|

وقتِ اشاعت :   March 31 – 2024

 

کراچی کے چھ سے زائد پولیس تھانے مذکورہ عمل کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔ جن میں سعید آباد تھانہ، موچکو تھانہ، بلدیہ تھانہ، شیرشاہ تھانہ، سائٹ تھانہ، مدینہ کالونی تھانہ سمیت دیگر تھانے شامل ہیں۔ رئیس گوٹھ سے پولیس گردی کا یہ سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ جو یوسف گوٹھ سے مہاجر کیمپ، شیرشاہ سے ہوتا ہوا لیاری تک جاری رہتا ہے۔ ان راستوں یا سڑکوں پر مسافروں سے پیسے بٹورنے جیسے واقعات میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ ان مسافروں کی سب سے زیادہ تعداد مریضوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ جو کراچی میں علاج معالجہ کے لئے آتے ہیں۔

مذکورہ علاقوں میں قائم پولیس چوکیاں اور پیٹرولنگ ٹیمز مسافروں کے لئے وبال جان بن چکی ہیں۔ مریضوں کو بھی چوکیوں میں لا کر حراساں کرکے ان سے بھاری رشوتیں طلب کی جاتی ہے جبکہ رشوت دینے سے انکار پر ان پر جھوٹے مقدمات درج کرکے حوالات میں بند کردیا جاتا ہے۔ یہ پولیس چوکیاں ٹارچر سیلز بن چکی ہیں۔

ویسے تو یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ لیکن 2024 کے عام انتخابات کے بعد یہ سلسلہ رک جانا چاہیئے تھا کیونکہ اب دونوں صوبوں میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہے۔ بلوچستان میں میر سرفراز بگٹی وزیراعلیٰ جبکہ سندھ میں سید مرادعلی شاہ وزیراعلیٰ ہیں۔ دونوں کی جماعت ایک ہی ہے۔ اور دونوں کا سربراہ سیٹھ آّصف علی زرداری ہیں۔ بلوچی میں “زرداری” کو “سیٹھ” کہا جاتا ہے۔ بلوچی میں “زر” کا مطلب “پیسہ” جبکہ “داری” کا مطلب “رکھنا یا والا” کا ہوتا ہے۔ اس طرح زرداری یعنی “پیسہ والا” شخص کا مطلب نکلتا ہے۔ اس وقت صدر زرداری کے پاس پیسوں کی کمی نہیں ہے۔ ان کے پاس اتنی دولت ہے کہ ان کو اپنے نام کے”سکہ زرداری” کا اعلان کردینا چاہیے

گوکہ کراچی آنے والے زیادہ تر مریض ہوتے ہیں۔ جنہیں دو وقت کی روٹی مشکل سے میسر ہوتی ہے۔ بلوچستان بھر کے لوگ علاج معالجے سے لیکر زندگی کی دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کراچی کا رخ کرتے ہیں۔ چونکہ صوبہ بلوچستان صحت سے لیکر زندگی کے دیگر شعبہ جات میں بہت پیچھے ہے۔

کسی زمانے میں یہ ہوتا آرہا تھا کہ کراچی پولیس رسم و رواج کا لاج رکھتے ہوئے خواتین کو سائیڈ پہ کرکے مرد حضرات کو لوٹ لیتے تھے۔ مگر آج کل پولیس یہاں تک آ پہنچی ہے کہ خواتین کو بھی تلاشی کے بہانے بدتمیزی اور غیراخلاقی طریقے استعمال کرکے ان کی عزتِ نفس کو مجروع کرتے ہیں۔ ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔ باپ کو بیٹی کے سامنے ذلیل کیا جاتا ہے۔ شوہر کو بیوی اور بھائی کو بہن کے سامنے بے عزت کیا جاتا ہے۔ اس طرح پیپلز پارٹی کو بلوچستان کی عوام کا “ووٹ” بھی چاہیئے اور ان سے “نوٹ” بھی چاہیئے۔

جبکہ بلوچستان سے آنے والی مچھلی اور سبزی بردار گاڑیوں کو بھی نہیں چھوڑا جاتا۔ رئیس گوٹھ سے لکی چڑھائی تک پولیس کی چار موبائلیں کھڑی ہوتی ہیں۔ جو صرف بلوچستان سے آنے والی گاڑیوں کو تنگ کرتی ہیں۔ اسی طرح یہ سلسلہ دیگر تھانوں کی حدود میں بھی جاری رہتا ہے۔ سعیدآباد تھانہ، بلدیہ تھانہ، شیرشاہ تھانہ، سائٹ تھانہ، مدینہ کالونی تھانہ سمیت دیگر تھانے اس میں شامل ہیں۔

