سردیوں کا موسم اپنے شدت گزارنے کے بعد بھی قلات میں خون جمارہا تھا، خان خدائیداد خان کی گرفتاری کی وجہ سے قلات اور میری کا ماحول اداس اور سوگوار تھا ، قلات نے ماضی میں ایسے بہت سے اداس سردیوں کی شامیں دیکھے تھے لیکن اس بار شامیں بے رحم اداسی کا منظر پیش کررہے تھے ، شام کے وقت کمبر اپنے ایک دوست کے ساتھ دور بیٹھے میری قلعے کو دیکھ رہا تھا ، قلعے کی برج پہ ایک انگریز سپائی کھڑا قلعے سے باہر کا نظارہ دیکھ رہے تھے ، یہ وہی میری ہے جس کی دیواروں تک ابدالی ، نادرشاہی فوجیں پہنچنے میں ناکام رہے ہیں آج انگریزوں کی قبضے میں ہے ، کمبر کی دوست قلات کی سیاسی حالات سے بے خبر کمبر سے مسلسل ماہ گنج کے حوالے سے پوچھ رہا تھا ، لیکن کمبر کی دل کو اس وقت میری کے تاریک مستقبل کے وسوسوں نے گھیر رکھا تھا ، خوفزدہ اور بے چین دل نے کمبر کو مزید بیٹھنے نہیں دیا وہاں سے اٹھ کر چادر اوڑھ کر گھر کی طرف روانہ ہوگیا، بوجھل قدموں سے کمبر شہر کے قریب پہنچا تو ماہ گنج اپنے سہیلی کے ساتھ باغ سے نکل رہی تھی اچانک کمبر کو دیکھ کر شرماگی اور اپنی دوپٹہ سیدھی کرکے اھوڈنے لگی جو دوڈتے وقت گر کر کندھوں کی اوپر آگئی تھی ، کمبر نے ایک نظر ماہ گنج کو دیکھا لیکن آج اس کی آنکھوں میں ماہ گنج کے لیے وہ شدت کی طلب نہیں تھا ، آج پہلی بار ماہ گنج کو دیکھنے کے بعد اس کی پاوں نہیں کانپ رہے تھے اور ہاتھ نہیں لرزرہے تھے ، آج پہلی بار ماہ گنج سامنے ہونے کے بعد کمبر اپنے ہوش و حواس نہیں کھو چکا تھا ، پہلے جب کمبر ماہ گنج کو دور سے دیکھتا تو ایسا رعب طاری ہوتا کہ کمبر کی پاوں اس کے کنٹرول میں نہیں ہوتے تھے قدم بے ترتیب ہوتے اور دل کی دھڑکنیں بے لگام ہوتے ، کمبر ماہ گنج سے نظریں چراکر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگیا ، رات کو کھانے کے دوران کمبر کی والد سمندر خان نے کہا انگریزوں نے خان خدائیداد خان کو گرفتار کرکے شہزادہ محمود خان کو تخت پہ بٹھا دیا ہے ، محمود خان جیسا عیاش اور نکمہ انسان ریاست کو برباد کرکے رکھ دے گا جو پہلے سے طویل خانہ جنگی کی وجہ سے کھلا بن چکا ہے ، تھوڈی دیر خاموشی کے بعد سمندر خان نے کہا کہ تمام سردار اب بہت پشیمان اور شرمندہ ہیں ، کمبر نے مسکراتے ہو کہا کہ سردار ہر بار میری کے تخت کو دشمنوں کے حوالا کرنے کے بعد پشیمان ہوتے ہیں ، لیکن اس بار کی پشیمانی کا کوئی فائدہ نہیں اب پانی سر سے اوپر گزر چکا ہے ، سمندر خان نے سوالیہ نظروں سے کمبر کو دیکھا تو کمبر نے کہا کہ خان محراب خان کے وقت سرداروں نے بے وفائی کے بعد پشیمان ہوکر اپنے غلطی سدھارا تو اس وقت کے حالات اور آج کی حالات میں بہت فرق ہے ، اس وقت انگریز نئے نئے آئے ہوئے تھے اب انگریز ہمارے درمیان گھس