|

وقتِ اشاعت :   March 3 – 2024

میرے نانا کا تعلق پنجگور سے تھا جاھو کی آب و ہوا اسے راس آیا پدری جائیداد و آبائو اجداد چھوڑ کر اپنا گھر یہیں بسایااور یہیں کے رہے ، ان کی وفات 2 فروری 1977 میں ہوئی اور انہیں لال بازار کے قبرستان میں دفنا دیا گیا۔اسی قبرستان میں ایک اور قبر حاجی فقیر محمد کی ہے۔ حاجی فقیر محمد بھی پنجگور سے نقل مکانی کرکے یہاں آئے ،شادی کی، مسجد کے پیش امام رہے اور مرتے دم یہیں رہے۔ اس کی فیملی یہیں لال بازار میں آباد ہے۔
پنجگور کو آواران یعنی کولواہ سے جوڑنے والا روٹ دراسکی اور گچک کا ہوا کرتا تھا۔ کچی سڑک مگر سفری اور تجارتی راستہ ہوا کرتا تھا۔روٹ کو استعمال میں لاتے ہوئے پنجگور کا کھجور براستہ آواران کراچی اور دیگر علاقوں کو سپلائی کیا جاتا تھا جاھو کولواہ سے گندم کی سپلائی پنجگور اور اس سے ملحقہ علاقوں کو کیا جاتا تھا۔ آمد و رفت نے دوستیوں کو خون کے رشتوں میں بدل ڈالا۔ آج بھی اگر قبرستانوں کے کتبوں کو ٹٹولیں تو پنجگور میں آواران کے اور آواران کے قبرستانوں میں پنجگور کے مکینوں کے نام ملیں گے۔
پھر رفتہ رفتہ آمد و رفت کا سلسلہ منقطع ہوتا چلا گیا۔ رشتوں کی مضبوط ڈوری کچے دھاگوں کی طرح ٹوٹنے اور بکھرنے لگی۔ اعلانیہ نہ سہی غیر اعلانیہ سرحدیں قائم ہوئیں۔ اب تو حسرتوں کے مارے ایک ہی جملہ زبان پر آتا ہے کہ کیا زمانہ تھا وہ۔۔۔۔۔
یہی حال مکران کے دیگر اضلاع کیچ اور گوادر کا آواران کے ساتھ تھا۔ ایرانی اشیاء کی ترسیل براستہ ہوشاب، ڈنڈار، گیشکور، آواران جاھو سے ہوتا ہوا بیلہ کراچی اور دیگر علاقوں تک ہوا کرتا تھا۔ مشرف دور میں آواران کا رشتہ ان دو اضلاع سے منقطع کرکے آواران کو زنجیروں سے باندھ کر قید کیا گیا۔ آواران گویائی، بینائی اور سماعت کی صلاحیت سے محروم ہوا۔ ایک بڑی آبادی جو ان اضلاع کے روٹ پر واقع تھی روٹ کا رخ کوسٹل ہائی وے کی جانب موڑ کر اس آبادی کو سزا کے طور پر تنہائی دے دی گئی۔ 2004 سے لے کر تاحال یہ علاقے اذیت جھیل رہے ہیں۔سوال یہ کہ اس اذیت کو کس طرح کم کیا جا سکتا ہے اور آواران کا مکران اور دیگر اضلاع کے ساتھ منقطع تعلق کو کس طرح دوبارہ بحال کیا جا سکتا ہے اس پر ذرا مغز ماری کرتے ہیں۔
پنجگور کو کراچی سے ملانے والی شاہراہ بسیمہ، نال خضدار روٹ ہے۔ یہ روٹ 715 کلومیٹر پر محیط ہے۔ طویل روٹ ہونے کے باوجود پنجگور کے عوام کا سفری گزرگاہ یہی ہے۔ پنجگور کو کراچی سے ملانے والی دوسری شاہراہ براستہ ہوشاب مکران کوسٹل ہائی وے ہے۔ روٹ کی لمبائی 1000 کلومیٹر سے زائد بنتی ہے۔ تیسرا روٹ براستہ گچک آواران بیلہ کا ہے جو کم ہو کر 470 کلومیٹر رہ جاتی ہے۔ یعنی پہلے روٹ سے 250 کلومیٹر کم۔۔۔ 150 کلومیٹر سڑک کی تعمیرات سے مقامی آبادی سفر کی دوہری اذیت سے چھٹکارا پائے گا اور آواران کے ساتھ منقطع تعلقات کو منسلک کرنے کا موقع مل جائے گا۔کیچ اور ملحقہ علاقوں کو کراچی سے ملانے والی گزرگاہ آواران کا ہوا کرتا تھا۔ مجھے نوے کی دہائی کا دور یاد ہے جب اسی روٹ پر مکران سے کاروبار ہوا کرتا تھا اور سفری گزرگاہ کے طور پر یہ روٹ بسوں کی آماجگاہ ہوا کرتی تھی۔ روٹ پر ہوٹلز، کیبن، دوکانیں، پنکچرشاپ رات گئے تک آباد رہا کرتی تھیں۔ مشرف دور میں اس روٹ کی روانی ویرانی میں بدل گئی۔ سماجی رابطے منقطع ہوگئے۔ معاشی نظام دربرہم ہوا جس کا خسارہ یہاں کے عوام کے ناتواں کندھوں پر آگیا۔ ہوشاب ٹو آواران 160 کلومیٹر کی سڑک کو پختہ کرکے اس روٹ کی رونقیں دوبارہ بحال کی جا سکتی ہیں۔
آواران کو خضدار سے ملانے والی روٹ براستہ مشکے کا ہے۔ روٹ کی لمبائی 190 کلومیٹر ہے۔ اس روٹ کی تعمیرات سے خضدار کا کیچ کے ساتھ براہ راست زمینی رابطہ قائم ہوجائے گا اور اس روٹ کی بحالی سے نئے سماجی اور معاشی دروازے کھلیں گے۔
بیلہ ٹو آواران 145 کلومیٹر روٹ کی تعمیرات کا کام تو جاری ہے مگر جس رفتار سے یہ کام ہو رہا ہے اس سے نہیں لگتا کہ آنے والے چند سالوں تک سڑک کی تعمیر مکمل ہوجائے گی۔
ان روٹس کی معطلی سے آواران ایک کوزے میں بند ہو گیا۔ آواران کو اِس وقت ایک معاشی اسکیم کی ضرورت ہے آواران کی معاشی اور سماجی حالت کو بہتری اس صورت میں مل سکتی ہے جب اسے زمینی حوالے سے دوسرے اضلاع سے منسلک کیا جائے۔ موجودہ صوبائی رکن اسمبلی خیر جان بلوچ جس کا الیکشن مہم انہی معاشی اہداف پر تھا ان کی پہلی ترجیح سڑکوں کی بحالی ہونی چاہیے۔ صوبائی سطح پر وہ ملحقہ اضلاع کے اراکین اسمبلی ڈاکٹر مالک بلوچ، ظہور بلیدی، مولانا ہدایت الرحمان، اسد بلوچ، رحمت صالح بلوچ، یونس زہری اور وفاقی سطح پر علاقہ ایم این اے جام کمال خان کے ساتھ مل کر ان شاہراہوں کی بحالی کے لیے اقدامات اٹھا کر آواران کو خوشحالی کے راستے پر ڈال سکتے ہیں۔ انہی شاہراہوں کی تعمیر کے ثمرات سے اکیلے آواران مستفید نہیں ہوگا بلکہ لسبیلہ، خضدار، مکران براہ راست اس کے معاشی و سماجی اثرات سے بہرہ ور ہو سکیں گے۔