|

وقتِ اشاعت :   April 6 – 2024

رات کے وقت سمندر خان اور جان بی بی گھر میں بیٹھے تھے دروازے پہ دستک ہوئی ، سمندر خان نے دروازہ کھولا کمبر کھڑا تھا ، کمبر کو دیکھتے ہی سمندر خان کی آنسو نکل گئے اور شدت جزبات میں کمبر کو گلے لگاکر اندر لائے ، جان بی بی نے کمبر کی سر کو چھومنا شروع کردیا خود کو دعائیں دیتی رہی اور روتی رہی ، رات دیر تک جان بی بی کمبر سے باتیں کرتی رہی لیکن کمبر بالکل خاموش گم سم بیٹھا تھا ، اگلے صبح فجر کی نماز کے بعد سمندر خان کمبر کی کمرے میں گیا ، سمندر خان نے پوچھا کہ سردار گوہر خان زندہ سلامت تو ہے ؟؟ کیونکہ ہیاں سے پسند خان اور صوبیدار کرم خان کی قیادت میں بہت بڑا انگریزی فوج گوہرخان کیخلاف زہری روانہ ہوچکا تھا ، گوہر خان کا نام سن کر کمبر آبدیدہ ہوگئے اور نورگامہ کے پہلے حملے سے لے کر گوہر خان کی شہادت تک کے تمام واقعات سنادئیے ، سمندر خان نے کہا کہ اپ گوہر خان کی لشکر میں شامل تھے یہ راز کسی سے بیان نہیں کرنا کیونکہ محمود خان کے بندوں اور انگریزوں کو تمہاری گوہر خان کی لشکر میں شامل ہونے کی حوالے سے علم نہیں ہے ، میں نے ہیاں سب کو بتایا ہے کہ کمبر علی گڑھ پڑھنے کے لیے گیا ہے ، کمبر نے کہا کہ پسند خان کو میرے بارے میں علم ہے کیونکہ پہلے وہ بھی گوہر خان کی لشکر میں شامل تھا ، سمندر خان نے کہا کہ پسند خان سمجھتا ہوگا کہ تم بھی فراریوں کے ساتھ شہید ہوچکے ہو اور اگر اسے تمہارے زندہ ہونے کا معلوم بھی ہوجائے وہ کچھ نہیں کہے گا کیونکہ گوہر خان کا جنگ ختم ہوچکا ہے اور پسندخان سے میرے بہت اچھے تعلقات ہے وہ میرے خاطر اس حوالے سے خاموش رہے گا ، کچھ دنوں تک کمبر نے خاموشی سے گھر میں آرام کیا ، ایک دن سمندر خان اپنے گھر کے پھولوں کو پانی دے رہا تھا کمبر اس کے قریب جاکر پھولوں کو دیکھنے لگا سمندر خان نے کمبر کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے پھولوں اور ان کی موسموں کے بارے میں بات چیت شروع کردیا ، سمندر خان کی بات پورا نہیں ہوا تھا کہ کمبر نے پوچھا سرداروں اور خوانین قلات کے درمیان اتنے شدت کے دشمنی اور خانہ جنگی کیوں ہوا ہے ، سمندر خان نے پانی کا برتن رکھ دیا پھولوں کے قرب بیٹھ گیا اور کمبر کو بھی بیٹھنے کا اشارہ کردیا ، سمندر خان نے بتایا کہ قلات کی تخت کے لیے سردار شہیک رند اور میر عمر میروانی کی خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد میروانیوں اور بعد میں آحمدزیوں کی ابتدائی دور میں خوانین قلات اور سرداروں کے تعلقات بہت اچھے تھے دونوں میری اور بلوچ ریاست کی مفادات کے لیے متحد اور متفق تھے، خوانین قلات اور سرداروں کے درمیان یہ غلط فہیماں اور خانہ جنگی غیر ملکی افغانوں نے میری اور بلوچ ریاست کو غیر مستحکم کرنے کے لیے شروع کروائے تھے ، عبداللہ قہار کے بعد خاں محبت خان کے زمانے میں جب نوری نصیر خان آحمد شاہ ابدالی کے پاس نظر بند تھا اس دوران