چکے ہے ، معائدہ مستنگ اور سنڈیمن نظام نے ہمارے پورے وجود کو انگریزوں کے پاس گروی رکھا ہے ، خان خدائیداد خان کی شکی مزاج اور سرداروں کی اختیار اور جائیداد کی حوس نے میری کی بنیادوں کو اتنا کھلا کردیا ہے کہ اب اسے منہدم ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا ، کمبر نے مزید کہا کہ محراب خان کے بعد نصیر خان دوئم جیسا غیرت مند ولہعید تھا اب خدائیداد خان کا کوئی ولہعید نہیں اعظم خان بھی نظر بند ہے ، کمبر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا کاش اعظم خان اس وقت انگریزوں کی ٹرین کو لشکر کے ساتھ گھیر لیتے اور خان صاحب کو آزاد کرتے جب انگریزوں نے خان صاحب کو گرفتار کرکے ٹرین پہ بٹھالیا تھا ، افسوس ہے اعظم خان کی بزدلی اور نا سمجھی پر ، تھوڈے خاموشی کے بعد سمندر خان نے کہا کہ میں نے سنا ہے سردار گوہر خان زرک زی اپنے بھائی پسند خان کے ساتھ مل کر بغاوت کررہا ہے ، کمبر نے کہا کہ سردار گوہر خان نے اپنے پوری جوانی خدائیداد خان کیخلاف لڑتے ہوئے گزارا ہے اب کیوں بغاوت کررہا ہے خان کی گرفتاری سے اس کا تو کام اسان ہوگیا ہے ، سمندر خان اور کمبر باتیں کررہے تھے کہ کمبر کی ماں جان بی بی آگئی، جان بی بی نے کمبر کے لیے خود کو دعائیں دیتے ہوئے کہا کہ آج میں نے باتوں باتوں میں ماہ گنج کی ماں سے کہہ دیا کہ ہم بہت جلد ماہ گنج کا رشتہ مانگنے والے ہے ، کمبر کافی وقت سے اسی بات کا انتظارکرہا تھا لیکن آج میری کی حالت نے اس کی دل و دماغ کو اس قدر غمگین کردیا تھا کہ ماہ گنج کے رشتے کی بات نے بھی اسے متاثر نہیں کیا ، سمندر خان نے کہا کہ میں کل ہی ماہ گنج کی والد سے بات کرتا ہوں کمبر نے کہا کہ قلات سوگوار ہے اس حالت میں رشتے کی بات کرنا مناسب نہیں ہے میرے خیال میں ، سمندر خان نے آہ بھرتے ہوئے کہا کہ اب میری کی تقدیر سے شاید کھبی سوگواری ختم نہ ہو ، دروازے پہ دستک ہوئی ، کمبر نے جاکر کھولا تو دو نقاب پوش کھڑے تھے ، انہوں نے کمبر کو دیکھ کر کہا کہ ہم سردار گوہرخان کے بندے سمندر خان سے ملنے آئے ہیں ، کمبر انہیں اندر لے گیا ، بلوچی حال وحوال کے بعد مسافروں نے کہا سردار گوہر خان نے اپ کے لیے پیغام بھیجا ہے کہ میں نے انگریزوں کیخلاف بغاوت کا فیصلہ کرلیا ہے میں نے ایک لکیر بھی کیھنچا ہے کہ جب میں شہید ہوا مجھے اس لکیر کے اندر دفن کرنا ، اور اپ آباواجداد سے ریاست قلات کے وفادار رہے ہو امید ہے اپ اس بغاوت میں میرے ساتھ دوگے ، سمندر خان نے کوئی جواب نہیں دیا مسافر چند لمحے آرام کرکے واپس چلے گئے۔
