وفاق کے بعد بلوچستان میں بھی حکومت سازی کے معاملات طے پاگئے ، پی پی اور ن لیگ کو 6 ،6 وزاتیں جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کو دو وزارتیں ملیں گی۔ وزیراعلیٰ پیپلزپارٹی اور سینیئر وزیرن لیگ کا ہوگا ۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے مشیروں کا تقرر کیا جائے گا، گورنر بلوچستان کی تعیناتی پاکستان مسلم لیگ ن سے کی جائے گی اور اسپیکر بلوچستان اسمبلی ن لیگ جبکہ ڈپٹی اسپیکر پیپلز پارٹی سے ہوگا۔ ایک سے دو روز میں حکومت سازی کے معاملات کو حتمی شکل دینے کے بعد وزیر اعلیٰ کے نام کا اعلان کر دیا جائے گا۔
گزشتہ روز بلوچستان میںحکومت سازی کے لیے ن لیگ نے جے یوآئی ف سے معذرت کرلی تھی، جس کے بعد جے یوآئی ف کو بلوچستان میں 11 نشستوں کے باوجود اپوزیشن میں بیٹھناپڑے گا۔ ن لیگ اورپی پی کی مخصوص نشستوں سمیت 17،17 نشستیں ہیں اور وزیراعلیٰ کے لئے بلوچستان میں 33 ارکان درکارہیں جبکہ ن لیگ اور پی پی کے پاس 34ارکان پہلے سے موجود ہیں۔
جے یوآئی کو شامل کرنے پر اسے حکومت میں حصہ بھی دیناہوگا تاہم ن لیگ اورپی پی دونوں جے یوآئی کواپنے حصے سے کچھ بھی دینے کو تیار نہیں۔ 2008 میں جمعیت علمائے اسلام ،پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل رہی تھی جبکہ پی ڈی ایم حکومت میں بھی ساتھ رہی تھی مگر 2024 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے بعد مولانا فضل الرحمن کی جانب سے ایوان کے بجائے میدان کو ترجیح دی گئی ہے اور اس کا انہوں نے برملا اعلان بھی کیا ہے اور ساتھ ہی ن لیگ کو دعوت دی کہ وہ حکومت سازی کی بجائے اپوزیشن میں آجائے، موجودہ پارلیمنٹ کی کوئی وقعت نہیں ،مبینہ دھاندلی کے ذریعے حقیقی نمائندوں کا مینڈیٹ چرایا گیا ہے۔
بہرحال یہ مولانا فضل الرحمان کا موقف ہے مگر گزشتہ دنوں یہ بات سامنے آئی تھی کہ جمعیت علمائے اسلام کے مولانا عبدالغفور حیدری نے ن لیگی رہنما اسحاق ڈار کے ساتھ ملاقات کے دوران بلوچستان حکومت میں شامل ہونے کی بات کی تھی جس پر اسحاق ڈار نے جواب میں کہا تھا کہ اب بہت دیر ہوگئی ہے۔ بہرحال جمعیت علمائے اسلام ایک بڑی سیاسی جماعت ہے اور اس کا ایک بڑا ووٹ بینک کے پی کے اور بلوچستان میں موجود ہے ۔جمعیت نے بلوچستان میں کسی حد تک نشستیں لی ہیں مگر کے پی کے میں جمعیت نے جو اہداف رکھے تھے وہ پورے نہ ہوسکے ، اس طرح پی ٹی آئی کے پی کے میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے اس کے باوجود پی ٹی آئی بھی دھاندلی کا رونا رو رہی ہے اور اسی دھاندلی کے خلاف پی ٹی آئی نے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ملاقات کرکے ساتھ چلنے کی بات کی ہے۔
تعجب کی بات ہے کہ جس دھاندلی کا شکوہ جمعیت کررہی ہے وہ نشستیں پی ٹی آئی کے حصے میں آئی ہیں تو کس طرح ساتھ مل کر وہ احتجاج کرسکتے ہیں۔ بہرحال اب بلوچستان میں حکومت بننے جارہی ہے بلوچستان میں اس وقت بہت سارے مسائل موجود ہیں جو دہائیوں سے حل طلب ہیں، لاپتہ افراد کا مسئلہ ہو، وسائل کی منصفانہ تقسیم کا معاملہ ہو، اختیارات کے معاملات ہوں، بلوچستان کے میگامنصوبوں پر بلوچستان کے جائز حق کو تسلیم کرنے جیسے معاملات ہوں ،یہ سب چیلنجز کے طور پر موجود ہیں اور انہیں اب مخلوط میں شامل بڑی جماعتوں کو حل کرنا ہے جن کی مرکز میں بھی حکومت ہے ۔
اب یہ موقع پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کو ملا ہے جن کا انتہائی کلیدی کردار رہے گا حکومت کرنے میں تو ان کی ترجیح بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کے ساتھ مسائل کا حل ہونا چاہئے۔
بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں تو اس بار حکومت کا حصہ نہیں بنی ہیں، اب جو فیصلے ہونگے ان کے تمام مثبت اور منفی نتائج کے ذمہ دار یہ بڑی جماعتیں ہونگی ۔امید کرتے ہیں کہ ماضی کی غلطیوں کو نہ دہراتے ہوئے بلوچستان کے جملہ مسائل کو حل کرنے کے لیے دونوں جماعتیں اپنے وعدے وفا کرینگے تاکہ بلوچستان کے کچھ تو مسائل حل ہوسکیں اور عوام راحت محسوس کریں۔