|

وقتِ اشاعت :   April 16 – 2024

کمبر تیزی سے سفر کرتے ہوئے سامی پہنچ گیا ،قلعے کے قریب بہت رش کش تھا ، طویل سفر کی وجہ سے کمبر کی مشکیزے کے پانی ختم ہوچکے تھے ، مشکیزہ بھرنے کے لیے کجھوروں کے باغ میں گیا وہاں کچھ خادم کام کررہے تھے ، کمبر نے خادموں سے سلام و دعا کرکے جوہڑ سے مشکیزے بھر لیا اور خادموں سے پوچھا کہ قلعے کے پاس رش کش کیوں ہے ، خادم نے جواب دیا محراب خان آیا ہوا ہے ، کمبر نے چونک کر فورا سوال کیا محراب خان گچکی آیا ہوا ہے ؟؟ خادم نے کہا کہ نہیں یہ بلیدہ والا محراب خان نوشیروانی ہے سردار محمد حسن گچکی کا گہرا دوست ہے پنجگور پر حملے کے وقت سردار محمد حسن کے ساتھ تھا ، کمبر گھوڈے پہ سوار ہوکر تربت کی طرف روانہ ہوا، تربت میں داخل ہوتے ہی دور سے میری قلعہ دکھائی دے رہا تھا ، کمبر آہستہ آہستہ میری کے طرف روانہ ہوا ، قلعے کے قریب پہنچ کر دیکھا کہ ہر طرف سے خادموں کی آمدورفت ہیں ، قلعے کو دیکھ کر کمبر ملک دینار گچکی اور نادرشاہ افشار کی جنگ کے دور میں چلا گیا ، وہ منظر کمبر کی آنکھوں کے سامنے تھا جب ملک دینار نے مکرانی بلوچوں کے ساتھ شہنشاہ ایران کے خلاف مزاحمت کیا تھا ، کمبر ماضی کے خیالوں میں تھا کہ مکران لیوی کور کے گھوڈ سواروں نے چاروں طرف سے گھیر لیا ، گھوڈ سوار کماندار نے پوچھا کون ہو ، کہاں سے آئے ہو ، کمبر نے کہا کہ میں سردار شئے عمر سے ملنے آیا ہوں ، کماندار نے سپائیوں کو حکم دیا کہ اس کے بندوق اور تلوار چھین لو اور اسے نائب عبدالکریم کے پاس لے جاو ، سپائی کمبر کو قلعے کے اندر لے گئے نائب عبدالکریم گچکی ، شئے قاسم گچکی بیٹھے گفتگو کررہے تھے سپائی نے کمبر کو عبدالکریم کے سامنے پیش کیا، عبدالکریم نے کمبر کو دیکھ کر سپائیوں سے پوچھا کون ہے ، سپائیوں نے بتایا کہ اجنبی ہے مسلع ہوکر قلعے کے قریب گھوم رہا تھا ، عبدالکریم نے سوالیہ نظروں سے کمبر کو دیکھا ، کمبر نے کہا کہ قلات سے آیا ہوں سمندر خان کا بیٹا ہوں ، سمندر خان کا نام سن کر عبدالکریم نے اٹھ کر کمبر کو گلے لگایا اور سپائیوں کی اس حرکت پہ معزرت کرکے کہا کہ مکران کے حالات بہت خراب ہے اس لیے ہر مشکوک شخص کو گرفتار کیا جاتا ہے ، عبدالکریم نے کمبر کی بندوق اور تلوار واپس کردیا، عبدالکریم کمبر کو بلوچی حال وحوال کررہا تھا کہ ناظم مکران دیوان اڈھوداس وہاں آگیا ، دیوان نے دیکھا کہ اجنبی شخص بیٹھا ہے اس نے کمبر کو گھورنا شروع کیا تو عبدالکریم نے کہا کہ قلات کے قدیم وفادار سمندر خان کا بیٹا ہے ، عبدالکریم نے دیوان سے پوچھا کہ آپ نے اچانک ہمیں بلایا ہے خیر تو ہے ، دیوان نے کہا کہ اپ اور شئے قاسم فورا ناصر آباد جاو وہاں رند اور آسکانیوں کے درمیان کچھ تضادات ہوئے