تقریباً دو دہائی قبل پاکستان کے اس وقت کے مطلق العنان حکمران جنرل پرویز مشرف نے یہ نوید سنائی کہ گوادر میں گہرے پانیوں کی بندرگاہ کی تعمیر اور دیگر میگاپروجیکٹس سے نہ صرف گوادر کی تقدیر بدل دی جائے گی بلکہ بلوچستان سمیت پورے پاکستان میں ترقی و خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوگا۔ دوسری طرف بلوچ عوام نے ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں پورٹ سٹی اور کثیر المقاصد منصوبوں کے متعلق اپنے شدید خدشات و تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انہیں مسترد کر دیا لیکن اس وقت کی فوجی حکومت نے ان خدشات و تحفظات کو دور کرنے کے بجائے نہ صرف بزورِ طاقت گوادر ڈیپ سی پورٹ اور دوسرے میگا منصوبے شروع کر دیئے بلکہ بلوچستان کو ایک بہت بڑے فوجی آپریشن کے حوالے کر کے ایک بہت بڑے انسانی المیے کو جنم دیا۔ بلوچ قوم پرست رہنماؤں کو ترقی دشمن گردانا گیا، ان کے قومی موقف کے خلاف ایک بھر پور ریاستی مہم چلائی گئی جبکہ ان نمائشی منصوبوں کی تشہیرپر کروڑوں روپے بے دریغ خرچ کیا گیا، سوال اٹھانے والوں کے لئے عرصہ حیات تنگ کیا گیا جبکہ پورٹ، چھائونی اور سی پیک کے متعلق سوال کو غداری اور گناہ کبیرہ کے زمرے میں لایا گیا۔ حقائق کا چہرہ مسخ کرنے کی بے دریغ کوشش کی گئی۔
بلوچوں کو خدشہ تھا کہ گوادر میگاپروجیکٹس سے نہ صرف گوادر بلکہ بلوچستان میں ایک بہت بڑی ڈیموگرافک تبدیلی رو نما ہو گی جس کے نتیجے میں وہ اقلیت میں چلے جائیں گے اور ان کا قومی شناخت اور تشخص ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مٹ جائے گا چونکہ ساحل و وسائل ان کی قومی دولت ہیں وہ ہزاروں سالوں سے ان کی حفاظت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ لہٰذا ان کی مرضی و منشاء کے بغیر کوئی ایسا منصوبہ شروع نہ کیا جائے جس سے انہیں فائدہ پہنچنے کی بجائے نقصان ہو۔ یوں ممکنہ ڈیموگرافک تبدیلی ، گوادر، سوئی اور کوہلو میں فوجی چھاؤنیوں کے قیام کے خلاف چار جماعتی بلوچ اتحاد (نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، جمہوری وطن پارٹی، بلوچ حق توار) نے جدوجہد کا آغاز کردیا۔ بعد ازاں بلوچ نوجوانوں نے اس میں بھر پورشرکت کر کے اس میں ایک نئی شدت اور حرارت پیدا کر کے اسلام آباد کے عزائم کے سامنے مزاحم ہوئے۔جبکہ ترقی کے نام پر گوادر کے مقامی لوگوں کو ڈرا دھمکا کر ان کی جدی پشتی زمینوں پر قبضہ کیا گیا، بڑے پیمانے پر ہاؤسنگ، کمرشل و دیگر مقاصد کے تحت زمینیں حاصل کی گئیں۔ ساحل سمندر جو مقامی ماہی گیروں کا ذریعہ معاش تھا کو غیر مقامی ٹرالرنگ اور مافیا کے حوالے کر کے انہیں نان شبینہ کا محتاج بنایاگیا، مقامی لوگوں کو مزید روزگار کی سہولتیں دینے کی بجائے ان کا پرانا روزگار اور ماہی گیری کا پیشہ بھی تباہ کر دیا گیا، دیگر بنیادی سہولیات جیسے پانی، تعلیم، صحت، بجلی وغیرہ کی فراہمی تو بہت دور کی باتیں ہیں۔ دوسری طرف امن و ا مان اور سیکورٹی کے نام پر اربوں روپے لگائے گئے، ہر کلومیٹر کے فاصلے پر مختلف سیکورٹی فورسز کی چیک پوسٹیں اور ناکے قائم کر کے مقامی بلوچوں کا جینا دو بھر کر دیا گیا۔ در حقیقت ترقی کے نام پر گوادر کے لوگوں کے ساتھ بدترین مذاق کیا گیا۔ اس لیے بیس ،بائیس سال گزرنے کے باوجود گوادرکھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے اور مقامی لوگ غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