نصیر خان افغانوں سے بہت زیادہ قریب رہا ہے ، نصیر خان روزانہ ابدالی کے دربار میں جاتا تھا اور افغانوں کی سیاست اور حکومتی معاملات کو غور سے مشاہدہ کرتا تھا نصیر خان افغانوں کی طرز سیاست سے بہت زیادہ متاثر ہوا ، نصیر خان خان جب میری میں خان قلات کی حثیت سے تخت نشین ہوا تو قلات میں افغانوں کی طرز سیاست متعارف کروانے کے لیے اس نے اپنے دربار کے بڑے بڑے عہدوں میں افغانوں کو تعینات کرنا شروع کردیا ، سب سے پہلے اس نے غدار آخوند فتح محمد کو اپنے دربار میں بہت بڑا عہدہ دے دیا ، جب تک نصیر خان زندہ تھا یہ افغان میری کے وفادار تھے ، نصیر خان کی وفات کے بعد آخوند فتح محمد خان قلات محمود خان اول کے سرپرست منتخب ہوگیا ان غداروں نے اپنے سازشی منصوبوں پہ کام کرنا شروع کردیا ، نصیر خان کی طویل دور حکومت میں یہ افغان بلوچوں کے سماج میں گھس چکے تھے اور ان لوگوں نے بلوچ سرداروں سے رشتہ داری بھی کیے تھے ، سرسرداران ساراوان مہراللہ رہسانی اور سرسردار جھالاوان قادر بخش زرک زی دونوں آخوند فتح محمد کے داماد تھے ان دونوں کے ذریعے فتح محمد نے خان اور سرداروں کی درمیاں خانہ جنگی کی آگ بھڑکائی جو پھر کھبی نہ بجھ سکا ، آخوند فتح محمد کا بیٹا غدار اعظم ملا محمد حسن نے غداری اور نمک حرامی کے وہ کارنامے دکھائے کہ جعفر و صادق کی روحیں بھی شرما گئیں ، اسی غدار نے انگریزوں اور محراب خان کے درمیان غلط فہمی پیدا کرکے محراب خان کو شہید کروایا ، اگر یہ غدار اعظم اتنے سنگین سازش نہ کرتا تو شاید آج میری کی حالت اس طرح نہیں ہوتا ، ملا عبدالرحمن علی زی اور ان کا بیٹا عبدالرحمن جو محراب خان کی مشیر خاص تھے ان لوگوں کا کام صرف محراب خان کی دل میں شک اور غلط فہمی پیدا کروانا تھا ، آخوند صالح محمد یہ بھی قندھار سے محراب خان کی دربار میں آیا ، اس زلیل انسان نے نمک حرام شاہ شجاع المک کے ساتھ مل کر انگریزوں کے لیے محراب خان کی جاسوسی کیا ، ان غیر ملکی غداروں کی لگائی گئی غلط فہمیوں کی آگ میں خدائیداد خان کے زمانے میں پورا بلوچ ریاست خانہ جنگی میں جلتا رہا اور اسی حالت میں مکار انگریز بلوچستان میں داخل ہوگئے ، انگریزوں کی پالیسی بھی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی ہے لیکن انگریزوں کے لیے بلوچوں کے درمیان خانہ جنگی کی ماحول پہلے سے غدار آخوند فتح محمد ، ملا محمد حسن ، آخوند صالح محمد اور آخوند محمد صدیق نے تیار کیے تھے ، سنڈیمن دھیرے دھیرے اس اگ کو بھڑکاتا رہا خانہ جنگی سے مفلوج ہوکر خان خدائیداد خان اور سرداروں نے مل کر معاہدہ مستنگ میں بلوچ ریاست کو تشت میں سنڈیمن کے سامنے پیش کردیا ، خان خدائیداد خان کی گرفتاری کے بعد انگریز میری اور بلوچ ریاست پر مکمل طور پر قابض ہوگئے ، کمبر کو قلات آئے کافی دن ہوچکا تھا لیکن وہ گھر سے نہیں نکلتا تھا ، سمندرخان کمبر کی اس طرح گھر میں بیٹھ کر سوچوں خیالوں میں گم رہنے سے فکر مند تھا ،اسے پتا تھا کہ کمبر بچپن سے حساس ہے اور حساسیت بذات خود ایک رنج ہے ، رات کی کھانے کے بعد سمندر خان کمبر کی کمرے گیا ، سمندر خان نے کہا کہ تم پہلے ہی سانحے میں اتنے ٹوٹ چکے ہو اگے اور بھی سخت حالات آنے والے ہے ان کا مقابلہ کیسے کروگے ، کمبر نے سوالیہ نظروں سے سمندر خان کی طرف دیکھا ، سمندر خان نے کہا کہ پریشانی اور اداسی پہاڑ کی طرح ہے اگر اس کے اوپر چڑوگے تو اونچے مقام پر پہنچوگے اگر اس پہاڑ کو اپنے اوپر چڑاوگے تو دھنس کر ختم ہوجاوگے ، خوف اور وسوسے انسان کی ارادوں اور حوصلوں کو کمزور کرکے بزدل بنا دیتے ہے ، اداسی وسوسوں کی دلدل میں جانے کا پہلا سیڑھی ہے ایک بار انسان ان دلدلوں میں پھنس گیا پھر وہ اپنے ہر عمل اور ارادے کے حوالے سے مشکوک ہوجاتا ہے ، سمندر خان کی باتوں کے بعد اگلے دوپہر کو کمبر گھر سے نکل کر قلات کی گلیوں میں ٹہلتا رہا اور بار بار میری کی برجوں کو دیکھتا رہتا تھا، کمبر ٹہلتے ہوئے باغ کے سامنے پہنچ گیا اسے ماہ گنج یاد آگیا، کمبر نے کھڑے ہوکر ان دنوں کو یاد کیا جب وہ دنیا سے بے خبر صبح سے شام تک صرف ماہ گنج کو سوچتا رہتا تھا ، چند ہی وقتوں میں زندگی نے کتنے عجیب رنگ دکھا دئیے ، جنگ ، بندوق ، تڑپتے لاشیں ، گوہر خان کی مزاحمت اور پسند خان کی غداری ، کمبر آج باغ کے سامنے کھڑا تھا لیکن آج اس کے وجود پہ صرف ماہ گنج کا قبضہ نہیں تھا بلکہ دریا سندھ سے لے کر کوہ البرز تک بلوچ ریاست کے بحالی کی جنون اس کی دل و دماغ پہ چھایا ہوا تھا ، کمبر واپس موڈنے والا تھا کہ باغ سے ماہ گنج نکل گئی ، ماہ گنج کمبر کو دیکھ کر چونک گئی ، جو حالت پہلے ماہ گنج کو دیکھ کر کمبر کی ہوا کرتا تھا آج وہی حالت ماہ گنج کی ہورہی تھی ، ماہ گنج وہی کھڑی کمبر کو دیکھتی رہی ، ماہ گنج کی حالت ایسی تھی کہ وہ کسی بھی وقت چلا چلا کر کمبر سے سوال کرنا شروع کرتی کہ اتنے دنوں تک کہاں تھے، لیکن بلوچی رسم و رواج کی پابند ماہ گنج خاموش رہی اس کی آنکھوں سے انسو نکل گئی اور سر جھکاکر گھر کی طرف روانہ ہوگئی ، کمبر کو آج پہلی بار معلوم ہوگیا کہ جس شدت سے وہ ماہ گنج سے محبت کرتا ہے ماہ گنج بھی اسی جنون سے اسے محبت کرتی ہے ، کمبر پہلے ہر وقت اپنے دوستوں سے پوچھتا تھا کہ کیا ماہ گنج اس کا نام جانتی ہے یا نہیں ؟ کیا ماہ گنج کی زبان پہ کھبی کمبر نام آئی ہے یا نہیں ؟ اگر اس نے کمبر نام لیا ہے تو کس طرح لی ہوگی ؟ آج ماہ گنج کی آنکھوں میں اپنے لیے آنسو اور محبت دیکھ کر کمبر ایک بار پھر جزباتوں کی دنیا میں چلا گیا ، لیکن اگلے ہی لمحے فورا کمبر کو گارماپ میں گوہر خان اور فراریوں کی شہادت یاد آگیا، کمبر گوہر خان کی خون ، میری ، بلوچ ریاست کی حالت اور ماہ گنج کی محبت کی جزباتوں میں پھنس کر وہی کھڑے کافی دیر تک سوچتا رہا، وسوسوں اور منفی سوچوں کی یلغار نے کمبر کی بے چینی کو شدت سے بڑا دیا ، کمبر بے چینی کی حالت میں اٹھ کر گھر آگیا ، رات کو جان بی بی نے بہت منت سماجت کیا لیکن کمبر نے کھانا کھانے سے انکار کردیا ، سمندر خان فجر کی نماز پڑھنے کے بعد کمبر کے کمرے میں گیا اس نے کمبر کی آنکھوں کو دیکھ کر محسوس کیا کہ کل رات نہیں سویا ہے ، سمندر خان نے اس طرح طبیعیت بگھڑنے کی وجہ پوچھا ، کمبر نے آج کے ماہ گنج کی حالت اور اپنے تمام اندرونی جزبوں کو بیان کیا ، سمندر خان نے کہا کہ محبت ، شادی یہ سب انسان کی ضرورت ہے ان کا قوم اور وطن سے کوہی تعلق نہیں ، ہاں اگر انسان اپنے ضرورتوں اور خوائشوں کے لیے قومی مفادات کا سودا کرتا ہے تو یہ جرم ہے ، سمندر خان نے کمبر سے کہا اپنے چادر اھوڈ لو چلو تھوڈا باہر صبح کی ہوا میں چہل قدم کرتے ہیں ، سمندر خان اور کمبر آبادی سے نکل کر کھلے جگہ میں آگئے ، سمندر خان نے کہا کہ ہر جزبات دوسرے جزبات سے الگ ہوتا ہے ، آپ کی ماں اور ماہ گنج دونوں عورت ہیں اور تم دونوں سے محبت کرتے ہو ، لیکن ماں کی محبت اور ماہ گنج کی محبت میں بہت فرق ہے ، اسی طرح قوم اور وطن کی محبت اور زمیداری الگ ہے اور بیوی گھر بچوں کی محبت اور ذمہ داری الگ ہے ، ہر انسان کے اندر ایک اور انسان ہوتا ہے ایک روحانی انسان ہے ایک جسمانی ، روح اور جسم دونوں کی کچھ ضرورتیں ہوتی ہے روح چائتا ہے کہ اسے کوہی محبت کرے ، جب وہ دکھی اور غمگین ہو اسے تسلی دینے والا اور سننے والا ہو اور جسم کو خوراک کی ضرورت ہوتا ہے اپنے مخالف جنس یعنی عورت سے جسمانی ملاپ کی ضرورت ہوتا ہے ، روح اور جسم دونوں کی ضرورتوں کو پورا کرنا ضروری ہے ، جب تم بچے تھے میں نے تمہیں اپنا دوست بنالیا کیونکہ مجھے پتا تھا کہ ہر انسان کو ایک روحانی دوست کی ضرورت ہوتا ہے اور مجھے یہ خوف تھا کہ تم باہر کسی ایسے لڑکے کو دوست نہ بناو جو تمہارے زندگی کو خراب کرئے اسی لیے میں نے باپ کے بجائے تمہارے دوست بننے کا فیصلہ کرلیا تھا ، میں اپ کو ہر رات سونے سے پہلے بلوچوں کی تاریخ اس لیے سناتا تھا کہ مجھے یہ احساس تھا کہ تم زہین اور حساس ہو ، زہین لوگوں کے اندر جستجو ہوا کرتا ہے اس لیے میں نے تمہیں میری اور بلوچ وطن کی تاریخ سے مکمل آگاہی دیا تھا تاکہ کوہی دوسرا غلط علم سے تمہارے زہین پہ قبضے نہ کرے ، سورج قلات کی پہاڑوں سے اوپر آچکا تھا ، سمندر خان نے کہا چلو واپس گھر چلتے ہے تمہاری ماں پریشان ہورہی ہوگی ، واپسی پہ راستے میں سمندر خان نے کہا کہ ماہ گنج کی محبت کو وطن کی محبت سے الگ سمجھو ، ماہ گنج سے شادی کے بعد تم مزید مضبوط ہوگے کیونکہ تمہیں ایک روحانی ساتھی مل جائے گا ، تم اپنے ہر غم اور خوشی کو کھل کے ماہ گنج سے بیان کرسکتے ہو ، میں نے ماہ گنج کے حوالے سے مکمل معلومات لیا ہے وہ ہر حوالے سے اپ کے لیے بہتر ہے میں آج ہی جاکر ماہ گنج کی رشتہ مانگتا ہوں ، سمندر خان اور کمبر گھر میں داخل ہوگئے جان بی بی چاردیوالی میں بے چینی سے ٹہل رہی تھی ، سمندر خان نے جان بی بی سے کہا کہ میرے سب سے اچھے والے لباس کو صندوق سے