کمبر بستر پہ کروٹ بدلتا رہا لیکن نہیند اس کے انکھوں سے کھوسوں دور تھا، اسے یاد آیا کہ جنرل ٹیمپل نے اعلان کیا ہے تمام سرداروں کے لیے ماہوار تین سو روپے کا وظیفہ مقرر کیا جائے گا اور قبائلی لیویز چیک پوسٹیں بھی قائم کیا جائے گا ، کمبر کو اس سوچ نے خوفناک وسوسوں کی طرف دھکیل دیا کیونکہ اسے یقین تھا کہ مراعات کے سامنے تمام سردار جھک جائینگے ، بے چینی سے کمبر بستر سے اٹھ کر گھر سے نکل کر ٹہلنے لگا ،
کمبر سوچ رہا تھا کہ اسے سردار گوہر خان کے باغی گروپ میں شامل ہونا چائیے ، خود کلامی کرتے ہوئے اس نے خود سے سوال کیا کہ کیا سردار گوہر خان کی یہ مزاحمتی جزبات برقرار رہے گا ؟؟ کیا جھالاوان اور ساراوان کے دوسرے سرداروں کی مراعات دیکھ کر گوہر خان کی یہ جنون قائم رہے گا ؟؟ اگر گوہر خان جھک گئے پھر میری کو منہدم ہونے سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ سوچوں کی یلغار اور خود کلامی سے تنگ آکر اس نے باغ کی طرف رخ کرلیا جو ماہ گنج کی گھر کے قریب تھا ، باغ کے قریب پہنچ کر کمبر نے ماہ گنج کی گھر کو دیکھا لیکن اس کی وجود اسے تنقید کررہا تھا کہ ماہ گنج کی گھر کے بجائے پلٹ کر میری کو دیکھ جو اس وقت تم جیسے نوجوانوں کی توجہ چائتا ہے ،ایسے نازک حالات میں شے مرید بن کر ماہ گنج کے لے سروز بجانے کا وقت نہیں بلکہ عبداللہ قہار بن کر دشمن پر ٹوٹ پڑنے کا وقت ہے ، کمبر نے پلٹ کر میری کو دیکھا تو صبح کی اذان شروع ہوگئے وہاں سے گھر پہنچا اس کے والدین نماز پڑھ رہے تھے ، کمبر نے پگھڈی پہن لیا، بندوق اور تلوار لے کر خود کو مکمل طور مسلع کردیا گھوڈے پر سوار ہوکر چھپکے سے زہری کی طرف روانہ ہوگئے ، زہری پہنچ کر دیکھا کہ سردار گوہر خان اور پسند خان لشکر کے درمیان میں بیٹھے ہوئے تھے، سردار کے قریب جتک ، سیدزی اور ڈایہ سردار بھی بیٹھے ہوئے تھے ، گوہر خان نے کمبر کا استقبال کرکے کہا کہ مجھے یقین تھا کہ سمندر خان اس جنگ میں ضرور ہمارا ساتھ دے گا ، کمبر نے فورا سوال کیا کہ ہمارے جنگ کا مقصد کیا ہے ؟؟
گوہر خان نے جزباتی ہوکر جواب دیا کہ خان خدائیدار خان کی گرفتاری سے ہماری قوم کی بے عزتی ہوا ہے ہم بدلہ لینا چائتے ہیں ، کمبر نے کہا کہ سردار تاج محمد زرک زی ، سردار ملا محمد رئیسانی سمیت ساراوان اور جھالاوان کے تمام سرداروں نے خانہ جنگی سے میری کی بنیادوں کو اس قدر کھوکلا کردیا ہے کہ اب اس کی بنیادوں کو پھر سے مضبوط کرنے لیے ساراوان اور جھالاوان کے تمام سرداروں کو اینٹوں کے جگہ اپنے سروں کو رکھنا چائیے ، یاد رکھو سردار صرف میری کی دیواریں نہیں بلوچ ریاست بھی منہدم ہوگا ، اس لیے یہ جنگ صرف خدائیداد خان کی گرفتاری کی بدلے تک محدود نہیں رکھنا ہے ہمیں میری اور بلوچ ریاست کی بحالی تک یہ جنگ جاری رکھنا چائیے ، اگلے دن سورج طلوع ہونے سے پہلے گوہر خان نے پسند خان کو ایک لشکر کے ساتھ نورگامہ کے گوداموں کو لوٹنے کے لیے روانہ کردیا کمبر بھی شامل تھا ، لشکر جب گداموں کے قریب پہنچ گئے کمانی میر باز خان چند سپائیوں کے ساتھ وہاں موجود تھا ، پسند خان نے حملے کا حکم دے دیا کمانی میر باز خان نے مقابلے کے بجائے سپائیوں کے ساتھ فرار ہوگیا ، پسند خان نے گداموں کو اچھی طرح لوٹ لیا اور آگ لگا کر سب کچھ جلادیا ، پسند خان لشکر کو لے کر نورگامہ کے گاوں کی طرف روانہ ہوگئے خان قلات کے تمام جاگیروں کو لوٹ مار کے بعد جلادیا ، بے شمار ریوڈ لوٹ لر لے گئے ، جب یہ لشکر فاتحانہ انداز میں سردار گوہر خان کے پاس پہنچ گیا تو پورے لشکر نے جشن منایا رات کو خوب بلوچی سجی اور کباب کا پروگرام ہوا ، پہلی فتح کی جشن کے بعد سب سپائی اپنے خیموں میں سورہے تھے کمبر کو نہیند نہیں آرہا تھا ، وہ خیمے سے نکلا تو دیکھا کہ آگ کے قریب سردار گوہر خان بیٹھے اپنے بندوق صاف کررہا ہے ، کمبر اس کے قریب جاکر بیٹھ گیا ، گوہر خان نے کمبر کو دیکھ کر مسکرا کر پوچھا کہ سمندر خان اتنا بوڈھا ہوگیا ہے کہ خود نہیں آیا بچے کو لڑنے کے لیے بھیج دیا ، کمبر نے کہا کہ مجھے والد نے نہین بھیجا ہے میں خود آیا ہوں ، گوہر خان نے حیرت زدہ نظروں سے کمبر کو دیکھا ، کمبر نے گوہر خان سے سوال کیا کہ اگر آپ جھک گئے یا شہید ہوگئے پھر میری کا کیا ہوگا ، بلوچوں کی مستقبل کا کیا ہوگا ، گوہر خان نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ میں یہ جنگ جاری نہیں رکھ سکتا میں بہت جلد مارا جاوں گا ، لیکن میرے شہادت کے بعد کوئی اور اٹھے گا ، خان محراب کی شہادت کے بعد لوگوں نے کہا تھا کہ اب میری منہدم ہوگا لیکن میری کے ہزاروں وارث نکلے ، تھوڈی دیر خاموشی کے بعد گوہر خان نے کمبر سے پوچھا کہ تمہارے شادی ہوچکا ہے ؟؟
کمبر نیمسکراتے ہوئے جواب دیا ماہ گنج سے میرا رشتہ طے ہونے والا تھا لیکن میں بتائے بغیر ہیاں آگیا ہے، کچھ دیر خاموشی کے بعد کمبر نے کہا کہ ماہ گنج سے میں جنون کی حد تک محبت کرتا ہوں ، میں دن رات قلات کی پہاڑوں میں ، باغوں میں بیٹھ کر اپنے دوستوں کو ماہ گنج کے بارے میں پوچھتا تھا کہ پتا نہیں ماہ گنج اس وقت کیا کررہی ہے ، کیا وہ مسکراتی ہے ، کیا وہ اداس ہوتی ہے ، کیا اسے نہیند بھی آتی ہے ، کیا اسے بھوک بھی لگتی ہے ، وہ غصے میں کیسی لگتی ہوگی ، وہ ہنستے ہوئے کیسے لگتی ہے ، تنہائی میں خود سے سوال کرتا تھا کہ پتا نہیں ماہ گنج انسان ہے یا نہیں ہے ، بولتے بولتے کمبر کی آنکھوں سے آنسو نکل گئے ، کچھ دیر خاموش ہونے کہ بعد کمبر نے انسو صاف کرکے گوہر خان سے پوچھا کیا اس وقت ماہ گنج سوئی ہوئی ہوگی، اگر سوئی ہوئی ہے تو کس طرح سوئی ہے ، اس کی زلفیں بکھری ہوئی ہونگے ، گوہر خان خاموشی سے کمبر کو دیکھ رہا تھا، گوہر خان نے کمبر سے پوچھا تم ماہ گنج سے اتنی محبت کرتے ہو اور تمہارے والد نے بھی تمہیں جنگ کے لیے نہیں بھیجا ہے پھر تم ماہ گنج کو چھوڈ کر کیوں آگئے ، کمبر نے کہا کہ جب میں بچہ تھا ایک دن مجھے میرے والد میری کے دیواروں کی قریب لے گیا ، اس نے کہا کمبر یہ دیواریں بلوچ قوم کی بنیاد ہے جس دن اس کی برجوں پہ دشمنوں نے قبضہ کرلیا تو اس دن ہمارا وجود ختم ہوگا ، یہ صرف ایک قلعہ نہیں بلوچ قوم کا وجود ہے اور یاد رکھنا کسی قوم کے لیے غلامی سے زیادہ ذلالت کچھ نہیں ہوتا ، کمبر نے مزید کہا کہ جس دن میری کے برجوں پہ انگریز سپائی چڑھ گئے مجھے احساس ہوا کہ ہم نسلوں کی غلامی میں جانے والے ہیں ، میرے غیرت نے مجھے مجبور کیا کہ دلہن بن کر ماہ گنج کی سیج میں جانے کے بجائے شہید ہوکر وطن کی آخوش میں جاوں شاید میری خون سے میری کے دیواریں کچھ دن مزید قائم رہے ، گوہر خان نے اٹھ کر کمبر کی سر کو چھوم لیا اور کہا کہ کاش ہم سرداروں کی بلوچی غیرت آپ کی طرح ہوتے تو شاید آج میری کے برجوں پہ انگریز سپائی نہیں ہوتے ، گوہر خان نے کہا کہ اپ اس وطن کے غیرت مند بلوچ ہو میں اپ کو کچھ نصیحت کرنا چائتا ہوں انہیں غور سے سنو ، کمبر نے سوالیہ نظروں سے دیکھا ، گوہر خان نے کہا میں جانتا ہوں میں چند دنوں کا مہمان ہوں اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ صرف مرنے سے بلوچوں کو کوئی فائدہ نہیں ملے گا لیکن میں جھالاوان کا سرسردار ہوں میں نے لڑنے اور مرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اپنے دفن کے لیے جگہ کا بھی تعین کرلیا ہے اس لیے اب میں اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا اور یہ جو میرے لشکر والے ہے ان میں سے اکثر کسی بھی وقت مجھے چھوڈ سکتے ہیں اور میرا بھائی پسند خان کسی بھی وقت مجھ سے اپنا راستہ جدا کرسکتا ہے ، یہ بھی ہوسکتا ہے پسند خان انگریزوں کے ساتھ میرے زندگی کا سودابازی کرے ، گوہر خان نے مزید کہا کہ جب دشمنوں نے مجھے گھیر لیا تو تم وہاں سے فرار ہوجانا یہ جنگ صرف تم جاری رکھ سکتے ہو ، اور یاد رکھنا بلوچوں کے جس قبیلے یا گروپ نے انگریزوں کے کیخلاف جنگ شروع کرلیا ان کے ساتھ شامل ہوجانا اور انہیں بلوچ ریاست کی بحالی کے لیے ذہین سازی کرنا ، کمبر سردار گوہر خان کی باتیں سن کر چونک گیا۔پہلی کامیابی کے بعد لشکر کے حوصلہ بہت بلند تھے ، سردار گوہر خان لشکر کے ساتھ نیچارہ میں بیٹھے اگلے حملے کی منصوبہ بندی کررہا تھا ، ایک پہرہ دار نے آکر بتایا کہ زمان خان کی کمان میں ایک ریاستی دستہ حملہ کرنے کے لیے آرہا ہے ، اور اس کے پیچھے پولیٹیکل ایجنٹ ٹیمپل ساراوان اور جھالاوان کے قبائلی لشکروں کے ساتھ آرہا ہے ، گوہر خان کی لشکر نے فورا مورچہ بندی شروع کردیا ، زمان خان کی لشکر