سینئر صحافی اور سیاسی، معاشی اور اقتصادی امور کے ماہر صدیق بلوچ کی شخصیت اور صحافتی زندگی کا احاطہ چند الفاظ میں کرنا ممکن نہیں ہے۔ وہ پوری زندگی آزادی صحافت کا درس دیتے رہے۔
اْنہوں نے اپنے نظریات اور اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، آخری دم تک اپنے نظریات پر سختی سے ڈٹے رہے۔
وہ انتہائی کٹھن حالات کا مستقل مزاجی سے مقابلہ کرتے رہے۔ جب انہوں سیاست کا آغاز کیا تو انہوں نے قیدوبندکی صعوبتوں اور اذیتوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔
وہ نہ کبھی ٹوٹے ،نہ جھکے، بلکہ اشرافیہ کے سامنے پہاڑ بن کر کھڑے رہے۔
بلوچ قوم پرستوں کے ممتاز اور انقلابی رہنماء نواب خیر بخش مری نے کراچی میں ایک ملاقات کے دوران ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ صدیق بلوچ سے پوچھا، آج کل آپ کیا کررہے ہیں؟ حالانکہ نواب صاحب، صدیق بلوچ کو نوجوانی کے زمانے سے جانتے تھے اور یہ بات ان کے علم میں بھی تھی کہ وہ کوئٹہ سے روزنامہ آزادی اور بلوچستان ایکسپریس کے بانی اور مدیر ہیں۔
نواب صاحب، صدیق بلوچ کو صادیق بلوچ کہتے تھے۔صدیق بلوچ نے نواب صاحب کو جواب دیا کہ وہ سریاب روڈ کوئٹہ سے دو اخبارات نکالتے ہیں۔ پھر نواب صاحب نے دوسرا سوال کیا۔ کیا آپ کو کوئٹہ شہر سے اخبارات نکالنے دے رہے ہیں؟
یہ سوال دراصل نواب صاحب نے صدیق بلوچ کی شخصیت اور انقلابی خیالات کے پیش نظر کیا تھا۔ ان کو معلوم تھا کہ
صدیق بلوچ، طالبعلمی کے زمانے سے ایک باغی (انقلابی) تھا۔ طالبعلمی کے دور کے بعد انہوں نے نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا۔جب ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان میں قائم نیپ کی حکومت کا بزور خاتمہ کیا ،
نیپ قیادت کے خلاف غداری کے مقدمات درج ہوئے اور ساتھ ہی نیپ قیادت کو حیدرآباد جیل میں بندکردیاگیا۔ جن میں سردار عطاء اللہ مینگل، نواب خیربخش مری، میر غوث بخش بزنجو، صدیق بلوچ، لطیف بلوچ سمیت دیگر رہنما ء شامل تھے۔
صدیق بلوچ نے نواب صاحب کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ فی الحال سلسلہ چل رہا ہے۔ جس پر نواب صاحب نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ آپ کو کوئٹہ شہر میں زیادہ دیر تک صحافت کرنے کی اجازت دیں گے۔ تاہم نواب صاحب نے ایک ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ اگر آپ کو اخبار نکالنا ہے تو آپ کو پہاڑوں پر جانا پڑیگا۔
نواب خیربخش مری اور صدیق بلوچ کی اس ملاقات میں کراچی پریس کلب کے صدر سعید سربازی، صدیق بلوچ کے بڑے صاحبزادے عارف بلوچ،
اور قطر سے آئے ہوئے فرید سربازی بھی موجود تھے۔
فرید سربازی دراصل خیربخش مری کے ساتھ سیلفی بنانے کے لئے ہمارے ساتھ آیا ہوا تھا کیونکہ بلوچ نوجوان، خیربخش مری کو چے گویرا اور فیڈل کاسترو سمجھتے ہیں اور مسلح جدوجہد کی علامت بھی سمجھتے ہیں۔
بلوچ نوجوان نواب مری کو موجودہ بلوچ مزاحمتی تحریک کا بانی قراردیتے ہیں۔ وہ مارکس وادی نظریے کے پیروکار تھے۔ حیدرآباد سازش کیس سے رہائی کے بعد نواب خیر بخش مری اپنے قبیلے کے ساتھ افغانستان منتقل ہوگئے۔ افغانستان میں طالبان کی آمدکے بعد وہ افغانستان سے واپس آگئے۔حکومت اکثر ان پر بغاوت اور حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کا الزام لگاتی رہی ہے۔
بہرحال ہم نواب مری کی ساری گفتگو کو سنجیدہ نہیں لے رہے تھے بلکہ اس کو ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے۔ یہ جنرل پرویز مشرف کی دور حکومت کی بات ہے۔ اس ملاقات کے چند روز بعد وہی ہوا، جو نواب خیربخش مری نے کہا تھا۔ سریاب کوئٹہ کے علاقے سے شائع ہونے والے روزنامہ آزادی اور ڈیلی بلوچستان ایکسپریس کے دفاتر کو جانے والے راستے پر بند کردیئے گئے ،سیکورٹی اہلکار ہر آنے جانے والے کی شناخت معلوم کرنے کے علاوہ ان کی جامہ تلاشی بھی لیتے تھے۔اس گھیراؤ کے خلاف صدیق بلوچ نے وفاقی اور صوبائی حکام سے بات کی لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ یہ سلسلہ ایک مہینے تک جاری رہا۔
سریاب روڈ پر ہی بلوچستان ایکسپریس اور روزنامہ آزادی کے دفتر سے چند فرلانگ پر ایک اور اردو اخبار روزنامہ آساپ کا دفتر واقع تھا۔ ان کا بھی گھیراؤکیاگیا تھاجس کی وجہ سے اس کی اشاعت بند ہوگئی۔ روزنامہ آساپ کے بانی میر جان محمد دشتی کو نامعلوم سمت سے نامعلوم افراد کی گولیاں لگیں۔ جس میں وہ اور ان کے ڈرائیور شدید زخمی ہوگئے۔ اس واقعہ کے بعد روزنامہ آساپ نے اپنی اشاعت بند کردی اور آج تک بند ہے۔
جان محمد دشتی کا تعلق مکران ڈویژن کے ضلع کیچ کے علاقے دشت سے ہے۔ انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے صحافت میں ماسٹر ڈگری حاصل کی اور پھر سرکاری ملازمت اختیار کی۔ دشتی صاحب معروف مصنف بھی ہیں۔ ان کی کتابیں بلوچی انگریزی اور اردو زبانوں میں شائع ہوئی ہیں۔
مشرف دور حکومت میں یہ سلسلہ یہاں تھم نہ سکا۔ روزنامہ توار اخبار کے دفتر میں توڑ پھوڑ کی گئی ’توار‘ جو ایک بلوچی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی آواز کے ہیں۔ یہ اخبار اردو زبان میں شائع ہوتا تھا۔ اخبار اس وقت بند ہوگیا جب ان کے نیوز ایڈیٹر عبدالرزاق سربازی کی مسخ شدہ لاش مل گئی۔بات یہاں تک ختم نہیں ہوئی۔ بلوچستان سے شائع ہونے والے روزنامہ انتخاب سمیت، روزنامہ آزادی اور بلوچستان ایکسپریس کے سرکاری اشتہارات بھی بند کردیئے گئے۔ مشرف حکومت نے بلوچستان سے نکلنے والے اخبارات کے خلاف نہ بیان کرنے والے اقدامات اٹھائے جس کی وجہ سے دو اخبارات بند ہوگئے۔ یہ دور صدیق بلوچ کے لئے ایک چیلنج تھا۔ تاہم انہوں نے اس مشکل گھڑی میں صحافتی اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا۔
صدیق بلوچ سمجھتا تھا کہ آزاد صحافت کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے، اس لیے وہ آزادی رائے کے پْرخار راہ پر گامزن رہے اور صحافتی برادری کی آزادی کے لیے لڑنے کا درس دیتے رہے اورمزاحمت کی سوچ اْبھارتے رہے۔کل وہ ایک سوچ تھے آج ایک نظریہ بن چکے ہیں۔ جنہوں نے تمام عمر اصولوں کی خاطر جیل کی صعوبتیں برداشت کیں۔ مرحوم کی مظلوم و محکوم عوام کے حقوق کی جدوجہد کو بھی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ وہ ایک غیرمعمولی انسان تھے۔ بلاشبہ ملکی صحافت میں ایک ایسا خلاء پیدا ہوا ہے جو مدتوں پر نہیں کیا جا سکے گا۔
یہ مضمون اس سے قبل بھی شائع ہوچکاہے، آج بلوچستان کے ممتاز صحافی، مصنف اور روزنامہ آزادی کوئٹہ اور بلوچستان ایکسپریس کے مدیر صدیق بلوچ کے 6ویں برسی کے حوالے سے دوبار ہ شائع کی جارہی ہے۔ ۔