|

وقتِ اشاعت :   March 3 – 2024

“گوازی” بلوچی لفظ ہے جس کا مطلب “کھیل” ہے۔ حالیہ انتخابات میں ملک میں خصوصاً بلوچستان میں جو “گوازی” کھیلا گیا وہ ایک منفرد اور دلچسپ “گوازی” تھا۔ یہ “گوازی” دیدہ دلیری کے ساتھ کھیلا گیا۔ یہ “گوازی” ریاستی اشرافیہ نے بڑی چالاکی کے ساتھ سرانجام دیا۔ جس کے تحت حکومت سازی میں “یونیک کمپوزیشن” مرتب کیا گیا۔ جس کے مطابق بلوچستان کے ساحل اور وسائل کی چوکیداری نام نہاد “سویلین لیڈرز” کے حوالے کردیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی “ملک شاہ” کو گوادر سے جتواکر بلوچستان کی ساحلی پٹی پر بٹھا دیا گیا۔ بلوچستان کے نامور سیاستدان، نوابزادہ لشکری رئیسانی ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ افغانستان کے علاقے نیمروز سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ ڈیرہ بگٹی سے سابق نگران وفاقی وزیرداخلہ میرسرفراز بگٹی پر نظر کرم کیا گیا۔ بگٹی صاحب کو بلامقابلہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ کے عہدے پر مقرر کردیا گیا۔ اسی طرح ضلع چاغی سے سینیٹ کے چیئرمین میر صادق سنجرانی کو رکن بلوچستان اسمبلی منتخب کروادیا گیا۔ صادق سنجرانی کو وزیراعلیٰ بلوچستان بنانے کا منصوبہ تھا تاہم آخری لمحہ میں یہ فیصلہ موخر کردیا گیا۔ شاید صادق سنجرانی میں ” ڈنڈا بردار” جیسی صلاحیتیں موجود نہیں ہیں۔ تاہم وہ دیگر صلاحیتوں سے مالامال ہیں۔ گودار، ڈیرہ بگٹی اور چاغی یہ تین اضلاع وسائل سے مالامال ہیں۔ جہاں سے بلوچستان کے ساحل اور وسائل کی چوکیداری کرنا آسان ہوگی۔ گوکہ مذکورہ تینوں علاقوں میں بے شمار معدنی وسائل، لمبی ساحلی پٹی، ایران اور افغانستان کے ساتھ کاروباری سرحدیں موجود ہیں، مگر اْن پر حق حکمرانی اور ملکیت ملک بھر کے مٹھی بھر سرمایہ داروں، رئیسوں، فوجی اشرافیہ اور صوبے کے چند نواب اور سردار زادہ خاندانوں کی ہے، جس کی وجہ سے ان تمام تر قدرتی وسائل کا فائدہ پاکستان کے چند رئیس، سرمایہ دار خاندانوں اور فوجی اشرافیہ کو ہی پہنچ رہا ہے۔ مثال کے طور پر صوبے کے جو حصے قدرتی وسائل سے مالامال ہیں وہاں کے باشندے پاکستان کے باقی حصوں سے بھی زیادہ پسماندگی کی زندگی گزار رہے ہیں اور دو وقت کی روٹی، پینے کے صاف پانی، علاج، تعلیم اور دیگر بنیادی ضروریات سے یکسر محروم ہیں۔
بلوچستان میں 19 ٹریلین کیوبک فٹ گیس کے ذخائر موجود ہیں۔اسی طرح 300 ملین کیوبک بیرل تیل بلوچستان کے اندر پایا جاتا ہے، کیونکہ بلوچستان کی جغرافیائی لوکیشن ایسے علاقے میں ہے جس کے آس پاس پڑوس میں ایران، افغانستان اور دیگر خلیجی ممالک موجود ہیں جوکہ مذکورہ ذخائر سے مالامال ہیں۔ سوئی گیس فیلڈ پاکستان کی سب سے بڑی گیس فیلڈ ہے۔ ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی میں واقع ہونے کی وجہ سے ہی گیس کے اس بڑے ذخیرے کو سوئی گیس کا نام دیا گیا۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے دیگر علاقے، جن میں خاران، بولان، قلات، ڑوب، کوہلو اور بارکھان شامل ہیں، میں تیل و گیس کے بڑے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ سوئی سے 4کلومیٹر دوری پر آبادی گیس سے یکسر محروم ہے۔ ڈیرہ بگٹی کے علاقے میں لوگوں کو صحت، تعلیم، پانی اور روزگارکی سہولیات میسر نہیں ہیں اور اکثر لوگ ان تمام تر سہولیات کی عدم موجودگی اور بدامنی کی وجہ سے علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہیں۔
