|

وقتِ اشاعت :   April 24 – 2024

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے پہلی دہائی کے دوران سول انتظامیہ کی معاونت سے اور پھر بعد میں اسٹیبلشمنٹ پرست اورعوام دشمن شخصیات یا سیاسی پارٹیوں کے تعاون سے اختیارات پر براہِ راست قابض ہو کر پاکستان کے عوام پر حکمرانی کی ہے جو موجودہ دور تک مختلف شکل میں ملک کے عوام پر مسلط ہے۔ البتہ موجودہ صدی کی انفرادیت اور پھر برق رفتار تغیراتی خاصیت سمیت آمریت مخالف رجحانات کے اْبھار اور اْٹھان کے سبب لگتا نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اِس سلسلے کومزید لمبے عرصہ تک قائم رکھ سکے گی۔
سقوطِ بنگال کے بعد آبادی میں اکثریت کی جواز پر پنجاب کو ملک کے محکوم اقوام کی بہ نسبت اقتدار اور اختیارات پر تصرف اور تسلط کی بنیاد پر اگر اسٹیبلشمنٹ کا سہولت کار قرار دے کر الگ یا ایک طرف رکھ کر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو اْس زمانے میں چھوٹی اکائیوں یا محکوم اقوام کے چند سرکش قائدین اور بگڑے ہوئے عوام روز اوّل سے سیاست ، معیشت ، کاروبار اور حکومتی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت اور بارہا کی غیر جمہوری حرکات اور دراندازیوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے رہے ہیں مگر 2018 ء سے اب تک گزشتہ دو انتخابات کے نتائج نے اِس حقیقت کو جَلوہ گِری کی حد تک افشاں کر دیا ہے کہ روانیِ وقت کی تاثیر سے متاثر ہونے کے سبب پنجاب کے عوام میں بھی سْست روی کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ مخالف خیالات نوجوان نسل کی پرورش کے ساتھ دھیرے دھیرے لیکن بتدریج جڑ پکڑتی جا رہی ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے غیر جمہوری طرز عمل اور مداخلت کاریوں کو پسند کی نظروں سے دیکھنے کے برخلاف بیزاری اور بیگانگی ظاہر کر رہے ہیں ۔اس سلسلے میں ہم مشاہدہ کر کے دیکھ سکتے ہیں کہ 2018 ء کے الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کی اگرچہ خواہش تھی کہ تحریک انصاف کے امیدوار کامیاب ہو کر اقتدار کی باگ ڈور سنبھال لیں مگر انتخابات میں ملک کی اکثریتی اکائی پنجاب کے عوام نے اسٹیبلشمنٹ کی منشا کے برعکس عملاًنواز لیگ کا ساتھ دیا گو کہ اس دوران 2014 ء￿ سے بلکہ اِس سے دو تین سال پہلے باقاعدہ منظم منصوبہ بندی سے پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے نواز لیگ کے خلاف سخت ترین مہم چلائی گئی۔ نواز لیگ اور پی پی کے قائدین کو چور اور ڈاکوؤں کے القابات سے نواز کر بدنام کرنے کی کوشش کی گئی لیکن پنجاب کے عوام نے لیگی نمائندوں کی رسوائی کے اِس منظم اور متواتر مہم کو یکسر مسترد کر کے نواز لیگ کے امیدواروں کو ووٹ دے کر کامیابی دلائی ۔