ملک میں سیاسی استحکام پیداکرنے کیلئے مرکز میں بننے والی حکومت کا انتہائی کلیدی کردار ہوگا کیونکہ جو اپوزیشن اس وقت مرکز میں موجود ہے اکثریت کے ساتھ اس کی پوری کوشش ہے کہ نظام کو چلنے نہیں دینا ہے جس کی ایک واضح مثال پی ٹی آئی کا آئی ایف ایم کو لکھا گیاخط ہے جس میں تحریر ہیکہ پاکستان کے ساتھ بات چیت اس وقت تک نہ کی جائے جب تک الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے حوالے سے تحفظات دور نہیں ہوتے اور اس خط میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ایک جعلی حکومت کے ساتھ آئی ایم ایف ڈیل نہ کرے حالانکہ ایک مالیاتی ادارے کا کسی بھی ملک کے سیاسی معاملات میں عمل دخل نہیں ہوتا اس کا کام معاشی معاملات پر ہی بات چیت کرنا ہوتا ہے – ایک بار پھر پی ٹی آئی کے بانی سے آئی ایم ایف کے وفد کی ملاقات کو اب اس طرح کیش کیاجارہا ہے جیسے بانی پی ٹی آئی اس ملک کے لیے ناگزیر ہوچکے ہیں اور اس لیڈر کے بغیر ملک کو کوئی اور چلانہیں سکتا-
کتنے تعجب کی بات ہے کہ جس شخص نے یہ خط آئی ایم ایف کو لکھا ہے اس کی شہریت امریکی ہے اور وہ پاکستان کی سالمیت ، خودمختاری ، معیشت جیسے معاملات پر اپنے آپ کو انتہائی وفادار ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ پی ٹی آئی ترجمان رئوف حسن نے یہ خط لکھا ہے اور اس نے امریکی وفاداری کا حلف لیا ہوا ہے کیونکہ جو بھی امریکی شہریت لیتا ہے اس سے حلف نامہ لیاجاتا ہے اور یہ دنیا کے تمام ممالک سے سخت ترین حلف نامہ ہوتا ہے – اس حلف نامہ میں کہاجاتا ہے کہ ہر مشکل اور کٹھن وقت میں وہ امریکہ کے ساتھ وفاداری نبھائے گا غیر عسکری طور پر بھی اپنا کردار امریکہ کے لیے ادا کرے گا- موصوف کے اپنے بیوی بچے تک امریکی شہریت رکھتے ہیں اب ایسے لوگ ملکی سالمیت اور وفاداری کے دعوے دار بنتے ہیں تو بہت تعجب کی بات ہے جبکہ یہ وہی جماعت ہے کہ جس کے لیڈر اور عہدیداروں نے عوام کو گمراہ کرنے کیلئے یہ بات زور وشور سے کہی تھی کہ ہم پاکستان کو بیرونی غلامی سے نجات دلائیں گے، ہم ملک کے اندر کسی مداخلت کو کبھی برداشت نہیں کرینگے امریکہ کو آنکھ دکھانے کی وجہ سے ہماری حکومت ختم کی گئی اور اب خط لکھ کر بیرونی مداخلت کوعملی طور پر دعوت دے رہے ہیں جو کبھی بھی ملک کے کسی جماعت نے نہیں کیا ہے۔
ملک میں جب بھی الیکشن ہوئے ہیں اس پر سیاسی جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرایا ہے جس کے لیے آئینی راستہ اپنایا ہے، جیلوں میں بھی سیاسی معاملات پر گئے مگر کبھی بھی ملکی سالمیت کو دائو پر نہیں لگایا مگر پی ٹی آئی تمام حدود پھلانگ کرریاست پر براہ راست حملہ آور ہورہی ہے – اب اس جماعت کے اراکین موجودہ حکومت کے لیے مشکلات پیداکرنے کیلئے قومی اسمبلی اور کے پی میں مسائل کھڑی کرنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرینگے، قانون سازی سے لے کر دیگرعوامی مفاد کے کاموں میں رکاوٹ ڈالیں گے – ان کا مقصد صرف انتشار پھیلانا ہے اور اس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر پی ٹی آئی کی نیت ٹھیک ہوتی تو اپنے مینڈیٹ کے ذریعے ملکی آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر اپنا جنگ لڑتی مگر انہوں نے تہیہ کرلیا ہے کہ اس نظام کو چلنے نہیں دینا اورسیاسی اور معاشی عدم استحکام پیدا کرنا ہے مگر حکومت کو صبروتحمل کے ساتھ اپناکام کرنا ہوگا۔
ملکی معیشت کوبہتربنانے کے لیے بڑے فیصلے کرنے ہونگے عوام کو ریلیف فراہم کرنا ان کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہئے جبکہ اندرونی اور بیرونی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک واضح روڈ میپ تیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری آئے اور معیشت بہتر سمت کی طرف گامزن ہوسکے- عوامی مفاد کے بڑے منصوبے شروع کرنے ہونگے اور عوام کو ریلیف دینا ہوگا تاکہ عوام کا اعتماد حکومت کے ساتھ جڑ جائے اوروہ انتشار پھیلانے والوں کے منفی پروپیگنڈوں کا شکار ہونے سے محفوظ رہیں۔