ضلع چاغی میں سیندک اور ریکوڈک جیسے اہم منصوبے واقع ہیں۔ سیندک پروجیکٹ میں 1.69ملین ٹن کاپر، 2.24ملین اونس سونا اور 2.49ملین اونس تانبے کے ذخائر موجود ہیں، جسکی مالیت ہزاروں ملین ڈالرز بنتی ہے۔ اسی طرح ریکوڈک پروجیکٹ میں 12 ملین ٹن تانبے اور 21 ملین اونس سونے کے ذخائر موجود ہیں۔ تانبے کے یہ ذخائر چلی کے مشہور ذخائر سے بھی زیادہ ہیں۔یہاں معدنیات کے ذخائر کی مالیت ایک ہزار ارب امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔ جس سے اس علاقے کی اہمیت کا اندازہ ہوسکتاہے۔ مگر ان تمام قدرتی وسائل پر وہاں کے مظلوم عوام کی ملکیت ہونا تو دور کی بات، ضلع چاغی کے باشندے پینے کے صاف پانی پینے سے بھی محروم ہیں۔ یہاں کے لوگوں کے لئے صحت کی سہولیات کا اتنا فقدان ہے کہ چاغی میں 22,700 لوگوں کے لیے صرف ایک ڈاکٹر موجود ہے۔ جبکہ چاغی ڈسٹرکٹ میں کالے یرقان اور گردوں کی بیماریاں عام ہیں۔ چاغی ضلع میں 65فیصدلوگ پینے کے صاف پانی سے بالکل محروم ہیں،70فیصد لڑکیاں تعلیم کے زیور سے محروم ہیں،38فیصدلوگ آج کے جدید دور میں بھی بجلی جیسی سہولت سے فیض یاب نہیں ہوپارہے۔
اسی طرح گوادر سی پیک کاگیٹ وے ہے یہ سی پیک کا دل ہے۔ گوادر کو چینی سامراج کے حوالے کردیا گیا ہے۔ اس منصوبے سے مقامی افراد کو کوئی فائدہ میسر نہیں ہے۔ گوادر شہر کی یہ حالت ہے کہ جب بارش ہوتی ہے تو پورا شہر ڈوب جاتا ہے۔ پانی کی نکاسی کا نظام درہم برہم ہے۔ گوادر شہر کے باسی، جن کی اکثریت ماہی گیری کے شعبے سے منسلک ہے، ان کا پیشہ چینی سامراجی منصوبے سی پیک کی وجہ سے شدید متاثر ہوا ہے، جس کی وجہ سے ماہی گیر مسلسل احتجاج کررہے ہیں۔ نااہل حکمران ان ماہی گیروں کو ایک لمبے عرصے سے جھوٹے وعدے اور جھوٹی تسلیاں دے رہے ہیں مگر عملی طور پر ان کی مدد کے لئے کچھ نہیں کیا جارہا۔ پچھلے 75 سالوں میں ماہی گیروں کو روزگار کا تحفظ تک فراہم نہیں کیا جا سکا ہے۔ جبکہ ان سامراجی منصوبوں کی وجہ سے مقامی ماہی گیری کا شعبہ دن بدن تباہ ہوتا جا رہا ہے۔علاوہ ازیں بلوچستان کی ساحلی پٹی 770 کلو میٹر طویل ہے، جس میں ضلع گوادر بھی شامل ہے۔ گوادر کے حوالے سے تو ہر کوئی واقف ہے، مگر وہاں کی عام مظلوم عوام کے حوالے سے کسی کو علم نہیں ہے کہ ان کی زندگی سامراجی طاقتوں کے اس اکھاڑے میں کیسے گزرتی ہے۔ گوادر کے 80فیصد لوگ ماہی گیری سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا کوئی دوسرا بڑا ذریعہ معاش نہیں ، مگر ماہی گیری کے اس دنگل میں ٹرالر مافیا والے گوادر کے محنت کشوں کی روزی پر لات مارتے رہتے ہیں۔
مزیدبرآں، ضلع لسبیلہ اور ضلع حب کی سرحدیں کراچی سے ملتی ہیں۔ ان دونوں اضلاع کو پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار علی حسن چنال عرف علی حسن بروہی کے حوالے کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ علی حسن صاحب کو زمینوں سے کافی لَگاؤ ہے۔ جس کی وجہ سے وہ پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کی آنکھ کا تارا بن چکا ہے۔ اس منصوبے کے تحت بحریہ ٹاؤن کراچی جیسے منصوبوں کو مذکورہ اضلاع میں بنانے کی کوشش ہوگی۔ جہاں ملک ریاض جیسے بدنام زمانہ بلڈرز کو لایا جائیگا۔ کیونکہ آصف علی زرداری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ “دل سے دریا ہے اور دماغ سے چریا” ہے۔ یعنی وہ دوستوں کا دوست ہے اور دشمنوں کا دشمن ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اور سابق رکن قومی اسمبلی اسلم بھوتانی کو ایک فیصلہ کرنا ہوگا۔ یا وہ اپنی برادری (جدگال بلوچ) کی سرسبز شاداب اراضی خوشی سے پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری اور ملک ریاض کے حوالے کردیں یا وہ نواب اکبر خان بگٹی کی طرح شہادت قبول کرلیں۔ اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں ہے۔