|

وقتِ اشاعت :   March 24 – 2024

 یہاں تک کہ پرامن احتجاج کرنے والوں کو بھی نہیں چھوڑا جاتا۔ ان کی گرفتاریاں ہوتی ہیں جس کے باعث ہزاروں سیاسی کارکن روپوش ہوجاتے ہیں۔ بعض اپنی جان بچاکر بیرونی ملک پناہ گزینی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ بے شمار بلوچ پناہ گزین بیرونی ملک مارے بھی گئے۔ یا ان کی لاشیں ملیں۔ جن میں کریمہ بلوچ اور دیگر شامل ہیں۔
بلوچستان میں جاری انسرجنسی کے اسباب اور وجوہات کو غیر ملکی ہاتھ قراردیا جاتا ہے۔ کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ بلوچوں کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔ تو کبھی الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اسرائیل کے آلہ کار ہیں۔ بعض اوقات یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بلوچ انڈین ایجنٹ ہیں۔مذکورہ الزامات زبانی اور کلامی ہیں۔ اور یہ الزامات پاکستانی میڈیا کی ہیڈ لائینز کی زینت بنتی رہتی ہیں۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچ اگر پراکسی وار کا حصہ ہوتا تو یورپ ، امریکہ سمیت دنیا بھر میں مقیم بلوچ پناہ گزینوں کو عالمی ادارے بطور مہاجر تسلیم کرتے مگر ایسا نہیں کررہے۔ عالمی اداروں نے اب تک بلوچ مہاجرین کوترجیحی فہرست میں شامل نہیں کیا۔ اسی وجہ سے بلوچ مہاجرین کو بطور مہاجر رجسٹریشن میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اور وہ عالمی سطح پرطے کردہ مہاجرین کے حقوق سے محروم ہیں اور نہ ہی کوئی ملک ان کو بطور مہاجر تسلیم کرتا ہے۔ بلوچ مہاجرین کو اگر کسی ملک میں سیاسی پناہ ملتی بھی ہے تو وہ انفرادی کوشش کی وجہ سے ملتی ہے۔ انہیں وکیل کو بھاری فیس دینا پڑتی ہے۔ ان کے کیس کو سالہا سال لگتے ہیں۔ بعض ممالک بلوچ مہاجرین کو ڈی پورٹ کرتے ہیں جس کے باعث وہ ایک ملک سے دوسرے ملک دربدری کی زندگی گزارتے ہیں۔ آج تک بلوچ مہاجرین کو سرکاری طورپر نہ امریکہ بطور مہاجر تسلیم کرتا ہے اور نہ انہیں دنیا کا کوئی اورملک تسلیم کرتا ہے۔
بلوچ تحریک کسی بھی ملک کے اشارے کی بنیاد پر نہیں چل رہی بلکہ بلوچ کا یہ مسئلہ اسلام آباد حکومت کی غلط پالیسیوں کی پیدا کردہ ہے۔ موجودہ تحریک معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق کی عدم فراہمی کی بنیاد پر جاری ہے۔ جو ایک آئینی و قانونی مسئلہ ہے تاہم اس مسئلے کو حل کرنے میں حکومت سنجیدہ نہیں ہے۔
یہاں تک کہ ملک میں بھی بلوچ مہاجرین کو سرکاری طور پر آئی ڈی پیز تسلیم نہیں کیا جاتا۔ جیسے خیبرپختونخواہ میں وزیرستان اور دیگر علاقوں کے آئی ڈی پیز کو حکومت نے رہائشی اور مالی اعانت کی۔ مگر بلوچستان کے آئی ڈی پیز دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔آئی ڈی پیز کی بحالی کے حوالے سے پورے بلوچستان میں اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ حالانکہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ جنگ سے متاثرہ خاندانوں کی مدد کرے۔ انہیں بہتر سے بہتر رہائش فراہم کرے۔
