|

وقتِ اشاعت :   February 24 – 2024

نوٹ، اس کالم کو حالیہ انتخابات کے فیاضانہ نتائج اور دوسری طرف خوفناک عدم دلچسپی کے تناظر میں دیکھا جائے۔
حقیقت یہی ہے کہ پاکستان بنانا ثواب و خیر کا بہترین کام تھا مگر ساتھ یہ درد ناک حقیقت بھی قبول کریں کہ 76سال میں ثواب کے نام پر اس ملک کی ریاست نے ثواب کے بجائے گناہ در گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ پہلا آرمی چیف انگریز اور غیر مسلم ، پہلا وزیر خارجہ انگریزوں کا پروردہ قادیانی ،پہلے قدم میں اشرافیہ کو ملکی زمام سیاست کا اختیار تھمایا گیا ،تہذیبی طورپر اسلام و مسلمانوں کی تہذیب کی زبانی کلامی خانہ پری سے بات آگے نہ بڑھائی گئی ، مارشل لاء لگا کر اسٹیبلشمنٹ کو اقتدار کا نشئی بنایا گیا۔ سودی استحصالی معیشت کی بنیاد نہیں رکھی جائے گی ،قرآن و سنت کے خلاف قانون نہیں بنے گا، یہ بات صرف آئین کے اوراق میں موجود ہے میدان میں ہر قدم قرآن و سنت کے خلاف ۔
ثواب و گناہ کا جو سلسلہ 76سال پہلے شروع ہوا ،ثواب والا پہلو نظر انداز کیا گیا اور گناہ کا پہلو ہر چیز میں نمایاں ہوتا گیا ،سیاسی عدم استحصام نے معاشی زبوں حالی کو پیدا کیا، ہر میدان میں اشرافیہ ہی اشرافیہ اور اشرافیہ کی نسل انتہائی نظم وضبط کے ساتھ پیدا ہوا اور اس کی پرورش ہورہی ہے جبکہ عامۃ الناس بے تحاشہ زیادہ ہوتے رہے ۔ اور اب بھی یہی تناسب ہے کہ مراعات یافتہ طبقہ منصوبہ بندی کے مطابق بڑھ رہاہے اور فقرا ء و مساکین کی افزائش نسل کا سلسلہ دھماکہ خیز ہے ۔
اب یہ دیکھنا ہے کہ 76سال پہلے خطہ کی کیا صورت حال تھی ایک ہندوستان تھا جو متعدد ریاست او رنیم خود مختار علاقوں پر مشمل تھا اور انگریزی حاکمیت کے ماتحت تھا ،پھر بھی ہند، ہندوستان یا انڈیا کے نام سے موسوم تھا۔ انڈیا کے پڑوس میں افغانوں کی نسبتاً خودمختار اور مستقل بادشاہت تھی اور ہندوستان کے مغرب میں بلوچستان کی بادشاہت تھی جو کافی حد تک خودمختار اور چند امور میں سلطنت انگلیشیہ کے ماتحت تھا لیکن بلوچ اور قلات اپنی جداگانہ شناخت کا مالک تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ جب بر صغیر کی تقسیم اور مسلمانوں کے لئے الگ ملک بنانے کی کارخیر کی تحریک چل رہی تھی تو ہندوستان کے جید اور مقتدر علماء اس تحریک کی شدو مد سے مخالفت کرتے تھے ۔مزید مزیدار بات یہ تھی کہ ہندوستان کی تقسیم کے مخالف علمائے کرائم کے پاس دلائل تھے اور پاکستان بنانے ولے حضرات جس میں پہلے مرحلہ میں علماء کرائم کی کوئی خاص نمائندگی بھی نہیں تھی وہ بھی تقسیم کے عمل پر، پر جوش دلیل دیا کرتے تھے ۔76سال بعد اگر دیکھیں کہ آج ان لوگوں میں سے کس کی بات جیت گئی، اس موضوع پر کہنے کو تو بہت کچھ ہے مگر مولانا حسین احمد مدنی کی یہ بات اپنے جواب کا منتظر ہے کہ۔’’ آج کے بعد ہندوستان میں مسلمان اور پاکستان میں اسلام مظلوم ہوگا‘‘ پچھلے دنوں بابری مسجد کی جگہ مندر بن گیا اور دہلی کی ایک قدیم تاریخی مسجد، مدرسہ و قبرستان سمیت شہید کردیا گیا۔ پاکستان میں چمن افغان بارڈر پر لاکھوں لوگوں کا اجتماع ابھی تک اپنا جواب حاصل نہیںکر سکا ہے جبکہ بلوچستان کی بے بس خواتین دو ہزار کیلو میٹر سفر اور دو مہینہ آہ و فغاںکے بعد مایوس واپس لوٹ گئیں۔ اب فیصلہ کرو کہ ہمارے گناہوں کا سلسلہ کب ختم ہوگا۔