|

وقتِ اشاعت :   March 1 – 2024

اللہ اللہ کر کے آٹھ فروری کو انتخابات مکمل ہوئے اور اس کے نتیجے میں جیسے تیسے مینڈیٹ حاصل کرنے والی جماعتوں کے رکن متعلقہ اسمبلیوں سے حلف اٹھا چکے ہیں۔ ان میں ایم کیو ایم پاکستان بھی شامل ہے جس نے کراچی سے 15 اور مجموعی طور پر قومی اسمبلی کی 17 سیٹیں حاصل کیں اور مخصوص نشستیں ملا کر قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم پاکستان کی 22 نشستیں ہو گئیں جبکہ سندھ میں صوبائی اسمبلی کی 36 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
قومی اسمبلی میں 22 نشستیں رکھنے کے باوجود ایم کیو ایم پاکستان اس بار اس پوزیشن میں نہیں کہ حکومت بنا سکے یا گرا سکے۔ لہذا اب وہ حکومت گرانے کے داؤ پیچ میں اپنا کردار ادا نہیں کر پائے گی۔
مرکز میں حکومت بنانے کے لیے نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے علاوہ کسی تیسری جماعت کی ضرورت نہیں۔ پیپلز پارٹی اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم لیگ نون پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ ایم کیو ایم کو اتحاد سے باہر رکھا جائے۔ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کی دو آڈیوز لیک ہونے کے بعد یہ بات مزید واضح ہو گئی ہے کہ ایم کیو ایم کے پاس آپشنز کم ہیں۔ ایم کیو ایم کے دو سینیئر لیڈرز مصطفی کمال اور گورنر سندھ کامران خان ٹسوری کی جو آڈیوز لیک ہوئی ہیں ان میں دونوں رہنما یہ شکایت کرتے نظر آ رہے ہیں کہ دو بڑی جماعتوں کے اتحاد کو ایم کیو ایم کی ضرورت نہیں۔مصطفی کمال کا کہنا ہے کہ نون لیگ نے انہیں بتایا کہ پیپلز پارٹی نے الزام لگایا ہے کہ ایم کیو ایم کا 100 فیصد مینڈیٹ جعلی ہے لہذا ان کو ساتھ رکھنے کی ضرورت نہیں۔ پیپلز پارٹی نے ن لیگ سے یہ بھی اصرار کیا ہے گورنر سندھ بھی نون لیگ، پیپلز پارٹی کی مشاورت سے لگائے اور گورنر کی تقرری کے معاملے میں بھی ایم کیو ایم کو دور رکھا جائے۔گورنر کامران خان ٹیسوری نے رابطہ کمیٹی کو بتایا کہ مسلم لیگ کو یہ باور کرایا گیا کہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں کس طرح ایم کیو ایم نے نون لیگ کا ساتھ دیا اور انہیں جیلوں میں جانے سے بچایا جس کا فائدہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو ہوا۔کامران خان ٹسوری نے کہا کہ اگر مرکز میں ایم کیو ایم پاکستان کو جو وزارتیں مانگی جا رہی ہیں وہ نہیں ملتیں اور گورنر شپ بھی ہاتھ سے جاتی ہے ،اس سب کے باوجود مرکز میں حکومت کے ساتھ جانا گناہ بے لذت کے سوا کچھ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے بھی نون لیگ اور پیپلز پارٹی کا ساتھ دے کر ہم نے اپنے ووٹوں کی قربانی دی جس سے ہمارا ووٹ بینک کم ہوا ہے اور اب اگر محتاط انداز میں فیصلہ نہیں کیا اور محتاط انداز میں آگے نہیں بڑھے تو حشر برا ہونے والا ہے۔
مصطفی کمال نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر ایم کیو ایم پاکستان اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کر لے تو ایک ہی دن میں وہ سیاسی طور پر مقبول ہو جائے گی لیکن ملک کے مفاد کی خاطر ایسا نہیں کریں گے ۔ ایم کیو ایم حکومت میں وزارتیں لے گی، فیصلوں کی ذمہ داری بھی لے گی تاکہ ملک کو مشکل صورتحال سے نکالنے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکے۔