یہاں پر یہ ایک الگ بحث ہے کہ مقتدرہ نے اپنی شکست بلکہ خِفت چْھپانے کے لیئے آر ٹی ایس بند کر کے ٹپّہ ماری کے ذریعے پی ٹی آئی کے اْمیدواروں کے حق میں انتخابی نتائج کو تبدیل کر کے نواز لیگ کے اْمیدواروں کو نہ صرف ہروایا بلکہ پارٹی سے ہی توڑ کر تحریک انصاف کے امیدواروں کو کامیابی دِلاتے ہوئے سیاہ و سفید کا مالک بنا کر جبراًملک کی سیاسی اقتدار پر مسلط کر دیا ” پنجاب میں عوام کی جانب سے اِس قسم کی تاریخی پذیرائی اور انتخابی کامیابی حاصل کرنے کے بعد گزشتہ انتخابات میں نواز لیگ کی ،جبکہ پارٹی نے شہباز گروپ کی فرمائش پر اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ ترک کر دیا ہے، پوزیشن قابلِ دید ہے جس میں باقی امیدواروں کو چھوڑ دیجیئے نواز شریف کی اپنی کامیابی تک مشکوک ہے”
عمران خان ماہر اور فرشتہ صفت اْستادوں کی تربیت کی بدولت لاڈلے بچّوں کی طرح سالہاسال تک دل میں دبے ہوئے بْغض اور حسد کے ساتھ اس مقام اور نکتے پر پہنچ گئے تھے کہ اْن کو حدود اور قیود کے بغیر انتقام گیری کے لیئے شاید ہر قسم کی چْوٹ اور تحفظ حاصل ہے اور وہ نواز شریف ، زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ ساتھ کسی کو کچھ بھی کہہ سکتے ہیں لہٰذا تربیت کی مذکورہ ترتیب اور بگاڑ کے سبب آگے چل کر تحریکِ انصاف کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی ” دل لگی” جب تناؤ ، تصادم اور محاذ آرائی پر منتج ہوئی تو موجودہ دور میں ماضی کی طرح مارشل لا لگانا چونکہ ممکن نہیں تھا اِس لیئے اِس دوران اسٹیبلشمنٹ نے ایک اور پروجیکٹ متعارف کروا کے سامنے لانے کی کوشش کی مگر پنجاب کے عوام خصوصاً مڈل کلاس اور لکھے پڑھے طبقے نے اس تازہ پروجیکٹ کو سراسر رد کر دیا تو 2024 ء کے الیکشن میں مقتدرہ نے بہ امرِ مجبوری نوازلیگ کو” باغیانہ فطرت رکھنے کے سبب نواز شریف کے بغیر اور شہباز شریف کی جی حضورانہ اور اسٹیبلشمنٹ پرست قیادت میں” دوبارہ آگے لانے کا فیصلہ کیا لیکن پنجاب کے لکھے پڑھے نوجوانوں اور مڈل کلاس نے مقتدرہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کے ردعمل میں اِس دفعہ شہباز شریف کی قیادت میں پنجاب کی کٹر قوم پرست لیگی نمائندوں کے مقابلے میں تحریک انصاف کے زیر عتاب آزاد امیدواروں کو ووٹ دے کر بڑی تعداد میں کامیابی دلا دی جس کے نتیجے میں تمام تر سخت گیریوں کے باوجود تحریک انصاف اکثریتی پارٹی کے طور پر سامنے آگئی ۔بظاہر اس غیرمتعلق تفصیل کو بیان کرنے سے مْدعا یہ ہے کہ معاشی ، سیاسی ، سماجی اور ادارتی معاملات کے متعلق علم و آگہی بڑھنے اور شعوری پیش رفت کے سبب ملک کے اقتدار اور اختیارات میں پنجاب کی شراکت داری کے باوجود پنجاب کے ہی تعلیم یافتہ نوجوان اور مڈل کلاس کے لوگ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بارہا کی تجربات ، اقتدار پر قبضہ گیریوں ، حکومت اور سیاست کے میدانوں میں مقتدرہ کی غیر قانونی دخل اندازیوں اور تسلط سے تنگ آ چکے ہیں۔ گزشتہ دو سال سے تحریک انصاف کے لوگ زیر عتاب ہیں مقتدرہ ان کو نو مئی کے واقعات کی ذمہ دار سمجھتی ہے لیکن اِس الزام کی صحت کو مشکوک قرار دے کر عمران خان کہتے ہیں کہ ان کے کارکنان نو مئی کے توڑ پھوڑ میں ملوث نہیں ہیں اور اگر ان کو ملوث سمجھا جاتا ہے تو قانون اور تفتیش کے تقاضوں کے مطابق ان کے سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے لا کر ان کے کارکنان کو ثبوتوں اور شواہد کے ساتھ مجرم ثابت کیا جائے۔