نے پہنچتے ہی زبردست حملہ کردیا ، گوہر خان کے لشکر نے بھی بھرپور جوابی حملہ کیا لیکن یہ حملہ پہلے دن والے چھاپہ مار حملوں سے بلکل مختلف تھا، ڈایہ ،لوٹانی سیدزی، اور جتک کے سردار اور قبائلی اس حملے کے لیے بلکل تیار ہی نہیں تھے ، ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ریاستی ردعمل اتنا سخت ہوگا ، انہوں نے آپسمیں میں مشورہ کیا کہ اگر ٹیمپل ساراوان اور جھالاوان کی لشکر کے ساتھ پہنچ گیا پھر ہمارا بچنا نا ممکن ہوگا اس لیے ہمیں راہ فرار اختیار کرنا چائیے ، اگلے ہی لمحے ڈایہ ، لوٹانی ، سیدزئی اور جتک قبیلوں نے میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کرلیا اور سردار گوہر خان اپنے لوگوں کے ساتھ میدان میں اکیلا رہ گیا ، کمبر گوہر خان کے مورچے پہ تھا ، ان کو فرار ہوتا دیکھ کر انہیں گوہر خان کی رات والا نصیحت یاد آگیا ہے ، اب کمبر کو پسند خان پہ شک ہونے لگا کہ کہیں وہ فرار نہ ہوجائے یا گوہر خان پر پیچھے سے حملہ نہ کرے ، اس لیے اب کمبر جوابی حملے کے ساتھ گوہر خان کی سیکورٹی کا بھی خیال کررہا تھا ، جس جگہ کو ڈایہ ، سیدزئی ، لوٹانی اور جتک نے فارغ کیا تھا ریاستی فوج نے اسی جگہ سے گوہر خان کو گھیرنا شروع کردیا، کمبر نے گوہرخان سے کہا کہ فوج ہمیں گھیر رہا ہے اور ٹیمپل بھی پہنچنے والاہے ہمیں دفاعی حکمت عملی کے تحت پسپا ہونا پڑے گا ، گوہر خان اپنے لشکر کے ساتھ پسپا ہوکر مولہ کے راستہ میرگٹ کی طرف نکل گیا ، جب ٹیمپل ساراوان اور جھالاوان کی لشکروں کے ساتھ زہری پہنچا تو گوہر خان اپنے فراریوں کے ساتھ میرگٹ کی بلند پہاڑوں میں پہنچ چکا تھا ، زمان خان نے ٹیمپل سے کہا کہ گوہر خان کی تمام اتحادی اس کے ساتھ چھوڈ چکے ہیں ، وہ چند فراریوں کے ساتھ میرگٹ میں ہے اپ کو اس کا تعاقب کرنا چائیے ، ٹیمپل نے کہا میرگٹ میں گوہر خان کی مقابلے کے لیے ہمیں باقاعدہ انگریزی فوجی دستوں کی ضرورت ہوگا ان قبائلیوں کے ساتھ ہم مقابلہ نہیں کرسکتے کیونکہ میرگٹ مشکل درہ ہے ، ٹیمپل نے گوہر خان کی فراریوں کے چھاپوں کو روکنے کے لیے پورے جھالاوان اور ساروان میں لیویز تھانے قائم کردئیے اور سرداروں کے وفاروں کو سپائی بھرتی کیا ، میرگٹ میں پہنچے کے بعد گوہر خان کے تمام لشکر شکست خوردہ اور تھکے ہوئے تھے ، غاروں میں آرام کررہے تھے ، کمبر نے ایک غار میں اگ جلا کر گوہر خان کے لیے بندوبست کیا ، گوہرخان اداسی کی حالت میں زمین پہ لیٹا سوچ رہا تھا ، کمبر نے کہا کہ ہمیں اب میرگٹ کو اپنا مرکزی کیمپ بنانا ہوگا اور چھاپہ مار حملے جاری رکھنا چائیے ، گوہر نے کہا کہ بہت جلد سردار اور انگریزی فوج میرگٹ پہنچ جائینگے ، کمبر اور گوہر خان کچھ دیر خاموشی سے جلتے ہوئے آگ کو دیکھتے رہے ، گوہر