|

وقتِ اشاعت :   February 26 – 2024

بلوچستان میں عام انتخابات کے نتائج کے بعد چار جماعتی اتحاد کی جانب سے مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج جاری ہے، بلوچستان میں اس بار قوم پرست جماعتوں کی توقع کے خلاف نتائج سامنے آئے ہیں۔

ماضی کے انتخابات میں اگر ایک قوم پرست جماعت چند نشستیں لیتی تھی تو دوسری جماعت ایک مضبوط پوزیشن میں رہتے ہوئے حکومتی اتحاد میں شامل ہوتی رہی ہے مگر اس بار بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں حکومت بنانے کی دوڑ سے مکمل طور پر باہر ہوگئی ہیں

مگر ساتھ ہی بلوچستان کی اپوزیشن بنچوں پر بھی ان کی مضبوط گرفت نہیں رہی جس کے خلاف قوم پرستوں میں شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے۔ بلوچستان میں ن لیگ، پیپلزپارٹی جیسی بڑی جماعتیں حکومت بنانے کے لیے بہترین پوزیشن لے کر سامنے آئی ہیں جس پر قوم پرستوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں دھاندلی کے ذریعے ہرایا گیا ہے تاکہ انہیں بلوچستان کی سیاست سے دور رکھا جائے جس کے خلاف اب وہ اپنے احتجاج کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کی نمائندگی نہ ہونے سے یقینا مسائل پیدا ہونگے چونکہ ان کے حلقوں میں مسائل کے ساتھ دیگر اہم قومی نوعیت کے ایشوز بھی ہیں

اور عوام ان سے ہی رجوع کرتے ہیںتا کہ ان کے مسائل کو کسی نہ کسی طریقے سے حل کیاجاسکے، اب ان کے پاس اختیارات نہیں ہونگے تو وہ اپنے حلقے اور لوگوں کے مسائل کو کس طرح سے حل کرنے میں کردار ادا کرسکیں گے۔

بہرحال حالیہ عام انتخابات کے نتائج پر تمام سیاسی، مذہبی جماعتوں کے بھی تحفظات ہیں کہ مبینہ طورپر دھاندلی ہوئی ہے اور انہیں ہرایا گیا ہے تو قوم پرستوں کا یہ مقدمہ اور زیادہ مضبوط بن جاتا ہے اور اب ہر طرف احتجاج کیاجارہا ہے کہ ہمارے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے جس کی انکوائری ہونی چاہئے مگر یہ تحقیقات کرے گا کون؟ فیصلہ تو الیکشن کمیشن نے کرنا ہے اور صورتحال کافی حد تک واضح ہوگئی ہے

اب تو حکومت سازی کے معاملات چل رہے ہیں۔ بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کوایوان میں چند نشستوں کے ساتھ بیٹھ کر اپنا کردار محدود انداز میں ادا کرنا پڑے گا اور کسی بھی فیصلہ سازی میں وہ شامل نہیں ہونگی۔ بہرحال مبینہ دھاندلی کے خلاف بلوچستان میں سیاسی جماعتوں کا احتجاج اور دھرنے جاری ہیں، کوئٹہ میں پی کے میپ، نیشنل پارٹی، بی این پی اور ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی کا احتجاجی دھرنا ایک ہفتے سے زائد دن گزرنے کے باوجود جاری ہے اور اس کا کوئی حل نہیں نکل رہا۔ اب دھرنا جلسے کی شکل اختیار کرگیا ہے

قائدین اور کارکنان بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ چارجماعتی اتحاد کے قائدین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں منصوبے کے تحت قوم پرستوں کو عوام سے دور کیا جارہا ہے۔چمن میں اے این پی کا ضلع کمپلیکس جبکہ پی بی 50 قلعہ عبداللہ میں جے یو آئی ایف کا ڈی سی آفس کے باہر 9 روز سے زائد دن گزرنے کے باوجود دھرنا جاری ہے۔نصیرآباد پی بی 14 کے نتائج کے خلاف پیپلز پارٹی کا احتجاج بھی جاری ہے، جمہوری وطن پارٹی کا جعفر آباد میں ربی کینال کے مقام پر احتجاجی کیمپ بھی جاری ہے۔ بلوچستان میں پہلے لاپتہ افراد کے اہل خانہ سراپااحتجاج دکھائی دیتے تھے اب قوم پرست جماعتیں اپنی بقا کی جنگ لڑرہی ہیں۔ بلوچستان سے قوم پرست جماعتوں کی شکست نے بہت بڑا دھچکا قائدین کو دیا ہے جس اعتماد کے ساتھ وہ الیکشن میں اترے تھے اس کے برعکس نتائج کا سامنا کرناپڑا ہے۔

بہرحال سیاسی استحکام کے لیے بلوچستان میں قوم پرستوں کے کردار سے انکار نہیں کیاجاسکتا ،حکومت سازی میںان کی شمولیت سے بعض مسائل حل ہونے کی امید پیدا ہوسکتی تھی مگر اب قوم پرست جماعتیں وہ کردار ادا کرنے سے قاصر رہیں گی جو ماضی میں بلوچستان کے حوالے سے وہ کرتی رہی ہیں اور حکومت میں رہتے ہوئے بلوچستان کیلئے بات بھی کرتے رہتے تھے۔

بہرحال یہ اب کڑا امتحان ہے کہ بلوچستان کو درپیش مسائل اور بحرانات سمیت دیگر چیلنجز سے کس طرح نکالاجائے گا، پیپلزپارٹی اور ن لیگ بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کے ساتھ آگے چل کر ان کے کردار کو کس طرح سے استعمال کرکے اہم نوعیت کے معاملات پر اعتماد میں لیتے ہوئے فیصلے کرینگی تاکہ اس کے دوررس مثبت نتائج بلوچستان کے لیے برآمد ہوسکیں ۔بہرحال یہ تو حکومت کے چند ماہ کے بعد ہی واضح ہوجائے گاکہ قوم پرست جماعتوں کا بلوچستان میں ان پانچ سالوں میں فیصلہ سازی میں کیا حصہ ہوگا انہیں کسی حد تک جگہ دی جائے گی یا نہیں؟