ملک پہلے سے ہی سیاسی اور معاشی مسائل میںگرا ہوا ہے جن سے نمٹنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کویک پیج پر رہ کر چیلنجز سے ملک کو نکالنے کے لیے کردارادا کرنے کی ضرورت ہے مگر بدقسمتی سے پی ٹی آئی کی سیاسی روش میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔اگرچہ ایک بار پھر بھاری مینڈیٹ لیکر ان کے حمایت یافتہ امیدوار کامیاب ہوئے ہیں اور وہ ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام لانے کے حوالے سے اپنا کردارادا کرسکتے ہیں مگر افسوس کہ عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی آڑ میں وہ واردات کرنے کے درپے ہیں حالانکہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں عام انتخابات کے نتائج پر تحفظات کا اظہار کررہی ہیں اور احتجاج بھی ریکارڈ کراکے قانون کے اندر رہتے ہوئے اپنا مطالبہ سامنے رکھ ہے ہیں۔
بلوچستان میں چار جماعتی اتحاد نے طویل دھرنا دے کر مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا مگر ریڈ لائن کراس نہیں کی، ان کا مطالبہ صرف یہی ہے کہ ان کے ساتھ جو مبینہ دھاندلی ہوئی ہے اس پر قانونی مطالبہ کو تسلیم کرتے ہوئے انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں۔ دوسری جانب پی ٹی آئی مسلسل وار پہ وار کررہی ہے ،یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا معاملہ ہو تو صدر مملکت عارف علوی نے کیا کردار ادا کیا ۔پھرپی ٹی آئی دور میں اسمبلیوں کی تحلیل پر انہوں نے کس طرح کا رول پلے کیا بالکل واضح طور پر دکھائی دے رہا تھا کہ پی ٹی آئی کے بیانیہ کے تحت تمام صدارتی امور کو چلایاجارہا ہے جوکہ سراسر غلط ہے کیونکہ صدر مملکت عارف علوی ریاست کے صدر ہیں تو ریاست کو ترجیح دیں اپنی سیاسی جماعت کو نہیں۔ اب ایک بار پھر صدر مملکت عارف علوی نے قومی اسمبلی اجلاس بلانے کی سمری مسترد کرکے واپس بھیج دی ہے۔ذرائع کے مطابق صدر مملکت عارف علوی نے موقف اختیارکیا ہے کہ پہلے خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں کو مکمل کیا جائے۔نگران وفاقی حکومت کا مؤقف ہے کہ آرٹیکل91کی دفعہ 2 کے تحت 21 دن تک اجلاس بلانا لازمی ہے، صدراجلاس نہیں بھی بلاتے تو 29 فروری کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہر صورت ہوجائے گا اور 29 فروری کو ہونے والا اجلاس آئین کے عین مطابق ہوگا۔دوسری جانب اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے قومی اسمبلی کا اجلاس 29 فروری کو طلب کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی سربراہی میں ہنگامی اجلاس میں قومی اسمبلی اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس آئین کے آرٹیکل 91 کی شق 2 کے تحت بلانیکا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے افسران اور آئینی ماہرین سے مشاورت کی، اجلاس میں صدر مملکت کی جانب سے سمری پر دستخط نہ کرنے سے پیدا صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے وزارت پارلیمانی امور اور وزارت قانون و انصاف سے بھی مشاورت کی۔ا جلاس میں اسپیکر کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ آئین کے مطابق 29 فروری تک اجلاس بلانے سے روگردانی نہیں کی جاسکتی۔آئینی ماہرین کے مطابق صدر کے سمری پردستخط نہ کرنے سے اسمبلی اجلاس کی طلبی میں کوئی رکاوٹ نہیں، صدرکا اختیار 21 ویں دن سے پہلے اجلاس طلب کرنے کا ہے۔ بہرحال اب جو کچھ صدر مملکت عارف علوی جاتے جاتے کررہے ہیں یہ تاریخ کا حصہ بنے گا کہ ایک صدر نے سیاست کو ریاست پر ترجیح دی اور اپنے بانی کے کہنے پر ملکی امور کو چلایا ۔ اس سے پی ٹی آئی مخالف جماعتوںکے موقف کی تائید ہوتی ہے کہ ایوان صدر ایک پارٹی کا آفس بن کر کام کررہا ہے اور بدنیتی پر مبنی ایسے اقدامات کررہی ہے جس سے ملک میں مزید سیاسی مسائل پیدا ہوں جس کا نقصان سیاسی مخالفین کو نہیں بلکہ پورے ملک کو ہوگا مگر اس پر انہیں کبھی بھی ندامت نہیں ہوگی اور نہ ہی پشیمانی بلکہ مستقبل میں بھی وہ وہی سب کچھ کرینگے جو بانی پی ٹی آئی انہیں کہیں گے ۔