سنہ دوہزار ایک سے لیکر آج تک بلوچستان کی شورش زدہ حالت کی وجہ سے سے مختلف اضلاع میں لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔اس حوالے سے بلوچستان میں رہائش ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ جس کی اصل وجہ جنگی صورتحال ہے۔ایک اندازے کے مطابق ڈیرہ بگٹی، کوہلو، آواران، کولواہ، کلانچ، دشت، بلیدہ، مند، پنجگور، بولان، خاران، چاغی، واشک، خضدار، قلات سمیت دیگر علاقوں میں لاکھوں لوگ ہجرت کررہے ہیں۔ بعض افراد سندھ کے مختلف اضلاع میں آکر آباد ہوگئے ہیں۔ جبکہ ضلع لسبیلہ اور ضلع حب میں بھی بڑی تعداد میں لوگوں نے پناہ لے لی ہے۔ لاکھوں لوگ آئی ڈی پیز کی حیثیت سے رہتے ہیں اور ان میں سے 33 فیصد شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جس کی وجہ سے وہ گمنامی کے ساتھ دفن ہورہے ہیں۔ عالمی میڈیا اور نہ ہی عالمی ادارے اور خیراتی ادارے کبھی ان کا پرسان حال بنے ہیں۔ بلوچستان میں ایک آزادی پسند تنظیم کے ہاتھوں اقوام متحدہ کے اعلیٰ اہلکار جان سلیکی کا اغوا بھی عالمی اداروں کی خاموشی کا نتیجہ تھا جس کی رہائی بلوچ بزرگ رہنما نواب خیربخش مری کی اپیل کے نتیجے میں ہوئی۔ اس بازیابی میں جنیوا میں مقیم، پنجگور سے تعلق رکھنے والے اور اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین ( یو این ایچ سی آر) کے ترجمان بابر بلوچ نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس زمانے میں بابر بلوچ، اقوام متحدہ اسلام آباد کے دفتر سے منسلک تھے۔ آج کل وہ یو این ایچ سی آر کے ہیڈ آفس سوئٹزرلینڈ میں یو این ایچ سی آر کے ترجمان کی حیثیت سے کام سرانجام دے رہے ہیں۔
یونیسف جیسے عالمی اداروں ، ایدھی فائونڈیشن جیسے خیراتی اداروں کو بلوچ پناہ گزینوں کی کوئی مدد نہ کرنے کا اشارہ دیاگیا ہے۔مولانا عبدالستار ایدھی جب حیات تھے تو ان سے میری (راقم) کھارادر کراچی میں بے شمار ملاقاتیں رہیں ،بلوچ آئی ڈی پیز کی مدد کے حوالے سے ایدھی صاحب کا جواب یہ تھا کہ ان کا بہت دل کرتا ہے کہ وہ جنگ سے متاثرہ خاندانوں کی بحالی کے لئے ان کی مدد کریں مگر انہیں حکومتی اداروں کی جانب سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد ڈیرہ بگٹی سے لاکھوں لوگوں نے ہجرت کی اور انہوں نے سندھ کے مختلف اضلاع میں پناہ لی۔ جس پر عبدالستار ایدھی کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے سندھ میں بلوچ مہاجرین کی بحالی کی کوشش کی تو انہیں منع کردیا گیا۔
حالانکہ عالمی قوانین کے مطابق جنگ سے متاثر خاندانوں کی بحالی عالمی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ انہیں ہر ماہ نقدرقم، راشن، کھانے پینے کی دیگر اشیاء، تعلیم اور رہائش فراہم کی جائے۔ جس کی مثال ہمارے سامنے خیبر پختونخوا کے آئی ڈی پیز ہیں۔ جن کی عالمی اداروں سمیت حکومت بھی مدد کرتی رہی ہے۔شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کو حکومت کی جانب سے ہر ماہ 12 ہزار روپے نقد، راشن اور کھانے پینے کی دیگر اشیا فراہم کی جاتی تھیں۔ شاید بلوچستان میں عالمی اور پاکستانی ادارے بلوچوں کو انسان نہیں سمجھتے۔ انہیں بلوچستان کے وسیع و خوبصورت ساحل اور معدنیات سے پیار ہے۔ لیکن ان کے سامنے بلوچستان کے عوام کی زندگی کی کوئی معنی و قدر نہیں ہے۔ عالمی دنیا کو بھی بلوچستان کے گوادر پورٹ، ریکوڈک، سیندک اور دیگر منصوبوں سے دلچسپی ہے۔ جبکہ بلوچستان کے علاقے سوئی سے نکلنے والی گیس پورے پاکستان میں سپلائی کی جاتی ہے۔ ضلع ڈیرہ بگٹی سے نکلنے والی گیس سے ڈیرہ بگٹی کے بلوچ محروم ہیں۔ وہ آج بھی لکڑی کا چولہا جلاتے ہیں۔ اگر بلوچ اپنی سرزمین ،ساحل و وسائل کی مانگ یا مطالبہ کرتے ہیں تو ریاست کی جانب سے ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اپنے جائز حقوق مانگنے پر بلوچوں کو غیر ملکی ایجنٹ قراردیا جاتا ہے۔ انہیں غداری کے سرٹیفکیٹ جاری کئے جاتے ہیں۔ اگر حق مانگنا غداری ہے تو بلوچ کو یہ غداری قبول ہے۔