|

وقتِ اشاعت :   February 6 – 2024

بلوچستان کے سلگتے معاملات پر بانگ درا کی طرح اٹھنے والی اور ایک طویل عرصے تک۔۔

.۔اس نقار خانے میں طوطی کی طرح گونجنے والی ایک توانا آواز اب سنائی نہیں دے گی، جی ہاں محمد صدیق بلوچ 6 فروری،2018ء کو اس دنیائے فانی سے ملک عدم کی جانب سدھار گئے۔
صدیق بلوچ پاکستانی صحافت کا وہ درخشندہ باب تھا جو عملی صحافت کے ریگزاروں سے پوری توانائی کے ساتھ اپنے راستے پر کامیابیوں اور کامرانیوں کی منازل طے کرتے کرتے اپنی ذات میں انجمن کا درجہ اختیار کرتا چلا گیا۔ میں نے انہیں کراچی کی سڑکوں پر انگریزی روزنامہ ڈان کے لیے رپورٹنگ کرتے دیکھا کراچی میں محمد صدیق بلوچ کو غیر جانبدار رپورٹنگ کا اعتبار کہا جاسکتا ہے جس موضوع پر انہوں نے قلم اٹھایا قلم سرخرو رہا، کوئی مصلحت ان کے آڑے نہیں آسکی، اس درویش نے اپنے شہر کراچی کا مقدمہ خوب بلکہ بہت خوب لڑا۔
انگریزی روزنامہ ڈان کی رپورٹنگ کا ذکر ہو اور صدیق بلوچ کے ساتھ کاکا غلام علی کا ذکر نا ہو تو بات مکمل ہو ہی نہیں سکتی۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ صدیق بلوچ اور غلام علی کی ہی عطاؤں سے نہ صرف میں، بلکہ مجھ جیسے بہت سے لوگ صحافت کے میدان میں کھڑے بھی رہے اور ٹھہرے بھی۔اُس زمانے میں مجھ جیسے جونیئروں کی حوصلہ افزائی کرنے والے صدیق بلوچ، غلام علی کے ساتھ اگر روزنامہ مشرق کے چیف رپورٹر نسیم شاد کا ذکر نہ کیا جائے

تو بھی بات قرارِ واقعی نہیں ہوگی۔ یوں تو بہت سے لوگ تھے جو سامنے دل جوئی کرتے تھے، لیکن یہ تینوں حضرات، حوصلہ افزائی بھی خوب کرتے اور جہاں ضروری ہوتا ڈانٹ ڈپٹ بھی فرماتے۔
پھرانہیں اپنے انگریزی روزنامہ سندھ ایکسپریس کے مدیر کی حیثیت سے دیکھا جہاں ان کی قائدانہ اور انتظامی صلاحیتوں کا میں تو معترف تھا ہی لیکن پورا کراچی ان کی اس صلاحیت کا معترف ہو گیا۔ کراچی میں، جہاں بڑے بڑے صاحبانِ ثروت اخبار نکالنے کی حسرت لئے رہے،

وہاں صدیق بلوچ نے محدود وسائل میں انگریزی روزنامہ جاری کرکے اور پھر کامیابی سے چلا کے یہ ثابت کردیا کہ لگن، خلوص اور جذبے کی بنیاد پر مشکل سے مشکل کام خوش اسلوبی سے کیا جاسکتا ہے۔
پھر انہوں نے کوئٹہ سے انگریزی روزنامہ بلوچستان ایکسپریس اور اردو روزنامہ آزادی جاری کیا تو مجھے یہ اعزاز حاصل ہوا کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں انگریزی روزنامہ بلوچستان ایکسپریس کا نمائندہ اور بیورو چیف ہوگیا، ان دنوں میں اردو روزنامہ جسارت میں ملازم تھا صدیق بلوچ کی مجھ سے اس شفقت پر بہت سے کامریڈ حضرات خوش نہ تھے انہوں نے میرے ایڈیٹر سے کہا کہ ایک ترقی پسند اخبار میں کسی قدامت پسند شخص کو یہ منصب دینا ٹھیک نہیں جس پر انہوں نے مجھے یہ سند عطا کی اور کہا کہ ’’کسی خبر میں قدامت پسندی کا کوئی ایک لفظ بھی دکھا دیں۔‘‘


