|

وقتِ اشاعت :   February 7 – 2024

اسلام آباد کی سرکار ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے “میں نہ مانوں” والی پالیسی پر بضد ہے۔

انا پرستی سے ریاست چلانا ممکن نہیں ہے۔ ملکی قوانین کا اطلاق ناصرف شہریوں پر بلکہ سرکاری اداروں پر بھی ہوتا ہے۔ مگر سرکار اپنے بنائے گئے آئین و قوانین کی پاسداری نہیں کررہی۔

بلوچستان میں جبری گمشدگی ایک سنگین مسئلہ ہے تاہم حکومت اس مسئلے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ تربت سے اسلام آباد تک لاپتہ افرادکے لواحقین نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیراہتمام مارچ کیا

جس کے نتیجے میں تمام پاکستانیوں سمیت پوری دنیا نے سرکاری اداروں کی جانب سے ماورائے قانون اقدامات کی مذمت کی اور جبری گمشدگی کو ماورائے عدالت قراردیا۔لانگ مارچ کے شرکا کو نہ صرف خالی ہاتھ بلوچستان روانہ کردیا گیا

بلکہ بلوچستان پہنچنے کے بعد انہیں مزیدلاشوں کا تحفہ پیش کرنا شروع کردیاگیا۔

گزشتہ روز شناخت کے لئے پانچ افراد کی لاشیں سول اسپتال کوئٹہ لائی گئیں۔

سول اسپتال کے باہر بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بزرگ رہنما واجہ صبغت اللہ بلوچ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ مذکورہ لاشیں لاپتہ افراد کی تھیں جن کے نام ہماری فہرست میں تھے جن میں سے 4 لاشوں کو ان کے لواحقین شناخت کرچکے ہیں۔

بی وائی سی کے رہنماؤں کے مطابق ان لاشوں میں بشیر احمد مری ولد حاجی خان اور ارمان مری ولد نہال خان مری جنہیں 2 جولائی 2023 کو جبری طور پر اٹھایا گیا تھا ، اور صوبیدار ولد گلزار خان ہرنائی بازار سے 9 ستمبر 2023 کو جبری گمشدہ کیا گیا تھا

جن کے لواحقین نے اسلام آباد دھرنے میں شرکت کرتے ہوئے ان کی بازیابی کا مطالبہ بھی کیا تھا اور چوتھی لاش کی شناخت شکیل احمد ولد محمد رمضان سکنہ زہری سے ہوئی جن کے خاندان کے مطابق انہیں 4 جون 2023 کو جبری گمشدہ کیا گیا تھا۔

طویل احتجاج کے بعد لاشیں ان کے ورثاء کے حوالے کردی گئیں۔
ایک طرف آج ملک بھر میں عام انتخابات ہورہے ہیں جبکہ دوسری جانب بلوچستان کے تمام اضلاع جبری گمشدگی کیخلاف سراپا احتجاج ہیں۔ پرامن احتجاج کرنا بھی ایک جرم بن چکا ہے۔ تین فروری کو ضلع کیچ کے علاقے سامی میں سی پیک شاہراہ پر 65 سالہ لاپتہ واحد بخش کے لواحقین پر دھاوا بول دیاگیا۔ خواتین اور بچیوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایاگیا۔ اس موقع پر حق دو تحریک حق پرست کے سربراہ محمد یعقوب جوسکی کو لہو لہان کردیا گیا

