|

وقتِ اشاعت :   February 22 – 2024

بلوچ گلزمین کے بعد سندھ دھرتی پر بھی مڈل کلاس عورتوں پرمشتمل ایک خاموش تحریک پنپ رہی ہے۔ یہ تحریک سندھ میں سیاسی خلاء پرنہ ہونے کی وجہ سے جنم لے رہی ہے کیونکہ بلوچستان کی طرح سندھ میں بھی ایک افراتفری اور سیاسی بے چینی کا ماحول ہے جس کی ذمہ دار سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔ بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے بلاول بھٹو اور صاحبزادی آصفہ بھٹو آہستہ آہستہ اپنی عوامی مقبولیت کھو ر ہے ہیں۔ دونوں کا پولیٹیکل اسٹینڈ نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ وہ سیاست میں مصلحت پرستی کررہے ہیں۔ سندھ میں انسانی حقوق کی پامالی، جبری گمشدگی اور سیاسی کارکنوں کے سرعام قتل جیسے سنگین “کور ایشوز” سے چشم پوشی کی جارہی ہے۔ جو ایک آئینی و قانونی مسئلہ ہے۔ سندھ میں سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگی کئی سالوں سے پیپلز پارٹی کی حکومت کی ناک کے نیچے جاری ہے۔ پی پی کی اعلیٰ قیادت کی خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ سندھ میں جبری گمشدگی کی ذمہ دار پی پی کی لیڈر شپ ہے۔ ان کے سامنے سندھی عوام کی جان و مال کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے بلکہ انہیں اقتدار جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ پیپلز پارٹی کے اس دوہرے معیار کی سیاست سے سندھ میں سیاسی خلا پیدا ہوگیا ہے جس کو پر کرنے کیلئے سول سوسائٹی آگے بڑھ رہی ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی طرح ” وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ” نامی سول سوسائٹی جیسی تنظیم سامنے آرہی ہے جس کی قیادت کرنے والی بھی سندھ کی بیٹیاں ہیں۔ جن میں قتل ہونے والے ہدایت لوہار کی بیٹی سورٹھ لوہار اور سسی لوہار اور دیگر شامل ہیں۔ ان کی کہانی بھی بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ جیسی ہے۔ جس طرح ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے والد میر غفار لانگو کی مسخ شدہ لاش ملی تھی۔ اسی طرح 16 فروری 2024 کو سورٹھ اور سسی کے والد ہدایت لوہار کو قتل کردیا گیا۔ اس قتل کے خلاف ان کی بیٹی سسی لوہار نے نصیرآباد، لاڑکانہ بائی پاس پر اپنے والد ہدایت لوہار کی لاش رکھ کر دھرنا دیا۔ بعدازاں دونوں بیٹیوں نے اپنے والد کے جنازے کو خود کندھا دیا اور انہیں سندھ کے شہر “سن” میں سندھ کے قومی رہبر اور انقلابی رہنما، سائیں جی ایم سید کی آخری آرام گاہ کے ساتھ دفنایاگیا۔ بیٹیوں کے اپنے والد کے جنازہ کو کندھا دینا ایک بڑا پیغام ہے۔ یہ سیاسی شعور کی بیداری کا پیغام ہے۔ یہ بلاول بھٹو کی قیادت پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ یہ سندھ کی نیاڑی کی قیادت میں منظم ہونے کا پیغام ہے۔
ہدایت لوہار ایک انسانی حقوق کے رہنما تھے جو 17 اپریل 2017 سے جولائی 2019 تک جبری لاپتہ رہے ۔ جن کی آزادی کے لیئے ان کی بیٹی سورٹھ اور سسی لوہار نے کئی سالوں تک جدوجہد کی تھی۔ ہدایت لوہار پیشے سے ایک استاد تھے اور 1980 کی دہائی سے جئے سندھ کے ایک سرگرم سیاسی کارکن بھی رہے ہیں۔
ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان، بلوچ یکجہتی کمیٹی سمیت دیگر سندھی قوم پرست جماعتوں نے بھی ہدایت لوہار کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اسکول ٹیچر اور سیاسی کارکن ہدایت لوہار کو نامعلوم افراد نے ٹارگٹڈ کلنگ میں مار کردیا ہے۔ مزید کہا کہ سندھی، بلوچ، پشتون اور دیگر مظلوم اقوام کو اس غیرانسانی عمل کے خلاف اجتماعی جدوجہد کرنا ہوگی۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت یہ بھول چکی ہے کہ مصلحت پرستی کی سیاست کرنے سے ان کی جماعت غیر مستحکم ہوگی۔ انہیں ایک فیصلہ کرنا ہوگا۔ انہیں سندھ کی عوام کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا یا اقتدار کا مزہ لینا ہوگا۔ ایسی پالیسیوں سے بلاول بھٹو کی جماعت عوامی مقبولیت کھو رہی ہے جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی میں سیاسی کلچر کا بھی خاتمہ ہورہا ہے جس سے مستقبل میں سیاست میں ایک بھیانک قسم کا عمل شروع ہوگا۔بلاول بھٹو کی والدہ شہید بے نظیر بھٹو نے ملک میں قانونی کی حکمرانی کی جدوجہد کی۔ انہوں نے ہمیشہ جمہوریت کی پاسداری کی۔ آمرانہ سوچ کے خلاف آواز بلند کی۔ وہ آمریت کے سامنے کبھی نہیں جھکی، وہ ایک عوامی لیڈر تھیں لیکن صد افسوس کہ ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو عوام کو طاقت کا سرچشمہ ماننے کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کو طاقت کا سرچشمہ سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے آج پیپلز پارٹی عوامی پارٹی کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کا بغل بچہ بن چکی ہے۔
ماضی میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے اقتدار حاصل کرنے کے لئے “سندھ کارڈ” کا استعمال بھی کیا ہے۔ کئی بار بلاول بھٹو نے لاہور اور لاڑکانہ میں ڈومیسائل کے فرق کا واویلہ بھی مچایا۔ “مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں” کا نعرہ بھی لگایا ہے۔ یہ سب نعرے لفاظی تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت نے زیڈ اے بھٹو سے لے کر شہید بے نظیر بھٹو تک کے نظریے کا سودا کیا ہے۔ اس سودے کے عوض میں انہیں اقتدار ملا۔انہیں سندھ اور اسلام آباد میں اقتدار حاصل کرنا تھااورکئی سالوں سے پی پی پی اقتدار کا مزہ لے رہی ہے لیکن اس سیاست سے بلاول بھٹو ہیرو سے زیرو بن سکتا ہے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت کو بلوچستان میں بلوچ پارلیمان پسند جماعتوں اور قبائلی نواب و سرداروں کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔ آج بلوچستان میں ان کی جگہ بلوچ خواتین نے لے لی ہے۔ اسلام آباد سے بلوچ لانگ مارچ کی واپسی ناامیدی یا ناکامی نہیں بلکہ بلوچ تحریک ایک نئے باب میں داخل ہوگئی ہے۔ اب تحریک بلوچ خواتین کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔ جو موجودہ تحریک کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اب یہ تحریک بلوچستان کے کونے کونے میں پھیل چکی ہے۔ عورت اور مرد یک آواز ہو گئے ہیں۔
سندھ میں بھی بلوچستان کی طرح سندھی خواتین پرمشتمل ایک تحریک جنم لے رہی ہے جس سے سندھ میں فیوڈل کلاس کی جگہ مڈل کلاس قیادت سامنے آئیگی اور اس تحریک کی قیادت بلوچستان کی “زال بول” کی طرح سندھ کی “نیاڑی” کریں گی۔
بقول شاعر لطیف ابراہیم ایڈوکیٹ کے
یہ سندھ کی ماہ رنگ ہے
یہ آج کی سسی ہے
سندھ کبھی تہذیب کو جنم دینے والا تھا
اب ایک مٹی کا ٹیلا ہے
سندھ اب ایک ویران اسٹیشن ہے
جس پر اب گاڑیاں نہیں رکتیں
سندھ ایک ویران گھر ہے جس میں
بس پرانے مکیں رہتے ہیں
کچھ چھوڑ کر چلے گئے
کچھ باقی ہیں۔