|

وقتِ اشاعت :   February 11 – 2024

پاکستان میں حکومتیں بدلتی رہتی ہیں۔ پارلیمنٹ میں چہرے بھی بدلتے رہتے ہیں۔ وزیراعظم نیا آجاتا ہے اور وزرا بھی نئے آجاتے ہیں۔ دیگر صوبوں میں خوشیوں کا سماں ہوتا ہے،

ہر طرف خوشیاں اور مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں لیکن بلوچستان میں وہی ماتم رہتا ہے۔ لوگوں کی سوگوار زندگی چلتی رہتی ہے۔ بلوچ سماج میں انسانی حقوق کی پامالی کا عمل جاری رہتا ہے۔ اقتدار حاصل کرنے والی سیاسی جماعتیں جب اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو وہ جبری گمشدگی اور مسخ شدہ لاشوں کو بطور سیاسی کارڈ استعمال کرتی ہیں اور جب اقتدار میں آتی ہیں تو یکدم ان کا موقف بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔ ان کے منہ پر تالے لگ جاتے ہیں۔ کیونکہ انہیں لاپتہ افراد کی جگہ وزارتیں پیاری ہوتی ہیں۔
اس تناظر میں پارلیمان پسند بلوچ جماعتوں کی بے شمار مثالیں ہیں جن میں سردار اختر مینگل اور ڈاکٹر مالک بلوچ سرفہرست ہیں۔ حالیہ عام انتخابات میں سردار اختر مینگل نے اپنے انتخابی جلسوں میں لاپتہ افراد کا کارڈ کھل کراستعمال کیا۔

اس کارڈ کی بدولت ان کی جیت تو ہوگئی۔ وہ الگ بات ہے کہ پورے حلقے میں ٹرن آؤٹ ساڑھے تین فیصد رہی۔ اختر مینگل تین ہزار چار سو، چار ووٹ لے کر ایک بار پھر قومی اسمبلی کے رکن بن گئے۔ این اے 261 سوراب کم قلات کم مستونگ میں کل ووٹروں کی تعداد تین لاکھ، اکہتر ہزار ترتالیس ہے۔

اس بات سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ بلوچ عوام نے الیکشن میں شرکت نہ کرکے پارلیمانی سیاستدانوں پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے۔ اب اخلاقی طور پر ان کے پاس عوامی مینڈیٹ نہیں۔ دوسروں صوبوں میں اتنی تعداد میں ووٹ ایک کونسلر لے کر منتخب ہوتا ہے۔ اور اختر مینگل جیسی نامور شخصیت اتنی کم تعداد میں ووٹ لے کر اپنی عوامی مقبولیت کھو چکے ہیں۔
ماضی میں بھی اختر مینگل پانچ سال تک حکومت کا حصہ رہے۔

اس دوران جبری گمشدگی جیسا انسانی مسئلہ تھم نہ سکا۔ انہوں نے جتنے بھی بلوچ عوام سے وعدے کئے تھے وہ پورے نہیں کئے گئے جس کی صرف ایک مثال کچھ یوں ہے۔ جب بلوچ یکجہتی کمیٹی کے شرکا پر اسلام آباد میں لاٹھی چارج کیا گیا

تو اختر مینگل نے یہ کہا تھا کہ اگر اسلام آباد کی حکومت بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کے مطالبات تسلیم نہیں کرے گی تو ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے گورنر بلوچستان عبدالولی کاکڑ اپنے عہدے سے مستعفی ہوں گے۔

جیسے ہی گورنر بلوچستان نے اسلام آباد کی پرفضا مقام پر قدم رکھا۔ بجائے لواحقین کے پیارے بازیاب ہوتے بلکہ ان کا لاوڈ اسپیکر لاپتہ کردیا گیا جوتاحال بازیاب نہ ہوسکا۔ لیکن گورنر اپنے عہدے پرتاحال قائم و دائم ہیں۔ شاید بلوچستان میں نئی حکومت ” سدا بہار کوچ” کی طرح ” باکمال لوگ لاجواب سروس” کی طرح چلتی رہے گی۔


بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین خالی ہاتھ اپنے اپنے گھر پہنچ گئے۔ جن کے پیارے پندرہ پندرہ سال سے جبری گمشدگی کے شکار ہیں اور ان کے اہل خانہ کو اس حوالے سے کچھ بھی نہیں بتایا جاتا۔ لاپتہ افراد کے لواحقین ان کی واپسی کا راستہ دیکھتے رہتے ہیں۔ وہ ذہنی کرب و اذیت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
بلوچ سیاسی کارکنوں اور طالب علموں کو اٹھانا عام سی بات ہوگئی ہے۔ اگر ایک کو چھوڑدیا جاتا ہے تو اس کے بدلے میں دس کو لاپتہ کردیا جاتا ہے۔ عمران خان کی حکومت ہو یا پھر شہباز شریف کی ،بلوچ کے لئے کوئی ریلیف نہیں ہے۔ سب بے بس نظر آتے ہیں۔ وہ صرف اپنے اقتدار کو بچانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ بلوچستان کے لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے سابق وزیراعظم شہباز شریف کوئٹہ کی ایک تقریب میں اپنی بے بسی کا اظہار کر چکے ہیں۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ

 

وہ لاپتہ افراد کا معاملہ “بااختیار لوگوں” کے سامنے رکھیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ ایک بے اختیار وزیراعظم تھے۔ ان کی اتحادی جماعتیں بھی صرف اقتدار کے حصول کے لئے جدوجہد کررہی ہیں۔ اسی طرح پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے بھی کوئٹہ میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے جلسے کے دوران لاپتہ افراد کی لواحقین سے ملاقاتیں کیں اور جلسے میں ان کی بازیابی کا مطالبہ بھی کیا تھا لیکن جب میڈم مریم نواز کی حکومت بنی وہ اس مطالبہ سے دستبردار ہوگئیں۔
آج لاپتہ افراد کے لواحقین سڑکوں پر دربدر ہیں۔ ان کو عید بھی نصیب نہیں ہوتی ۔ عید کے روز بھی کوئٹہ، کراچی، گوادر، خضدار میں لاپتہ افراد کے لواحقین پریس کلبوں کے سامنے احتجاج کرتے رہتے ہیں۔
ویسے تو جبری گمشدگیوں کی لمبی فہرست ہے۔ تاہم 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے دنوں کے واقعات کو مدنظر رکھیں تو ایک ہولناک منظر سامنے آتا ہے۔ انسان کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔نوشکی سے گولڈ میڈلسٹ نوجوان کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ بولان ٹیکو انڈو انسٹی ٹیوٹ نوشکی کے نیشنل گولڈ میڈلسٹ کھلاڑی ہارون بلوچ کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام منتقل کردیا گیا۔ مستونگ سے طالب علم محمد علیزئی کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا گیا۔خاران سے تین افراد کو اغوا کیا گیا۔ جن کی شناخت حجام گل خان شکاری، اس کا بیٹا میران کو لاپتہ کردیا گیا۔ جبکہ ایک اور واقعہ میں زائد ولد محمد اختر نامی نوجوان کو بھی لاپتہ کردیا گیا۔ کہا جارہا ہے کہ لاپتہ ہونے والے کا تعلق بلوچستان پولیس سے ہے۔ اسی طرح ضلع آواران سے باپ بیٹے سمیت تین افراد کو حراست کے بعد لاپتہ کردیا گیا۔ لاپتہ ہونے والوں کی شناخت مجید اور اس کا اجیم مجید اور سلام کمبرانی کے ناموں سے ہوئی ہے۔جبکہ ضلع کیچ سے کئی دنوں سے چھ فیملز نے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے سی پیک ایم ایٹ شاہراہ ڈی بلوچ کے مقام پر دھرنا دیا ہوا تھا۔ انتظامیہ اور مظاہر ین کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد موخر کر دیا گیا۔ مظاہرین کے ساتھ مذاکرات میں تجویز پیش کی کہ لاپتہ افراد میں سے تین کو چوبیس گھنٹوں کے اندر بازیاب کیا جائے گا جب کہ دیگر تین نوجوانوں کو عدالتوں میں پیش کیا جائے گا۔مظاہرین نے اس شرط پر دھرنا ختم کردیا۔
1948 سے لیکر آج تک بلوچستان ایک غمزدہ خطے کے طورپر دنیا میں جانا جاتا ہے۔ حکومت بلوچ عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے نمک پاشی کررہی ہے۔