پاک ۔ ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے تحت پاکستانی سرزمین پر 80 کلومیٹر پائپ لائن بچھانے کے منصوبے کی منظوری کے لیےکابینہ کی توانائی کمیٹی کا اجلاس جلد بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
حکومتی ذرائع نے بتایا کہ کابینہ کی توانائی کمیٹی کا اجلاس جمعہ 23 فروری کو بلانے کی تجویز ہے۔
پاکستان نے ایران کےاربوں ڈالرز کے ممکنہ جرمانے کے خدشات سے بچنے کے اقدامات کے لیے پاک ۔ ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے تحت تعمیراتی کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاک ۔ ایران گیس پائپ لائن منصوبےکے تحت تعمیراتی کام کا آغاز ایرانی سرحد سے گوادر تک کیا جائے گا اور 80 کلو میٹر پائپ لائن بچھانے کے لیے ایک سال کا عرصہ درکار ہوگا۔
ذرائع نے کہا کہ پہلے مرحلے میں 80 کلومیٹر کے منصوبے پر 15 کروڑ 80 لاکھ ڈالرز لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے، منصوبےکے لیے فنڈز گیس انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس سے فراہم کیے جائیں گے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق اگر ایران نےمنصوبے پر عمل درآمد نہ ہونے پر عالمی عدالت سے رجوع کرنےکا فیصلہ کیا تو پاکستان، گیس پائپ لائن منصوبے کے لیے امریکی پابندیوں سے استثنیٰ کی درخواست دائر کرے گا۔
واضح رہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان 2009 میں معاہدہ طے پایا تھا کہ گیس پائپ لائن منصوبے کے تحت 750 ایم ایم سی ایف ڈی گیس پاکستان کو فراہم کی جائے گی۔
منصوبے کے تحت 1931 کلومیٹر پائپ لائن بچھائی جانی ہے جس میں 1150 کلومیٹر ایران اور 781 کلومیٹر پاکستان کے اندر ہوگی۔
منصوبے کے تحت پاکستان کو جنوری 2015 میں گیس کی سپلائی ہونی تھی تاہم اب تک منصوبہ مکمل نہ کیا جاسکا اور کب تک مکمل ہوگا اب تک یہ بھی واضح نہیں ہے۔
ایران منصوبے کے تحت پہلے ہی 900 کلومیٹر پائپ لائن تعمیر کرچکا ہے، تاہم ایران کی جانب سے 250 کلومیٹر پائپ لائن کی تعمیر ہونا اب بھی باقی ہے۔