جس زمانے میں میدانِ صحافت میں نئے آنے والوں کی قدر، مستری کے چھوٹے سے زیادہ کی نہ تھی، سینئرز اپنے ہاتھ لگنے والے جونیئرز سے پان سگریٹ منگوانے تک کا کام لیا کرتے تھے۔۔ اُن حالات میں اردو اخبار میں کام کرنے والے کسی جونیئر رپورٹر کو اپنے انگریزی اخبار میں موقع دینے، طرفداری کرنے اور سکھانے کے ساتھ ساتھ صحافت کی شاہراہ پر کسی جونیئر رپورٹر کو راستہ دینے والا ایک ہی تھا جس کا نام صدیق بلوچ تھا۔ مجھے اس بات کا اعتراف ہے اور انتہائی فخروشان سے اس کا برملا اظہار کرتا ہوں۔
میں بھول ہی نہیں سکتا کہ جس روز انگریزی نیوز چینل ڈان نیوز سے مجھ سمیت 80 افراد کو بر طرف کیا گیا اور بر طرف شدگان جب کراچی پریس کلب آئے جہاں صدیق بلوچ نے مجھے روایتی محبت سے بلایا اور برطرفی پر حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی طرح سے پریشان مت ہونا۔ یہ بھی کہا کہ تمہیں خواہ عارضی طور ہی سہی ایک کارڈ کی ضرورت ہوگی اور اپنی جیب سے ایک سادہ کارڈ نکال کر اس پر مجھے تصویر لگانے کا کہا اور اس پر اپنے ہاتھ سے دستخط کردیے استاد صدیق بلوچ کے ہاتھوں عطا کردہ وہ کارڈ میرے مستند صحافی ہونے کی دلیل کے طور پر میرے پاس محفوظ ہے۔
پھر یوں بھی ہوا کہ صدیق بلوچ کی صحافتی خدمات کا اعتراف حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی عطا کر کے کیا، 

ان دنوں میں کراچی پریس کلب کا سیکرٹری تھا صدیق بلوچ اور ہمارے ایک اور محترم و سینئر جناب ادریس بختیار صاحب کی پذیرائی کے لیے ایک تقریب کراچی پریس کلب میں ہوئی صدیق بلوچ خود صحافت کا اعتبار تھے اور وہ لوگوں پر اعتبار کرتے تھے وہ خود سچ بولنے اور لکھنے کے عادی تھے چنانچہ سچ بولنے اور لکھنے والوں سے محبت کرتے تھے ساری زندگی ویسپا پر گزاری اللہ رب العالمین نے اگر چہ بڑی مہربانیاں فرمائیں لیکن وہ کبھی جامہ قناعت سے باہر نہ نکلے اپنے ساتھیوں سے بذلہ سنجی کرنے والے، بزرگوں سے عقیدت و احترام سے پیش آنے والے اور چھوٹوں سے محبت کرنے والے ایسے درویش تھے کہ جن کی کہانیاں اردو ادب میں ایک اور باغ و بہار کا موجب ہوسکتی ہیں۔
یوں تو جانے سے کسی کے نہیں رکتا کچھ بھی
اک عہد ختم ہوا میرے عہد کے لوگو

 

یہ مضمون اس سے قبل بھی شائع ہوچکاہے، آج بلوچستان کے ممتاز صحافی، مصنف اور روزنامہ آزادی کوئٹہ اور بلوچستان ایکسپریس کے مدیر صدیق بلوچ کے 6ویں برسی کے حوالے سے دوبار ہ شائع کی جارہی ہے۔ ۔-