غیرجانبدار یا حقیقت پسند مبصرین کہتے ہیں کہ مذکورہ واقعات کا ظہور اور ملک میں عدم برداشت اور کشیدگی کے ماحول سے ایک حقیقت کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ اب اسٹیبلشمنٹ کو اپنے دائرہِ کار میں رہ کر کام کرنے کے ساتھ ساتھ سمجھ لینا چاہیے کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے نوجوان ان کو مزید دیر تک ہر گز اجازت نہیں دیں گے کہ وہ سیاست سے لے کر معیشت اور کاروبار سمیت عوامی نوعیت کے اداروں میں مطلوبہ مہارت کے بغیر گْھس کر کلیدی عہدوں پر براجمان رہیں ۔اس کے برخلاف وہ اپنی پیشہ ورانہ شعبوں کے ساتھ منسلک ہو کر کام کریں تو یہ عمل قانون کے تقاضوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ خود ان کی نیک نامی، ذات اور ذمہ داریوں کی تکمیل کے لیئے بہتر ہے۔اس کے ساتھ ہی ان عناصر کو فہم اور ادراک رکھنا چاہیئے کہ اب ان کا سامنا ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں بلوچ فرزندوں سے نہیں ہے کہ جن پر شدید ترین سردی کے موسم میں پانی کی بارش کردی جائے ، جیل میں بند کر کے اذّیت دی جائے ، غیر ملکیوں کی طرح اسلام آباد سے نکال دیا جائے اور نہ ہی منظور پشتین کی سربراہی میں پشتون باشندوں سے ہے کہ جن پر بندش لگا کر اپنے ہی ملک میں آزادی کے ساتھ گھومنے پھرنے اور پْرامن احتجاجی تحریکوں میں شرکت سے روکا جائے یا پھر ان کی آواز سمیت ذات کو دبانا آسان رہے۔ اس کے برخلاف تحریک انصاف کے ان متحرک نوجوانوں کو دبانا جو ذمہ دار عناصر کے خلاف ملک کے اندر اور باہر سوشل میڈیا کے ذریعے سخت ترین مہم چلانے کے ساتھ ساتھ دنیا کو ان کی کرامات ” کارستانیوں” کے متعلق آگاہی دے رہے ہیں ، کھیل نہیں ہے نہ ہی تحریک انصاف کے کارکنان بلوچ اور پشتون اقوام کے کی طرح زیردست اور محکوم باشندے ہیں جن کو ملک کی روایات کے مطابق سرکش، باغی اور غدار قرار دے کر اذیت گاہوں میں بند کر کے تشدد کا نشانہ بنایا جائے یا پھر عشروں تک غائب کر دینا آسان رہے بلکہ پنجاب کے شیردل ، جوانسال اور متحرک باشندے ہیں جن پر تشدد کرنا تو دْور ہاتھ لگانا بھی آسان نہیں ہے ۔اس کے ساتھ ہی 2024ء کے انتخابات میں نتائج کی تبدیلیوں فارم 45 اور 47 کے شور اور قضیئے نے ثابت کر دیا ہے کہ مستقبل میں کم از کم پنجاب کی حد تک انوار الحق کاکڑ ، سرفراز بگٹی ، فیصل وائوڈا اور محسن نقوی طرز کے من پسند لوگوں کو پارٹیز میں دھکیل کر یا پھر آزاد امیدواروں کے طور پر سینٹ اور قومی یا صوبائی اسمبلیوں میں کامیاب کروا کے سامنے لانا آسان نہیں ہو گا۔ بعض مبصرین سوشل میڈیا پر مقتدرہ کو مفت میں مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ ادارتی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دیں اور حاکم بننے کی بجائے ملازم اور نوکر بن کر کام کرنا سیکھ لیں جو ان کی عزتِ نفس اور تحفظِ ذات کے لیئے مناسب ترین ہے۔