میرا پسندیدہ مشہور کالم نگار محترم سلیم صافی نے مسلح افواج کے مئو قر سربراہ کی کچھ بات چیت اور اہداف پر قلم نازی کی تھی اور اپنی تحریرات میں انہوںنے سالار قوم کے اہداف کی بھی نشاندہی کی تھی اور ان سے منسوب جو کچھ صافی صاحب نے سپردقلم کیا تھا ان سے عیاںتھا کہ حالیہ سپاہ سالار بھی ایک جذبہ اور ذہنیت رکھتے ہیں اور حقیقتاً اس کاحق اوراس پر فرض بھی ہے کہ جس ملک کی حفاطت اور نگہبانی کی انہیں ذمہ داری ملی ہے وہ وہ بھی اس ملک کی خیر خواہی میں سو زو گدازکی حالت میں ہوں ۔ان کے فراموا ت بحوالہ صافی صاحب پڑھ کر اندازہ ہوا کہ گزشتہ ادوار زمانہ ہمیں کہاں تک لے جاچکے ہیں۔
ایک المیہ جو ایک با اختیار آدمی کے سامنے ہونا چایئے وہ ماضی کے کردار سے سبق لینا ہے کیونکہ انسانی فردی و اجتماعی اعمال میں کچھ خامیاں اور غلطیاں بھی سرزد ہونگی، ماضی کے اپنے محاسبہ سے حال و مستقبل کے حوالے سے بہتر کارکردگی اور سابقہ اغلاط کا ازالہ ممکن ہوگا اور یہی ایک طریقہ کار قومی اجتماعی اتحاد و ترقی کا راستہ متعین کریں گے۔
اب ہم کہاں کھڑے ہیں یقینا ستر سال پہلے ہم اس حالت میں نہیں تھے ، کیونکہ زندگی کا سفر آغاز و ابتدائی مرحلہ میں تھا، عوام کو ملک و امور سیاست میں براہ راست کردار کا موقع مل جائے گا مگریہ بات صرف ایک آرزو بن کر رہی اور اس سے زیادہ کوئی پیش رفت ممکن نہیں رہی۔ اب سوال یہ ہے کہ بحیثیت مسلمان جب ہمارے بہت سے آئینی اور قانونی مسائل ہیں اور حکومت وقت چاہے جو بھی ہو، وہ صرف عادلانہ نظام کی ترویج و اشاعت پر محنت کرے پارلیمان کو مشیر و مشاور کی حیثیت سے قوانین کی اشاعت کے طریقہ کار پر مشورہ دیں، سیاست میں رعیت پر وری، انسان دوستی اور عمرانی طریقہ کار پر مسابقانی ماحول پیدا ہوتو یقینا ہم دنیامیں فلاحی ریاست کے نمونے ہو سکتے تھے لیکن ماضی میں سب حکومتوں نے ان اہداف کے حصول میں کوتاہی کی بلکہ غفلت کے مرتکب ہوئے ۔نصاب تعلیم میںمغرب نوازی ، معیشت میں استحصالی سرمایہ دارانہ معیشت اور عوام میں اقتصادی اور سماجی طبقہ بندی نے غلط افکار کو علمی مراکز میں تزریق کیا ،محلدانہ نظریات پروان چڑھے سوشلزم و کیپٹلزم کے چکر چلے مگر استحصالی طریقہ کار سے پاک غیر سودی معیشت کا نام دب گیا ۔معاشرہ میں اقتصادی ناہمواریوں اور معیشت کی استحصالی نظام کے تابع ہونے نے عام لوگوں کی زندگی کو متاثر کیا اور اس کے ساتھ سوشل بلاک و سرمایہ ارانہ معاشی نظام تصادمی حالت میں سرگرم و مشہور رہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ گزشتہ پون صدی میں سیاسی معاشی علمی اور فلاحی میدانوں میں ہم اپنا جگہ نہ بنا سکنے کا نزلہ کس پر گرادیں ۔
اگر قصور وار حاکم ٹولہ ہے اور ہے بھی تو یہ بات ذہن نشین کرنی ہے کہ حکمرانوں میں زیادہ عرصہ بلا شرکت غیرے اور بلا خوف و خطر حاکم فوج سے آئے ہیں حتیٰ کہ مشرف کے بعد بھی زیادہ عرصہ بظاہرغیر فوجی حاکم بھی فوج کے زیر اثر اور مرہون منت چلے آرہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ فوج کو اس بار گراں کو اٹھانے کی زحمت کیوں کرنی پڑ رہی ہے ۔ اگر حالیہ اور سابقہ حکومتیں صرف نمائشی ہیں تو ان کی ناکامی فوج کے حصہ میں نہیں آتی؟۔
اب اگر موجودہ سالار اعلیٰ کوئی تعمیری کردار ادا کرناپسند کریں گے تو پھر ماضی کی غلطیوں کا ازالہ اور مستقبل کیلئے محفوظ اور پر امن سیاسی آزادی اور عوامی رائے کا احترام کرنا ہوگا۔