خان کی اداسی کم کرنے کے لیے کمبر نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ہم نے بچپن میں آپ کے بارے میں بہت سنا تھا ، لوگ اپ کی رعب دبدبہ بہادری کی داستان بیان کرتے تھے ، اور یہ بھی بتاتے تھے کہ اپ بہت ضدی اور خدائیداد خان کی شدید دشمن ہو ، گوہر خان نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میرے شہادت کے بعد ہیاں سے جاتے ہی ماہ گنج سے شادی کرنا اور اسے میرے داستان ضرور سنانا ، کمبر نے کہا کہ اپ جھالاوان کے سرسردار ہو ماہ گنج کو یقین ہی نہیں ہوگا کہ سردار گوہر خان زرک زی میرے بارے میں بات کیا کرتا تھا ، دونوں ہنس پڑے ، کمبر نے کہا کہ اپ آرام کرو میں باہر پہرہ دیتا ہوں ، کمر غار کے سامنے بیٹھ کر پہرہ دے رہا تھا کہ آدھی رات کو غار کے اندر رونے اور ہچکی کی آوازیں آنے لگی ، کمبر نے اندر جاکر دیکھا سردار گوہر خان نمازی کے مصلع میں سجدے میں پڑا رو رہا تھا ، کمبر نے گوہر خان کے کندھے پہ ہاتھ رکھا اس نے اٹھ کر کمبر کو گلا لگا کر کہا کہ ہم نے اپنے ذاتی بغض ، آنا اور مفادات کی آگ میں جل کر خانہ جنگی سے میری اور بلوچ ریاست کو بھی جلادیا ہم آنے والے نسلوں کی مجرم ہونگے ، کمبر نے تسلی دے کرکہا کہ اپ نے انگریزوں کے سامنے جھکنے کے بجائے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا اپ کی یہ قربانی اپ کی ماضی سے بہت زیادہ عظیم ہے ، تاریخ انسان کی ماضی نہیں دیکھتا بلکہ یہ دیکھتا ہے کہ اس کا خاتمہ کس حالت میں ہوا ، محمود خان میری کے محل میں کنیزوں کے ساتھ عیاشی میں مصروف تھا کہ ایک خادم نے کہا کہ ٹیمپل نے اپ کو دربار میں طلب کرلیاہے ، محمود خان چونک گیا کیونکہ میری کے محل اور کنیزوں کی بانہوں سے نکلنے کے لیے وہ بلکل تیار نہیں تھا ، لیکن حالت مجبوری میں خوانین قلات کے عظیم دربار میں محمود خان ایسے حالت میں پہنچا جیسے ابھی ابھی بستر سے اٹھا ہوا ہو ، بال ، کپڑے سب بے ترتیب تھے ، جس شاہی دربار میں نوری نصیر خان ، محراب خان شان سے بیٹھا کرتے تھے آج اسی دربار میں ٹیمپل کے سامنے محمود خان ہاتھ باندھے سر جھکائے ملازموں کی طرح کھڑا تھا ، ٹیمپل نے کہا کہ کوئٹہ چلنے کی تیاری کرو اپ کا باقاعدہ دستار بندی کروانا ہے ، کوئٹہ میں تمام جھالاوان اور ساراوان کے سرداروں کی موجودگی میں بطور خان قلات محمود خان کی دستار بندی کی گئی ، محمود خان بہت تنگ تھا بار بار پولیٹیکل ایجنٹ سے پوچھ رہا تھا کہ واپسی کب ہے ، کیونکہ اسے سیاست اور ریاستی معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں تھا اسے بس میری کے محل میں کنیزوں کے ساتھ عیاشی کرنا تھا ، ٹیمپل نے گوہر خان کی بغاوت
” میری کے گرتی ہوئی دیواروں کی گونج “
وقتِ اشاعت : April 2 – 2024