یوسف گوٹھ بس ٹرمینل پر بعض ٹیکسی ڈرائیورز بھی پولیس کے مخبر ہوتے ہیں۔ جو پولیس کے ساتھ ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ جب مسافر کو بس اڈے سے سوار کیا جاتا ہے تو راستے میں پولیس چوکی پر ڈرائیور ہیڈ لائٹس کے ذریعے ساری کہانی بتاتے ہیں کہ روکنا ہے یا نہیں۔ یہ فیصلہ مسافروں کے پاس ان کے سامان اور دیگر قیمتی اشیا کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اس لوٹ مار میں ڈرائیور کا بھی حصہ ہوتا ہے۔

تیسرا ٹولہ چوروں کا ہوتا ہے۔ جو پولیس اور ڈرائیورز کے ساتھ ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ بعض اغوا کے کیس بھی سامنے آئے ہیں۔ خواتین اور بچوں کو بھی نہیں بخشا جاتا ہے۔ فیملی کے فیملی اغوا کیے جاتے ہیں۔

ویسے تو پورا بلوچستان علاج معالجے کی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے کراچی کا رخ کرتا ہے تاہم مکران کے لوگوں کا زیادہ رش رہتا ہے۔ مکران سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی ملک شاہ کو چاہیے کہ وہ سندھ کے وزیراعلیٰ مرادعلی شاہ سے رابطہ کریں۔ دونوں کا “شجرہ نسب” ایک ہی ہے۔ شاید وہ دونوں “بارڈر کراس سید” نہیں ہیں۔ جو کسی زمانے میں تقسیم برصغیر کے دوران بھارت سے پاکستان آئے تھے۔ اور یہاں آکر سارے کے سارے “سید” بن گئے۔

ابھی تو حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان بھی ملک شاہ کی جماعت، پیپلز پارٹی کے اتحادی بن چکے ہیں۔ حالانکہ حق دو تحریک کے چیئرمین حسین واڈیلہ اور نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بلوچ نے ملک شاہ سے زیادہ ووٹ حاصل کئے تھے۔ پھر بھی ملک شاہ کے نام کا نوٹیفیکشن نکالا گیا۔ کچھ دن کے لئے مولانا صاحب نے حسین واڈیلہ کے ہروانے کے خلاف شور شرابہ کیا۔ مگر ایک نامعلوم “فون کال” کی وجہ سے مولانا صاحب ” صْم?ّ بْک?م? ” ہوگئے۔ اور حسین واڈیلہ کے احتجاج کو چھوڑ کر سیدھا بلوچستان اسمبلی پہنچ گئے۔ جہاں انہوں نے موجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کو اپنا ووٹ دیدیا۔ شاید میرے طالب علمی کے دور کے دوست کامریڈ حسین واڈیلہ کے ہاتھوں کی “لکیروں میں قسمت” نہیں ہے۔ حق دو تحریک سے قبل جب واڈیلہ صاحب بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل کی جماعت میں تھے۔ تو اس وقت وہ بی این پی (مینگل) کے سینیٹر کے امیدوار تھے۔ عین وقت پر سردار اختر مینگل نے “پلٹا کھایا”۔ شاید اس پلٹنے کے پیچھے بھی “زر” کا معاملہ تھا۔ جس کیبعد واڈیلہ صاحب نے بی این پی (مینگل) چھوڑ کر حق دو تحریک میں شمولیت اختیار کرلی۔ واڈیلہ صاحب میری طرح “غربت کی لکیر سے نیچے زندگی” گزار رہے ہیں۔ اب پارلیمانی سیاست میں نظریہ کی جگہ پیسے نے لیلی ہے۔ جس کے پاس زیادہ پیسہ ہوگا وہی سب سے بڑا “پارلیمانی لیڈر” ہوگا۔

اس لئے بلوچ بزرگ رہنما اور عالم دین واجہ صبغت اللہ بلوچ عرف شاہ جی نے پارلیمانی سیاست کو خیرباد کہہ دیا۔ اور وہ غیر اعلانیہ طورپر بلوچ یکجہتی کمیٹی کی تحریک سے وابستہ نظر آرہے ہیں۔ وسیم سفر زامرانی بھی شاہ جی کے شانہ بشانہ ہیں۔ جس کے باعث بلوچ قوم میں ان دونوں کا مقام کافی بلند ہوگیا ہے۔ کامریڈ حسین واڈیلہ کو بھی چاہیئے کہ وہ شاہ جی کو اپنا رول ماڈل بنائیں اور غیرپارلیمانی سیاست کا رخ کریں۔ جہاں پوری بلوچ قوم کھڑی ہے