جنہیں زخمی حالت میں آغا خان اسپتال کراچی منتقل کردیا گیا۔ یعقوب جوسکی عام انتخابات میں پی بی 26 کیچ 2 کے امیدوار بھی تھے۔ تشدد کے بعد ان کی جماعت نے عام انتخابات سے بائیکاٹ کا اعلان کردیا ہے تاہم لواحقین اور حق دو تحریک کے رہنماؤں نے ہار نہیں مانی اور بلاآخر سرکاری اداروں کو 65 سالہ لاپتہ واحد بخش کو چھوڑنا پڑا جس کے بعد دھرنا ختم کیا گیا۔
کئی دنوں سے تربت کے علاقے آپسر سے تعلق رکھنے والی پانچ فیملز نے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے سی پیک ایم ایٹ شاہراہ ڈی بلوچ کے مقام پر دھرنا دیا ہوا ہے۔ مظاہرین کے مطابق ان میں عابد علی ولد وشدل سکنہ آپسر کو 21 مارچ 2023، ظریف ولد محمد بخش کو 9 اگست 2023، شعیب ولد لیاقت کو 10 اپریل 2023، حماد نزیر ولد نزیر احمد کو 10 اپریل 2023 اور عدیل اقبال ولد محمد اقبال کو 8 مارچ 2023 کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کیا گیا۔
چھ فروری 2024 کی رات کو تربت کے

علاقے ملائی بازار واجد ولد صوالی نامی ایک نوجوان کو لاپتہ کردیا گیا۔ لاپتہ نوجوان تربت یونیورسٹی سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کا طالب علم ہے۔ ان کے لواحقین نے پہلے شہید فدا چوک پر دھرنا دیا بعد میں لواحقین نے ڈی بلوچ چوک پر جاری دھرنے کو جوائن کرلیا۔ جہاں ان کا دھرنا جاری ہے۔ڈی بلوچ پر جاری دھرنے کے شرکاء کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے اس سے پہلے کئی بار احتجاج اور مظاہرے کیے گئے، ضلعی انتظامیہ نے طفل تسلیاں دے کر بازیابی کی امید دلائی مگر انہیں رہا نہیں کیا گیا۔مظاہرین کا کہنا ہے کہ جب تک ضلعی انتظامیہ ان کی بازیابی یقینی نہیں بنائے گی تب تک احتجاج جاری رہے گا۔اسی طرح گوادر شہر سے طالب علم محسن حسن ولد ابولحسن بالاچ اور رفیق کو بھی لاپتہ کردیا گیا۔ جنوری کے آخری ہفتے کو پسنی کے مقام پر بدوک چیک پوسٹ کے قریب دوران سفر لومز یونیورسٹی لسبیلہ اوتھل کے طالب علم محبوب

بلوچ کو مسافر بس سے اتارکر لاپتہ کردیا گیا جس کے ردعمل میں مسافر بسوں میں دیگر ساتھی طلبا نے احتجاجاً روڈ بلاک کردیا تھا جس کے باعث ٹریفک معطل ہوئی تاہم یہ احتجاج چند گھنٹے جاری رہنے کے بعد ختم کردیا گیا جبکہ لاپتہ طالب علم تاحال بازیاب نہ ہوسکا۔ان جبری گمشدگیوں کے خلاف پیر کے روز بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کی جانب سے تربت میں شٹر ڈائون ہڑتال کی کال پر تربت شہر میں تمام کاروباری مراکز مکمل بند رہے۔
ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتی ادارے لاپتہ افراد جیسے اہم مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک انسانی مسئلہ ہے بجائے اس سنگین مسئلے کو حل کرنے کے ادارے بضد ہیںجو بلوچستان میں جلتی پر تیل کاکام کرے گی ۔ اگر مستقبل میں حکومت کی جانب سے مارو اور پھینکو والی پالیسی برقرار رہی توردعمل کا آنا یقینی ہوگا۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے۔ اور ریاست ہٹ دھرمی دکھانے اور لوگوں کو زندانوں میں رکھنے کے بجائے انہیں بازیاب کرے یا عدالتوں میں پیش کرے۔ اس طرح کسی بھی شخص کو جبری طور لاپتہ کرنا ماورائے قانون اور ماورائے عدالت ہے۔ ایسے اقدامات سے صرف نفرت میں اضافہ ہوگا اوربلوچ قوم میں ریاست کے خلاف مزید نفرتیں پھیلیں گی۔