ہیں انہیں حل کردو ، نائب عبدالکریم اور شئے قاسم قلعے سے نکل کر ناصرآباد کی طرف روانہ ہوگئے اور کمبر کو ایک سپائی کے ساتھ سردار شئے عمر کے پاس شاہی تمپ بھیج دیا ، شاہی تمپ پہنچ کر کمبر کو خادموں نے مہمان خانے میں بٹادیا دیا ، شاہی مہمان خانہ بلکل سنسان تھا ، سفر کی تھکاوٹ کی وجہ سے کمبر نے لیٹنے کا ارادہ کیا کہ ایک خادم نے اطلاح دیاکہ سردار شئے عمر آرہا ہے ، کمبر سیدھا ہوکر بیٹھ گیا سردار کمرے میں داخل ہوا ، بلوچی سلام و دعا کے بعد کمبر نے اپنا تعارف کروایا ، شئے عمر اتنا شدید پریشان تھا کہ اس نے کمبر میں بلکل دلچسپی نہیں لیا آنکھیں خشک اور اداس تھے ، طبیعیت میں بے چینی اور اعصاب میں خوف چھایا ہوا تھا ، شئے عمر سوچوں میں گم کافی دیر تک خاموش بیٹھا رہا کمبر نے خاموشی ختم کرنے کے لیے شئے عمر سے پوچھا کہ سنا ہے مکران کی حالت بہت خراب ہے ، شئے عمر نے اداس نظروں سے کمبر کی طرف دیکھا اس سے پہلے کہ شئے عمر اپنا دل خالی کرتا مہمان خانے کی باہر گھوڈوں کی قدموں کی آوازوں نے دونوں کی توجہ اس طرف کردیا ، ایک خادم نے دھوڈتے ہوئے آکر کہا محراب خان آگیا ، شئے عمر اور کمبر دونوں کھڑے ہوگئے ، اگلے ہی لمحے اونچے قد کے رعب دار شخصیت کے مالک محراب خان مہمان خانے میں داخل ہوگیا، سلام و دعا کے بغیر شئے عمر نے احتجاجا کہا کہ تجھے غوث پاک کا واسطہ یہ بغاوت کے ارادے ترک کردو ہمارا یہ خاندانی ستار سمیت پورا مکران تباہ و برباد ہوگا ، ہم انگریزوں سے لڑنے کی قابل نہیں ہے ، قلات ، بیلہ ، خاران سب نے انگریزوں کی اطاعت قبول کرلیا ہے ہمیں دیوان کے ماتحت ہوکر سرداری کرنا ہے ، محراب خان نے جواب دیا غوث پاک کی مدد سے ہم مکران کو انگریزوں اور اس منحوس دیودان اڈھوداس کی نحوسیت سے جلد آزاد کرنے والے ہیں ، پورا مکران اس وقت کوشکلات میں میرے کیمپ میں جمع ہے میں آپ کو اطلاح کرنے آیا ہوں کہ شاہی تمپ سے باہر نہیں نکلنا ہم بہت جلد بغاوت کرنے والے ہے ، یہ کہہ کر محراب خان مہمان خانے سے نکل گیا، شئے عمر سکتہ کی عالم میں محراب خان کو جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا ، شئے عمر کی چہرے پہ خوف کی آثار بڑھنے لگے وہ مہمان خانے سے نکل کر اپنے محل کی طرف گیا ، محراب خان کی باتوں کے دوران کمبر کو محراب خان کی کیمپ کا پتا چل گیا کوشکلات میں ہے ، کمبر نے ارادہ کیا کہ اندھیرا ہوتے ہی ہیاں نکل جاوں گا ، سورج ڈوبنے کے بعد کمبر اپنے گھوڈے پہ سوار ہوکر کوشکلات کی طرف روانہ ہوگیا ، محراب خان اپنے لشکر کے درمیان میں بیٹھا تھا کہ کمبر وہاں پہنچ گیا ، محراب خان نے دیکھ کر پہچان لیا کہ شئے عمر کا مہمان ہے ، جسے آج شاہی مہمان خانے میں دیکھا تھا ، محراب خان نے کمبر