تاہم اس معاملے پر ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے اندر بھی اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ میڈیا کو بتایا تو یہی جاتا ہے کہ رابطہ کمیٹی فیصلہ کرتی ہے لیکن اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ فیصلہ چند افراد ہی کرتے ہیں اور رابطہ کمیٹی سے صرف توثیق کرائی جاتی ہے۔ایم کیو ایم کے اندرونی حلقوں میں بھی مینڈیٹ پر بات ہو رہی ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے جو الزامات لگائے جا رہے ہیں ان کا جواب بار بار پریس کانفرنسز اور میڈیا ٹاک کے ذریعے دیا جا رہا ہے۔سینیئر ڈپٹی کنوینر مصطفی کمال کئی مواقع پر یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ 2018 میں ایم کیو ایم پاکستان کے مینڈیٹ پر ڈاکہ مارا گیا تھا اور ان کی سیٹیں چرا کر پی ٹی آئی کو دے دی گئی تھیں اس وقت آر ٹی ایس سسٹم بیٹھ گیا تھا اور کسی نے ان کی نہیں سنی تھی۔ وہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ یہ ووٹ اور نشستیں کل بھی ایم کیو ایم کی تھیں اور آج بھی ایم کیو ایم کی ہیں۔
بہرحال ایم کیو ایم پاکستان نے مرکزی حکومت میں شامل ہونے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے کیونکہ صوبائی حکومت میں شامل ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں کو اس بات کی فکر ہے کہ مینڈیٹ جیسے بھی ملا ہو عوام کی خدمت تو کرنی پڑے گی، ڈلیور تو کرنا پڑے گا۔ اس سلسلے میں انہیں اختیارات اور فنڈز چاہیے ہوں گے لیکن صوبے میں اگر وہ اپوزیشن میں بیٹھتے ہیں تو انہیں اختیارات ملیں گے اور نہ ہی فنڈز۔ ہو سکتا ہے صوبے میں انہیں بالکل نظر انداز کیا جائے۔
کراچی اور حیدرآباد سمیت سندھ کے تمام شہروں میں پیپلز پارٹی کے میئر ہیں اور کراچی میں خاص طور پر پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ وہ عوام کی مسائل حل کرنے میں پیش پیش ہو۔ پیپلز پارٹی نے 2024 کے الیکشن میں کراچی کے وسطی علاقوں پر توجہ مرکوز رکھی تھی لیکن اس بار وہ سیٹ نکالنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ البتہ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ وہ اس بار اگلے الیکشن تک کراچی وسطی کے علاقوں پر توجہ مرکوز رکھے اور لوگوں کے مسائل حل کرے تاکہ اگلی بار وہ کراچی وسطی سے الیکشن جیتنے میں کامیاب ہو سکے۔
ایم کیو ایم پاکستان کو بھی اسی بات کا خدشہ ہے کہ اگر پیپلز پارٹی عوام کے مسائل حل کرنے میں پیش پیش رہی تو یہ ان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں کو پہلے ہی بانی متحدہ سے خطرہ ہے کیونکہ ان کی جانب سے بائیکاٹ کی کال یا آزاد امیدواروں کی صورت میں الیکشن لڑنے سے ایم کیو ایم پاکستان کے ووٹوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ایم کیو ایم پاکستان کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ وہ اپنی مقبولیت میں صرف اسی وقت اضافہ کر سکتی ہے جب وہ عوام کے مسائل حل کرے اور کراچی کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس بھی یہ نادر موقع ہے کہ وہ کراچی والوں کا دل جیتنے میں کامیاب ہو سکے۔ ایم کیو ایم پاکستان شہری حکومت میں شامل نہیں ہے لہذا پیپلز پارٹی کے پاس یہ موقع بار بار نہیں آئے گا۔
ایم کیو ایم پاکستان چاہتی ہے کہ وہ مرکزی حکومت میں شامل ہو کر ایسی وزارتیں لے جس سے کراچی کے عوام کو فائدہ ہو سکے کیونکہ ایم کیو ایم کا فوکس اس وقت کراچی کے ووٹرز ہیں۔
پیپلز پارٹی بھی اسی لیے نون لیگ سے اصرار کر رہی ہے کہ ایم کیو ایم کو وزارتوں سے دور رکھا جائے اور اسے حکومت میں شامل نہ کیا جائے۔ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ اگر وہ کراچی کو ڈلیور نہ کر پائی تو کم از کم ایم کیو ایم بھی کچھ نہ کر سکے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں کو بھی اس نازک صورتحال کا اندازہ ہے اور وہ جانتے ہیں کہ حالات ایم کیو ایم پاکستان کے حق میں نہیں ہیں لہذا مرکزی حکومت میں شامل ہونے کا کڑوا گھونٹ پیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما یہ بات بھی بخوبی جانتے ہیں کہ 2024 کے الیکشن میں جو وعدے کیے گئے تھے وہ تو وفا ہو گئے، قومی اسمبلی کی 17 سیٹیں بھی مل گئیں لیکن ایم کیو ایم پاکستان، لگتا ہے، جیت کے بھی ہار گئی۔