نکالو ، جان بی بی نے حیران ہوکر پوچھی خیر تو ہے کسی سفر پہ جارہے ہو ، سمندر خان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ اپ کیا چائتے ہو میں ماہ گنج کی گھر رشتہ مانگنے اسی حالت میں جاوں ، سمندر خان ، جان بی بی اور کمبر ہنس پڑے ، ماہ گنج کے گھر والوں نے خوشی سے ہاں کہہ دیا اور ایک ہفتے میں شادی کی تاریخ بھی طے ہوگیا ، سمندر خان نے کہا کہ میں شادی کے کھانے کی دعوت میں تمام سرداروں ،معتبرین اور میری کے دربار کے عہداداروں کو بھی دعوت دوں گا، کمبر نے کہا کہ میں کچھ دنوں پہلے گوہر خان کو شہید ہوتا دیکھ کر آیا ہوں ابھی گوہر خان کی قبر کی مٹی خشک نہیں ہوئے اور میں جشن مناوں یہ مناسب عمل نہیں ہے ، سمندر خان نے کمبر کی بات مان لیا اور سادگی سے ایک رات مولوی کو بلا کر نکاح پڑھ لیا ، سمندر خان کمبر کو اس کمرے میں لے گیا جہاں ماہ گنج ارمانوں کی سیج میں بیٹھا کمبر کی انتظار کررہی تھی ، کمبر کمرے میں داخل ہوگیا دو رکوات نفل پڑھنے کے بعد ماہ گنج کے قریب بیٹھ گیا ، ماہ گنج کی چہرے پہ دوپٹہ اوڑھ ہوا تھا سر جھکائے بیٹھی ہوئی تھی، کمبر کو یقین ہی نہیں ہورہا تھا کہ ماہ گنج اس کے اتنے قریب بیٹھی ہوئی ہے ، کمبر نے خود کو قریب کرکے ماہ گنج کی دوپٹہ اٹھالیا ، ماہ گنج کی دل زور زور سے دھڑک رہی تھی ہاتھ کانپ رہے تھے ، کمبر نے محسوس کرلیا کہ ماہ گنج بہت خوفزدہ ہے ، کمبر نے ماہ گنج کی خوف دور کرنے کے لیے باتیں کرنا شروع کردیا، پہلے ماہ گنج سر ہلا کر ہاں اور ناں میں جواب دیتی رہی پھر تھوڑا خوف ختم ہوا ماہ گنج نے بات کرنا شروع کردیے، کمبر نے پہلی بار ماہ گنج کی آواز سنی ، چند ہی لمحوں میں ماہ گنج اور کمبر ایسے بے جھجک ہوگئے جیسے سالوں سے ایک دوسرے کے ساتھ تھے ، ماہ گنج نے کمبر کو چھیڑتی ہوئی پوچھی کہ سنا ہے آپ پڑاھی کے ڈر سے علی گڑھ سے فرار ہوکر آئے ہو ، کمبر نے سنجیدہ ہوکر جواب دیا کہ ہمارے درمیان کوہی بات پوشیدہ نہیں ہونا چائیے دراصل میں سردار گوہر خان زرک زی کے فراری لشکر میں شامل ہوگیا تھا ، پھر کمبر نے نورگامہ کے پہلے حملے سے لے کر گوہر خان کی شہادت تک تمام واقعات سنادئیے ، ماہ گنج گوہر خان کی شہادت کی بات پہ آبدیدہ ہوگئے ، ماہ گنج نے کہا کہ پہلے میں صرف ایک خوبصورت مرد کمبر سے محبت کرتی تھی اب مجھے فخر ہے میں ایک ایسے مرد کی بیوی ہوں جس نے میری اور بلوچ ریاست کی بحالی کے لیے دنیا کے طاقتور ترین فوج سے لڑائی لڑا ہے، رات ڈھل رہی تھی کمبر نے ماہ گنج کے کان ، ناک اور ماتھے کے سارے زیور اتھار دئیے ، کمبر اور ماہ گنج ایک دوسرے کے اتنے قریب ہوگئے کہ تمام فاصلے مٹ گئے، قلات کی مدھوش کردینے والے موسم میں احساس کی گرمی سے دونوں کی جسم لطف اندوز ہوتے رہے، جس ماہ گنج کو دور سے ایک نظر دیکھنے کے لیے کمبر ترستی تھی آج وہی ماہ گنج کھلی کتاب کی طرح کمبر کے سامنے پڑی ہوئی تھی نہ کوہی پردہ تھا ، نہ کوہی پابندی۔ (جاری ہے)