ہرگز غلط نہیں ہوگا اور بلوچ قوم نے بھی اپنی ماؤں اور بہنوں کو کھل کر لبیک کہا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رضاکارانہ کال پر لاکھوں لوگ سڑکوں پر آگئے۔ ہڑتال اور احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے۔ اتنے بڑے مظاہرے پاکستان کی بڑی بڑی جماعتیں نہیں کرسکی تھیں جو بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کرکے دکھائی۔ اس عوامی مقبولیت نے کمیٹی کو ایک تحریک میں تبدیل کردیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس تحریک کو مکمل تنظیمی ڈھانچہ دیا جائے جس میں مرکزی کابینہ بشمول سینٹرل کمیٹی اور جنرل کونسل کی تشکیل لازمی ہے۔ ہر دو سال بعد اس کا کونسل سیشن کا انعقاد لازمی ہو جس سے مرکزی قیادت کا انتخاب ممکن ہوسکے۔ دراصل کمیٹیاں وقتی طور پر ایک ہدف حاصل کرنے کے لئے بنائی جاتی ہیں تاکہ ایک تنظیم کا ڈھانچہ تشکیل پاسکے اور تنظیمیں تحریکوں کو جنم دیتی ہیں۔ جبکہ تحریکیں انقلابات برپا کرتی ہیں۔
موجودہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کو شہید ملک ناز اور شہید بالاچ نے اپنے خون سے تحریک میں تبدیل کردیا ہے۔ دراصل یہ تحریک بلوچ قوم کی امانت ہے۔ اب اس امانت میں خیانت نہ کی جائے۔