گوادر کی ترقی کے لیے ایک ماسٹر پلان بھی ترتیب دیا گیا جس کے تحت گوادر کی انسانی ترقی کی بجائے زمینی ترقی پر اربوں روپے پانی کی طرح بہایا گیا جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ کیونکہ یہ پلان اور پلاننگ انتہائی ناقص اور غیر معیاری تھے، اس میں مقامی آبادی کی ضروریات کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ ان کی شراکت اور حصہ داری کو یقینی بنایا گیا اور نہ ان کے خدشات و تحفظات کو دور کیا گیا۔ اگر یہ بھاری بھرکم وسائل غیر پیداواری مد میں یا چیک پوسٹ اور سیکیورٹی پر خرچ کرنے کی بجانے صحیح معنوں میں گوادر کی مقامی آبادی کو بنیادی انسانی سہولیات کی فراہمی اور انسانی ترقی پر خرچ کئے جاتے تو آج گوادر کھنڈرات کا منظر پیش کرتا اور نہ برساتی بارش کا معمولی پانی مقامی لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتا، جس شہر کو مستقبل کا دبئی، سنگاپور اور شنگائی بنانے کے بلند و بانگ دعوئے کئے گئے وہاں کے باسیوں کو بنیادی سہولیات دی گئیں اور نہ ان کے بنیادی انسانی حقوق کا خیال رکھا گیا۔
گوادر پورٹ سٹی کی تعمیر و ترقی کے لیے ادارہ ترقیات گوادر اور گوادر پورٹ اتھاٹی کے نام سے دو اہم اور مختلف ادارے بنائے گئے اور ان کے لیے سالانہ اربوں روپے کا بجٹ مختص کیا گیا لیکن حالیہ تبائی میں ان دونوں اداروں کی ناقص منصوبہ بندی، پالیسیوں اور کردار کو کسی بھی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ماسٹر پلان میں شہری آبادی کے لیے ایک منظم اور مربوط ڈرینیج اور سیوریج سسٹم وضع کیا گیا اور نہ گوادر پورٹ کو مکران کوسٹل ہائی وے سے ملانے والی اہم شاہراہ ایسٹ بے ایکسپریس وے کی تعمیر کے وقت مقامی آبادی اور ماہی گیروں کے خدشات و تحفظات کو درخور اعتنا سمجھا گیا، یعنی گوادر کی حالیہ تبائی اور مقامی آبادی کو ہونے والے نقصانات کے بنیادی اسباب و عوامل میں ایک اہم اور کلیدی کردار ان متعلقہ اداروں کا ہے جو گوادر کی ترقی کے نام پر بنائے گئے ہیں۔ ان اداروں کی کارکردگی اور ترقیاتی کاموں کی وسیع پیمانے پر صاف و شفاف تحقیقات کی اشد ضرورت ہے۔
اصل ترقی انسانی اور معاشرتی ہوتی ہے یہ اس وقت ہوگی جب اس کی منصوبہ بندی اور پالیسی سازی میں مقامی آبادی کی بھر پور شراکت اور حصہ داری ہو۔ اس فقدان نے ایک بحران کو جنم دیا اور بلوچ عوام کو مزاحمت کا راستہ دکھایا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ طاقتور حلقوں کا مقصد قطعا گوادر کی مقامی آبادی اور انسانوں کی ترقی نہیں تھی بلکہ ان کا بنیادی و اولین مقصد بلوچ ساحل و وسائل پر اپنی نو آبادیاتی گرفت اور تسلط کو مزید مضبوط و مستحکم کرنا تھا جس کے لیے انہوں نے مقامی لوگوں کو ترقی اور خوشحالی کے سہانے سپنے دکھائے اور اربوں روپے نمائشی ترقی پر خرچ کئے، لیکن بارش اور سیلابی پانی نے حکومتی و سرکاری دعوؤں کی قلعی کھول کر رکھ دی، بارش نے شہر کو تالاب میں تبدیل کر کے ترقی کے تمام بلند و بانگ دعوؤں کو بے نقاب کر دیا۔ پوری مقامی آبادی زیرِ آب ہے، جبکہ پورا شہر ڈوبا ہوا ہے۔ اس عمل میں کلائمیٹ چینج کا اثر کم جبکہ حکومتی اداروں کی بد نیّتی، نا اہلی، ناقص منصوبہ بندی ،کرپشن، لوٹ مار، کمیشن اور منافع خوری کا عمل دخل زیادہ ہے کہ جس کے نتیجے میں گوادر کی مقامی اور قدیم آبادی کو یہ برے دن دیکھنے کو نصیب ہوئے۔ستم بالائے ستم یہ کہ تین ہفتے گزر نے کے باوجود بھی صورتحال جوں کا توں ہے۔ حکومت متاثرین کو امداد دینے اور نکاسی آب کا جامع بندوبست کرنے میں مکمل ناکام ہو چکی ہے۔ متاثرین بے یار و مدد گار کھلے آسمان تلے پڑے ہوئے ہیں۔ حکومت کے پاس انہیں فوری ریلف دینے اور ان کی دوبارہ بحالی کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہے ،وہی گھسی پھٹی باتیں بلندو بانگ دعوئے، اور اعلانات ہیں۔ جبکہ این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے اس پورے منظر نامے سے غائب ہیں۔ان کا کوئی کردار نظر نہیں آ رہا ، اصل صورتحال تو بارش کے بعد کی ہے کہ جس سے تعفن اور مختلف وبائی امراض کے پھیلنے کا خدشہ ہے، اس سے بڑھ کر ان کی دوبارہ بحالی اور تعمیر نو بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اگر حکومتی و ریاستی اداروں کا رویہ یہی رہا تو ان کے نام پر اربوں روپے وصول کر کے مختلف پیکیجزکے اعلانات تو ہونگے لیکن اصل متاثرین کی بحالی اور ان تک امداد کا پہنچنا مشکل ہوگا۔ بلکہ ان کے نام پر کاروبار کا ایک نیا باب کھلے گا۔اس لیے کارل مارکس نے کہا ہے کہ آفتیں غریب کے لیے تباہی اور امیروں کے لیے تجارت کا موقع ہوتی ہیں” اب یہی صورتحال گوادر میں بھی دیکھنے کو ملے گی۔ یہ کھیل وہاں بھی بھر پور طریقے سے کھیلا جائے گا۔
کوئی بھی ذی شعور انسان ترقی کے ہر منصوبے اور جدید انفرااسٹریکچر کی تعمیر کو خوش آمدید کہے گا۔ اسی طرح دنیا کی سہولت ، ٹیکنالوجی اور ایجاد کا سماج میں استعمال ایک ترقی پسندانہ عمل ہے۔ لیکن یہاں کچھ سوالات ضرور پیدا ہوتے ہیں۔ کہ گوادر کی ترقی اور انفرااسٹریکچر کے جن منصوبوں کا ڈھول پیٹا گیا وہ اب کہاں ہیں؟ تعمیر و ترقی کا مقصد فطرت کے آفاقی حملوں اور آفات کو شکست دینا ہے نا کہ اس کے نتیجے میں بنی نوع انسان کو ملیا میٹ کرنا ہے۔ یہ کیسی ترقی ہے کہ اس کے نتیجے میں پوری آبادی زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ فطرت کو شکست دینے کی بجائے مقامی آبادی کو ایک منظم منصوبے کے تحت ڈبودیا گیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ استحصالی نظام اور ان کے محافظ حکمران اشرافیہ ان آفات کو شکست دینے کی صلاحیت سے ہی محروم ہیں۔لہٰذا یہ ایک قدرتی اور آسمانی آفت کم اور استحصالی نظام کی دین زیادہ ہے ۔اس نظام میں ترقی دینے ،خوشحالی لانے ، قدرتی آفات پر قابو پانے اور بنیادی انفرا اسٹریکچر بنانے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ یہ استحصالی نظام کرپشن ، لوٹ مار، ٹھیکہ اور کمیشن خوری کا ہے۔ ان آفات سے استحصالی نظام کے رکھوالوں کی موجیں ہی موجیں ہیں یہ خود تو محفوظ ہوتے ہیں، ان کے محلات کبھی بھی نہیں اجڑتے، قہر بس غریبوں پر گرائی جاتی ہے، اس لیے اس نظام میں کوئی ترقی ، کوئی آسودگی نہیں ، بس تباہی، ظلم اور تضحیک ہی ہے۔ لہٰذا اس نظام سے ٹکرانا ہوگا۔ اس کے خلاف لڑنا ہوگا ورنہ یہ ہمیں کچلتا چلا جائے گا۔
گوادر: نمائشی ترقی اور بارش کا پانی
وقتِ اشاعت : March 19 – 2024