|

وقتِ اشاعت :   April 5 – 2024

گوہر خان اور کمبر نے درہ سوہندہ میں مورچہ بندی کرکے پسند خان اور انگریزی فوج کی انتظار کرنے لگے ، کمبر درہ کے آس پاس کی جائزہ لینے کے لیے کمیپ سے نکل کر ایک تلار سے ہوتا ہوا پہاڑوں کے اندر چلاگیا ، اسے ایک گدان نظر آیا ، کمبر گدان کے قریب گیا ایک عورت گدان کے باہر روٹی پکارہی تھی کمبر کو دیکھ کر اٹھ کر سلام کیا اور گدان میں بٹھا دیا ، عورت نے مٹی کے برتن کو دودھ سے بھر کر کمبر کے سامنے رکھ دیا اور آنے کا سبب پوچھی ، کمبر نے کہا کہ اپنے دوستوں کے ساتھ شکار کے لیے آیا ہوں ، عورت زور زور سے ہنسنے لگی ، کمبر عورت کی ہنسی پہ حیران ہوگیا اور اس نے فورا ہنسنے کی وجہ پوچھا ، عورت نے کہا کہ انگریزوں نے میری کے قلعے اور بلوچوں کی وطن پہ قبضہ کرکھا ہے بلوچوں کے نوجوان شکار کیلئے اور خوبصورت عورتوں کی عشق میں گیت گھانے میں مصروف ہے ، تھوڈا خاموش ہوکر عورت نے دھیرے سے خود کلامی کرتی ہوئی کہا خدا غرق کرئے ان جھوٹے شاعروں کو جنہوں نے شے مرید و ہانی کے جھوٹے داستان بناکر ہمارے نوجوانوں کو چاکر اور نصیر خان جیسا بہادر بننے کے بجائے شئے مرید جیسا فقیر بنادیا یے ، ایک بکری کا بچہ تیزی سے چلانگ لگاتا ہوا گدان کے اندر داخل ہوکر کمبر کے سامنے رکھے دودھ کی برتن کو گرا کر دوسری طرف سے نکل گئی، عورت نے برتن کو پھر دودھ سے بھر کر کمبر کے سامنے رکھ دیا، کمبر خاموشی سے عورت کو حیرت زدہ نظروں سے دیکھ رہا تھا، عورت نے پھر کمبر سے گفتگو شروع کرتی ہوئی کہا ایک بہت بڑا غلطی والدین کا ہے وہ اپنے بچوں کو تاریخ نہیں سناتے اس لیے نوجوانوں کو معلوم نہیں کہ میری اور بلوچ ریاست کتنے نسلوں کی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہے اور اسے قائم رکھنے کے لیے کتنے نسلوں نے قربانی دیا ہے ، شام ہونے والا تھا پہاڑوں سے ریوڈ اترکر گدان کے قریب آنے لگے عورت نے بھیڑ بکریوں کو باندھنا شروع کردیا کمبر نے برتن اٹھا کر دودھ پی لیا اور عورت کو ریوڈ باندھنے میں مدد کیا ، کمبر نے عورت سے کہا میں نے لوگوں سے سنا ہے سردار گوہر خان نے انگریزوں کیخلاف بغاوت کردیا ہے اور انہی پہاڑوں میں میری اور بلوچ ریاست کی بحالی کے لیے جنگ لڑرہا ہے ، عورت نے تنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ سرداروں کی میری اور بلوچ ریاست کی حفاظت کے لیے جنگ ؟؟ اپ کا قصور نہیں ہے کیونکہ اپ نوجوان ہو اور تاریخ سے ناواقف ہو آج میری کی دیواریں اتنی کھوکلے ہوچکے ہیں اس کے زمیدار تمام بلوچ سردار ہیں ، جب تک یہ سردار اور ان کی دستار سلامت ہے نہ میری مستحکم رہے گا اور نہ بلوچ متحد ہوسکتے ہے ، گوہر خان میری کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنے سرداری کی غور کے لیے لڑرہا ہے اور پسند خان دستار کی حوص کے لیے انگریزوں کا غلام بن چکا ہے ، کمبر کو عورت کی باتیں اتنی مزہ دے رہا تھا کہ وہ چائتا تھا کہ عورت بولتی رہے اور وہ سنتا رہے ، شام ڈھل رہا تھا کمبر وہاں سے نکل کر پہاڑ کے چوٹی پہ چڑگیا، دور سے ایک بہت بڑا لشکر درہ کی طرف آتا ہوا نظر آیا کمبر سمجھ گیا کہ پسند خان کا لشکر ہے ، کمبر تیزی سے نیچے اتر کر گوہر خان کے پاس آگیا ، کمبر نے کہا کہ پسند خان کا لشکر آرہا ہے تعداد میں بہت زیادہ ہے ، تمام ساتھیوں کو اطلاح کردو کہ حالات جو بھی ہو مورچوں سے نہیں نکلنا ہے ہمیں دفاعی جنگ لڑنا ہوگا ، اندھیرا ہونے سے پہلے پسند خان اور انگریزوں کا لشکر درہ کے قریب پہنچ گیا ، پسند خان ایک اونچے جگہ پہ چڑھ کر زور زور سے گوہر خان کو آواز دے کر کہنے لگا ہم دونوں سگے بھائی ہے اور میں نہیں چائتا ہوں کہ اپ مارے جاو ہتھیار پھینک کر نیچھے آجاو میں وعدہ کرتا ہوں کہ انگریزوں سے آپ کو معافی دلاونگا ، گوہر خان نے جواب دیا ہے کہ معافی انگریزوں کو بلوچوں سے مانگنا چائیے کہ انہوں نے خان بلوچ کو گرفتار کرکے زبردستی ہمارے وطن پہ قابض رکھا ہیں ، تم اگر میرے سگے بھائی ہوتے تو آج وطن کی آبرو کے لیے لڑرہے ہوتے تم نے سرداری اور وظیفہ کے لیے اپنے وطن کو گروی رکھا ہے ، آنے والے نسلیں تمہیں غدار وطن کی نام سے یاد کرینگے ، پسند خان نے گوہر خان کی فراری مسلع ساتھیوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ اپ لوگوں کے لیے معافی ہے آج رات درہ سے اتر کر اپنے گھروں کو جاسکتے ہو یاد رکھو میرے ساتھ انگریزوں کی جرار لشکر ہے جنگ کی صورت میں تم میں سے کوہی بھی زندہ نہیں رے گا ، پسند خان کی دھمکی اور انگریزوں کی لشکر دیکھ فراریوں میں خوف پھیل گیا ، رات کو گوہر خان اور پسند خان کے کیمپوں میں گہرا اندھیرا تھا ، فائرنگ کی خوف سے کسی نے بھی روشنی کے لیے آگ نہیں جلایا ، اگلا صبح گوہر خان اور کمبر نے اپنے مورچوں کا جائزہ لیا تو خالی مورچے دیکھ انہیں بہت بڑا دھچکہ لگا رات کے اندھیرے میں گوہر خان کے چند ساتھیوں کے علاوہ باقی سب بھاگ چکے تھے ، کمبر نے کہا کہ ہمارے اکثر ساتھی بھاگ چکے ہیں اتنے کم تعداد میں پسند خان کی لشکر سے مقابلہ نہیں ہوسکتا ہمیں پیچھے پسپا ہونا پڑے گا ، ہم گزان جائے گے وہاں سے ہمیں مدد مل سکتا ہے ، گوہر خان ،کمبر اور یوسف اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ گزان کی طرف پسپا ہوگئے ، پسند خان نے گوہر خان کو پیچھے ہٹتا دیکھ کر تعاقب کرنا شروع کردیا، پسند خان نے بہت تیزی سے تعاقب کرکے زہری اور توتک کے درمیان گارماپ کے مقام میں گوہر خان کے قریب پہنچ گیا ، کمبر نے کہا کہ انگریزوں کی فوج بہت قریب پہنچ چکا ہے ہم گزان کی طرف مزید سفر نہیں کرسکتے ، ہمیں اسی جگہ مورچہ بند ہوکر رات تک دفاعی پوزیشن اپنانا ہوگا، اگر رات تک ہم اپنے مورچوں کو قائم رکھنے میں کامیاب ہوگئے تو اندھیرے میں ہم ہیاں سے نکل سکتے ہے ، گوہر خان نے دو مورچے آگے بنائے اس میں فراریوں کو تعینات کیا اور باقی مورچے پیچھے بنائے ایک میں گوہر خان ، یوسف اور کمبر ایک ساتھ تھے ، صوبیدار کرم خان نے تربیت یافتہ انگریز فوجیوں کو حکم دیا کہ گھٹنوں کے بل چلتے ہوئے گوہر خان کے مورچوں کے قریب پہنچ جاو اور کرم خان خود سپائیوں کے آگے تھا، مورچوں کے قریب پہنچ کر کرم خان نے انگریزی فوج کو حملے حکم دے دیا ، دونوں طرف شدید فائرنگ شروع ہوگیا ، انگریزی فوج جو تعداد میں بہت زیادہ تھے آگے بڑھ کر شدید حملہ کرتا رہا ، پسند خان اپنے مسلع ساتھیوں کے ساتھ کرم خان کی پلٹن کے پیچھے تھا ، انگریز فوجی باقاعدہ تربیت