|

وقتِ اشاعت :   April 4 – 2024

عدالتی معاملات میں مبینہ مداخلت کے حوالے سے 6 ججز کے خط کا معاملہ اس وقت شہ سرخیو ں پر چھائی ہوئی ہے اور اس وقت میڈیا پر سب سے زیادہ زیر بحث موضوع یہی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز نے چند روز قبل سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک خط میں عدالتی معاملات میں دخل اندازی کا معاملہ اٹھایا تھا۔خط میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل سے مطالبہ کیا تھا کہ ہم جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی کے تحقیقات کرانے کے مؤقف کی مکمل حمایت کرتے ہیں، اگر عدلیہ کی آزادی میں مداخلت ہو رہی تھی تو عدلیہ کی آزادی کو انڈر مائن کرنے والے کون تھے؟اس معاملے پر وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے سپریم کورٹ میں ملاقات کر کے کمیشن تشکیل دینے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا۔ بعد ازاں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی پر مشتمل کمیشن تشکیل دینے کی منظوری دی گئی تھی مگر جسٹس (ر) تصدق جیلانی نے کمیشن کی سربراہی سے معذرت کی جس کے بعد خط کے معاملے پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لے لیا۔ججز کے خط کے معاملے پر پرنسپل سیٹ اسلام آباد پر موجود تمام ججز پر مشتمل بینچ تشکیل دے دیا گیا ہے، 7 رکنی بینچ کی سربراہی چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کریں گے۔

بینچ میں شامل دیگر ججز میں جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔ جن 6 ججز نے خط لکھا ہے اس میں صرف جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی ہی نہیں بلکہ دیگر ججز پر دباؤ کے حوالے سے بھی ذکر کیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس وقت جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی نے یہ معاملہ اٹھایا تھا اس دوران بھی یہ جج صاحبان اپنے منصب پر موجود تھے مگر اس وقت انہوں نے خط لکھنے کی زحمت نہیں کی اب اس معاملے کو کیوں اٹھایا گیا یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اداروں کے اندر مداخلت اور سیاست کے ذریعے من پسندفیصلوں کی حمایت کوئی بھی نہیں کرتا اداروں کو اپنے آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہئے کسی طرح بھی فریق بننا بلاواسطہ یہ بلواسطہ ادارے کی ساکھ کو متاثر کرتا ہے اور ساتھ ہی پورا نظام خرابی کی طرف جاتاہے جس پر ریاستی امور پر انتہائی منفی اثرات پڑتے ہیں۔ بہرحال اب ججز نے خط لکھ دیا ہے جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی کا کیس مکمل طور پر کھلا ہوا ہے اور ریکارڈ کا حصہ ہے انہوں نے یہ باتیں کھل کر کہیں تھیں جس کو عرصہ بیت گیا مگر جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی کے معاملے پر سپریم کورٹ نے جب ان کے الزامات اور ان کی ریٹائرمنٹ کے متعلق حق میں فیصلہ سنایا اور ان کی تمام مراعات بطور جج بحال کر دیئے تو اس پر چند سوالات یہ بھی اٹھے کہ جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی کو انصاف مکمل طور پر نہیں ملا، جو الزامات جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی نے بنچ فکسنگ کے متعلق لگائے تھے اس کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئیں یعنی ان کرداروں کو سامنے لانا چاہئے جنہوں نے یہ دباؤ ڈالا۔

یہ بات 6 ججز پہلے سے ہی جانتے تھے مگر اب المیہ یہ ہے کہ اس پر سیاست ہورہی ہے جس کا سب کو بخوبی علم ہے مگر قانونی داؤ پیج کے ذریعے اس پر ایک کھیل شروع کیا گیا ہے جس کی ایک جھلک بانی پی ٹی آئی کے اس بیان سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ سیاسی مقاصد کیلئے کیسے پینترے بدلے جارہے ہیں۔بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ ججز خط کی انکوائری کا آغاز شوکت صدیقی کیس سے کریں، جنرل فیض ہو یا کوئی اور تحقیقات ہونی چاہیے۔ اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ججز کو آواز اٹھانے پر سلیوٹ کرتا ہوں، امید کرتا ہوں کہ وہ ملک کو بچالیںگے۔ججز نے جو خط لکھا سب کو پتہ ہے رجیم چینج ہوئی یہ باتیں تب سے چل رہی ہیں، ججز ہمیں پیغامات دیتے تھے کہ وہ بے بس ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شوکت عزیزصدیقی نے جنرل فیض پر الزامات لگائے تھے۔ شوکت عزیز صدیقی کا کیس سپریم جوڈیشل کونسل میں گیا تھا اس لیے ہم خاموش رہے، جنرل (ر) فیض ہو یا کوئی اور تحقیقات ہونی چاہیے، ان کا کہنا تھا کہ جنرل (ر) باجوہ نے کہا تھا چپ نہ بیٹھے تو کیسز بنائے جائیں گے اور سزائیں ملیں گی۔ بہرحال اس خبر سے یہ نشان دہی ضرورہوئی ہے کہ لاڈلہ اپنے پورے دور میں مکمل خاموش رہا چونکہ اس وقت مکمل نظام اس کو سپورٹ کررہا تھا اب انکوائری کا مطالبہ محض سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور دباؤ ڈالنا ہے اس کے سواء کچھ نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے 6 ججز نے جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی سمیت دیگر ججز پر بھی دباؤ کا ذکر خط میں کیا ہے اب سماعت کے دوران ثبوت بھی پیش کرنے ہونگے دیکھنا یہ ہے کہ 6 ججز کتنے شواہد لے کر آئینگے جو جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی معاملے سے الگ ہوں گے۔ سوال جواب کا بڑا سیشن بھی چلے گا ججز خود کیس کی پیروی بھی کرینگے یا نہیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کیونکہ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنا کیس خود لڑا تھا اور اس کے بعد وہ سرخرو بھی ہوئے۔

6 ججز نے خط تو لکھ دیا ہے اب ٹھوس شواہد کے ساتھ انہیں اپنا مقدمہ بھی لڑنا ہوگا اور تمام الزامات کو حقائق کی بنیاد پر ثابت بھی کرنا ہوگا۔ جن ججز اوران کے اہل خانہ پر دباؤ تھا انہیں بھی سامنے آنا ہوگا کیونکہ بغیر ٹھوس شواہد کے فیصلہ تو نہیں آئے گا مگر ایک جماعت اس معاملے پر اپنی سیاست اور پروپیگنڈہ خوب کررہی ہے ۔پی ٹی آئی نے اپنے دور حکومت میں موجودہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس دائر کیا تھا اس وقت بانی پی ٹی آئی کو کوئی خوف نہیں تھا مگر ججز کے معاملے پر کیوں خاموش رہے یہ سب کے علم میں ہے چونکہ اس وقت مفادات کچھ اور تھے اور اب ان کے سیاسی مقاصد کچھ اور ہیں۔ لہذا اس معاملے پر سیاست نہ کی جائے حقیقی جمہوریت پسندی کے مستقل مزاجی کو اپنایا جائے تاکہ ماضی اور حال کے اعمال سے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