کوئٹہ :بلوچستان گرینڈ الائنس کے سربراہ سینئر سیاست دان و سابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ مادری زبانوں کو معدوم ہونے سے بچانے کیلئے براہوی ، بلوچی ، پشتو زبانوں میں نئی کتابیں تحریر، ان پر فکری نشستیں ہونی چاہیں تاکہ صدیوں سے ہم جو زبانیں بول رہے ہیں
اور ہماری زندگی کا حصہ ہیں ان کو معدوم ہونے سے بچایا جاسکے ، اگر یہ زبانیں معدوم ہوجاتی ہیں تو ہم اپنی شناخت بھی کھودیں گے۔ یہ بات انہوں نے مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر ایک ویڈیو پیغام میں کہی۔
انہوں نے کہا کہ مادری زبانوں کے حوالے سے بلوچستان کے لوگ بہت بڑے قومی المیہ سے گزرے ہیں ، ماضی میں ہمارے صوبے میں براہوی ، بلوچی اور پشتون زبانیں بولی جاتی تھیں اور دفتری زبان فارسی تھی تاہم ہمارے ساتھ قومی صدمہ یہ ہوا کہ اردو کو رابطہ اور انگریزی کو دفتری زبان قرار دیا گیا اور ہمارے لوگوں کو یہ زبانیں سیکھنے اور زندگی کا حصہ بنانے میں وقت لگا اور ہم اپنی مادری زبانوں کو تدریس کا حصہ نہ بنا سکے
اور یوں ہم پیچھے رہ گئے۔ انہوں نے صوبے کے قلم کاروں ، دانشوروں سے مطالبہ کیا کہ مادری زبانوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں ،75 سال سے ہم جن صدموں سے گزررہے ہیں اس پر قابو پانے کیلئے مادری زبانوں کو فروغ اور تدریس کا ذریعہ بنایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ مادری زبانوں کی اہمیت کو اجاگر اور تدریس کا ذریعہ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔انہوں نے کہا کہ 1973 میں شہید نواب غوث بخش رئیسانی نے ٹیلی وژن پر بلوچی ، پشتو اور براہوی زبانوں کی نشریات کا آغاز کرایا تھا تاکہ باقی دنیا سے بھی ہمارا رابطہ قائم ہو۔انہوں نے کہا کہ ریاست کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مذہبی ، طبقاتی ، لسانی بنیادوں پر سماج کو تقسیم رکھا جائے