یافتہ سپائی تھے ، گوہر خان اور کمبر کی گمان سے زیادہ انگریزوں نے شدت سے خطرناک حملے کیے ،اسی لیے جنگ کے شروع میں گوہر خان کی مورچوں کی حالت بگڑگئی ، انگریز دستوں اور کرم خان نے حملوں کی شدت کو مزید تیز کردیا نتیجے میں گوہر خان کے سامنے والے مورچے ٹوٹ گئے ، کرم خان اور انگریز سپائی اب گوہر خان کی مورچے کے سامنے تھے ، گوہر خان ، یوسف اور کمبر نے کرم خان کی پلٹن پر شدت سے فائرنگ کررہے تھے ، گوہرخان نے کرم خان پر نشانہ لگایا ایک تیر سیدھا کرم خان کی منہ پر لگا اور کرم خان گرگئے ، کرم خان کی گرنے سے انگریز سپائی خودزدہ ہوکر پیچھے ہٹنے لگے ، لیکن کرم خان نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے فورا کھڑے ہوکر سپائیوں کو آواز دے کر کہا کہ آگے بڑھو ، سپائیوں نے کرم خان کو دیکھ کر پھر سے آگے بڑھ کر حملے شروع کردیے ، کرم خان نے پسند خان سے کہا گوہر خان کی مورچے کی پیچھے اونچا پہاڑ ہے اپ پیچھے سے جاکر اس پر چڑھ کر گوہر پر پیچھے سے حملہ کردو ، اس طرح دونوں طرف سے گھیر کر گوہر خان کو قابو کیا جاسکتا ہے ، پسند خان اپنے مسلع ساتھیوں کے ساتھ پہاڑ کی چوٹی پر چڑنے کے لیے روانہ ہوگیا، گوہر خان نے کمبر سے کہا کہ اب ہمارے شہادت کے وقت قریب آچکا ہے میں انگریزوں کو الجھاتا ہوں آپ کسی طرح کنارے سے نکل کر فرار ہوجاو، کمبر نے حیرت زدہ ہوکر کہا کہ اس حالت میں اپ کو چھوڈ کر میں کیسے فرار ہوسکتا ہوں ، میری اور بلوچ ریاست کو قائم رکھنے کے لیے میں بھی شہید ہونا چائتا ہوں ، اس طرح فیصلہ کن موڈ پہ فرار ہوکر میں خود کو تاریخ میں رسوا نہیں کرسکتا، گوہر خان نے کہا کہ اپ کو یاد نہیں ہے زہری میں پہلے حملے کے بعد میں نے اپ کو نصیحت کیا تھا کہ یہ جنگ اپ کو جاری رکھنا ہے ، صرف شہادتوں سے میری اور بلوچ ریاست قائم نہیں رہ سکتا ، میری اور بلوچ ریاست کو قائم رکھنے کے لیے جنگ کا جاری رکھنا بھی ضروری ہے ،اس وقت تمام سردار انگریزوں کے غلامی قبول کرچکے ہیں مزاحمت کو زندہ رکھنا کے لیے اپ کا زندہ رہنا ضروری ہے ، اور میرا جو مقصد تھا آج پورا ہورہا ہے ، میں زندگی بھر خدائیداد خان سے لڑتا رہا میری اور بلوچ ریاست کی بنیادیوں کو کھوکلا کرتا رہا آج میں اپنے اور اپنے بیٹے کی خون سے اپنے گناوں کو دھونا چائتا ہوں ، گوہر خان کی اسرار پر کمبر نے گوہر خان کی ہاتھوں کو بوسہ دے دیا اور گھٹنوں کے بل چل کر جھاڑیوں میں چھپتے ہوئے جنگ کے جگہ سے تھوڈے فاصلے پہ کسی بڑے پتھر کے پیچھے چپ کر جنگ کا نظارہ دیکھتا رہا ، پسند خان نے اپنے مسلع ساتھیوں کے ساتھ پیچھے سے پہاڑ کی چوٹی پہ چڑھ کر گوہر خان پر حملہ شروع کردیا ، پسند خان کی ایک گولی گوہر خان کے بندوق کی میگزین پہ لگا اور بندوق ناکارہ ہوگیا ، گوہر خان نے تلور نکال کر مورچہ سے کھود کر آنگریز سپائیوں کے طرف بڑھنے لگا یوسف نے بھی تلوار نکال کر آنگریزوں کی طرف بڑھنے لگا گولیوں کی بوچھاڈ سے گوہر خان اور یوسف دونوں وہی گرکر شہید ہوگئے ، کمبر دور سے گوہر خان اور یوسف کو شہید ہوتے دیکھ کر رونے لگا پہاڑوں سے اتر کر توتک کی طرف نکل گیا، پسند خان اور کرم خان نے انگریز سپائیوں نے ہوائی فائرنگ کرکے فتح کی جشن منایا ۔ (جاری ہے)