کا استقبال کیا اور اسے اکیلے کمرے میں لے گیا کہ شاید شئے عمر کا کوئی پیغام لایا ہے ، کمبر نے اپنا تعارف کیا اور آپنے آنے کا ارادہ بتا دیا ، محراب خان نے خوش ہوکر کمبر کو گلے لگایا اور سپائیوں کو بکری زبع کرنے اور دعوت کی انتظام کرنے کا حکم دے دیا ، کمبر نے پوچھا کہ میر بلوچ خان نوشیروانی کہا ہے ، محراب خان نے کہا بلوچ خان کو انگریزوں نے ناگ کے قلعے اور بھٹ کے قلعے سے بے دخل کردیا ہے، بھٹ کے قلعے کو محمد اعظم بلیدی کے حوالے کیا گیا ہے ، اور کولواہ کی نائبی بھی بلوچ خان سے چھین کر محمد عمر نوشیروانی کو دے دیا ہے ، میں نے بلوچ خان کو خط لکھ دیا ہے کہ آجاو اس ظل کیخلاف مشترکہ جنگ لڑتے ہیں ، اتحاد سے ہمارا کامیابی ممکن ہے ، بلوچ خان کی طرف سے آبھی تک جواب نہیں آیا ہے لیکن مجھے امید ہے بہت جلد ہمارے ساتھ شامل ہوجائے گا ، خادموں نے بلوچی سجی بنائے کمبر اور محراب خان نے مل کر کھانا کھایا ، محراب خان اور کمبر ایک پرانے طرز کے کمرے بیٹھے تھے درمیان میں اگ جل رہا تھا ، آگ کی شعلوں سے کمبر اور محراب خان ایک دوسرے کو دیکھ کر باتیں کررہے تھے ، کمبر نے پوچھا کہ اپ کے بغاوت کی اسباب کیا ہے ، محراب خان نے کہا کہ نوری نصیر خان کی زمانے سے مکران کی مالیات کا ادھا حصہ خان قلات اور آدھا گچکی سرداروں کا ہوا کرتا تھا خان قلات کے نائب بھی تربت میں موجود ہوتا تھا خاص کر نائب فقیر محمود بزنجو کا دور مکران اور قلات کی تعلقات کا سنہرا دور تھا ، انگریزوں نے خان کے نائب کے بجائے دیوان اڈھوداس کو مکران کا ناظم بنایا ہے اس نے مالیات کے ساتھ ہمارے کجھوروں پر نقد رقم کی صورت میں مالیات مقرر کیا ہے اس سے ہمارے کسانوں کی کمر تھوڈ دیا ہے ، دیوان نے ہر طرح سے ظلم کے بازار گرم رکھا ہے ، انگریزوں نے مکران لیوی کور تشکیل دیا ہے جو ہمارے مالیات سے تنخواہ لیتے ہیں اور ہمارے خلاف استعمال ہورہا ہے ، میرے والد سردار شئے بائیان نے اپنے زندگی میں مجھے اپنا جانشین منتخب کیا تھا لیکن سنڈیمن نے مداخلت کرکے میرے جگہ میرے بڑے بھائی شئے عمر کو سردار بنایا کیونکہ وہ ایک کمزور انسان ہے سرداری کا اہل نہیں ہے تاکہ پورا نظام انگریز اپنے طرح چلائے ، میر شہداد گچکی نے انگریزوں کی ایک اہلکار پہ حملہ کرکے فارس فرار ہوا تھا انگریزوں نے میرے زمیداری پہ معاف دینے کا وعدہ کیا تھا میں نے میر شہداد کو واپس بلایا انگریزوں نے وعدہ خلافی کرکے اسے گرفتار کرلیا، ناصر آباد کا قلعہ جو میرا زاتی ملکیت ہے انگریزوں نے اسے شیر محمد گچکی کے حوالے کیا ہے ، کمبر نے پوچھا کہ بغاوت کیسے اور کہاں سے شروع کرنا ہے ، محراب خان نے کہا کہ کل ہم حملہ کرکے دیوان کو قتل کرنے کے بعد قلعے پر قبضے کرینگے۔ (جاری ہے)