سپریم کورٹ آف پاکستان نے خصوصی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دے دی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 6 رکنی لاجر بینچ نے خصوصی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیلیوں پر سماعت کی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزمان کی رہائی کے لیے 3 مراحل سے گزرنا ہوگا، پہلا مرحلہ محفوظ شدہ فیصلہ سنایا جانا دوسرا اس کی توثیق ہوگی، تیسرا مرحلہ کم سزا والوں کو آرمی چیف کی جانب سے رعایت دینا ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے خصوصی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی اجازت دینے کی استدعا کردی۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ اگر اجازت دی بھی تو اپیلوں کے حتمی فیصلے سے مشروط ہوگی۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ جنہیں رہا کرنا ہے ان کے نام بتا دیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب تک خصوصی عدالتوں سے فیصلے نہیں آجاتے، نام نہیں بتا سکتا، جن کی سزا ایک سال ہے انہیں رعایت دیدی جائے گی۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی بات سن کر مایوسی ہوئی ہے۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے خصوصی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دے دی۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ صرف ان کیسز کے فیصلے سنائے جائیں، جن میں نامزد افراد عید سے پہلے رہا ہوسکتے ہیں، اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی کہ کم سزا والوں کو قانونی رعایتیں دی جائیں گی، فیصلے سنانے کی اجازت اپیلوں پر حتمی فیصلے سے مشروط ہوگی۔
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو عملدرآمد رپورٹ رجسٹرار کو جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ مزید سماعت اپریل کے چوتھے ہفتے میں ہوگی۔
فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایسا نہ ہو رہائی کے بعد ایم پی او کے تحت گرفتاری ہوجائے۔