|

وقتِ اشاعت :   April 24 – 2024

ملک میں جب بھی معاشی حالات خراب ہوئے،

مالی بحران کا سامنا رہا، اس کا بوجھ عام لوگوں پر ہی ڈالا گیا ۔ہر چیز پر غریب عوام ہی ٹیکس دیتی آرہی ہے اور مہنگائی کا سارا بوجھ بھی عوام کے کاندھوں پر ہے، مہنگا پیٹرول، ڈیزل،بجلی گیس، روز مرہ کی اشیاء پر لاگو ٹیکس عوام کی جیب سے نکلتا ہے اشرافیہ کیلئے تمام تر سہولیات مفت دستیاب ہیں ۔یہ دہرے نظام کا حصہ ہے کسی حکومت نے آج تک عوام کو کوئی بڑا ریلیف فراہم نہیں کیا محض دعوے ہی کئے گئے ۔

اگر ہمارے ہاں ٹیکس نظام میں شفافیت ہوتی تو عوام متاثر نہیں ہوتا۔ المیہ ہے کہ بڑے صنعتکار، تاجر، سیاستدان اداروں سے جڑی شخصیات کی اکثریت ٹیکس نہیں دیتی مگر نظام سے بھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں، مہنگائی اور ٹیکس سے بری الذمہ ہیں۔ یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ معیشت کا تعلق حکومتوں سے نہیں ریاستی پالیسیوں سے ہے، حکومتیں اپنی مدت پوری کرکے چلی جاتی ہیں نظام چلتا رہتا ہے مگر نظام کو سمت اور ترتیب کس نے دینی ہے یقینا ریاست چلانے والوں نے ہی یہ سب کام کرنا ہے ،عوام ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندگان کواس لئے ایوان میں بھیجتے ہیں کہ ان کی مشکلات میں کمی آسکے۔

سات دہائیوں سے زیادہ عرصہ بیت گیا ابھی تک نظام میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ وفاقی وزیر خزانہ نے ٹیکس اور معیشت پر جو باتیں کی ہیں اسے بہتر کرنا بھی انہی کی ذمہ داری ہے۔وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ اب کوئی ایمنسٹی اسکیم نہیں آئے گی بلکہ لوگوں کو ٹیکس دینا ہو گا۔وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے دبئی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ معاشی اقدامات کا تعلق کسی حکومت سے نہیں بلکہ ملک سے ہے۔ جون تک زرمبادلہ کے ذخائر 9 سے 10 ارب ڈالر تک رہیں گے۔انہوں نے کہا کہ جولائی تک پی آئی اے پرائیوٹائز ہوجائے گی جبکہ اسلام آباد ائیرپورٹ کی نجکاری کے لیے ترکیہ اور یورپ سے بات جاری ہے۔ لاہور اور کراچی ائیرپورٹس کو بھی پرائیوٹائز کیا جائے گا۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ پاکستان کو فی الحال بین الاقوامی فنڈنگ کی کمی نہیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں ہمیں کامیابی بھی ملی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’ڈیجیٹل پاکستان‘‘ کے لیے عالمی بینک 10 سال تک سپورٹ کرنے کو تیار ہے۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم بین الاقوامی ادائیگیاں کامیابی سے کر رہے ہیں اور پاکستان پر عالمی اداروں کا اعتماد بحال ہوچکا ہے۔ اماراتی بینکس سے قلیل مدت کے لیے ٹریڈ فنائنس ملنے کی امید ہے۔

بہرحال ایمنسٹی اسکیم سے کس نے فائدہ اٹھایا اس کی فہرست بھی سامنے لائی جائے تا کہ پتہ چلے کہ کن شخصیات کو سہولت دی گئی یقینا وہی شخصیات ہوں گی جو نظام کو چلانے والوں میں شامل ہیں ،غریب عوام کو یہ سہولت کبھی فراہم نہیں کی گئی۔ دوسری بات معیشت حکومت کا نہیں ملک کا ہوتا ہے یہ سب جانتے ہیں کیا 10 یا 20 سالہ معاشی پالیسی کبھی لائی گئی تاکہ معیشت بہتر سمت میں بڑھ سکے کوئی بھی حکومت آئے اور جائے نظام کے اندر چھیڑ چھاڑ نہ کرے۔ افسوس ہمارے ہاں ہمیشہ سیاسی مفادات قومی ترجیحات پر حاوی ر ہے ہیں۔

سیاسی عدم استحکام، انتقامی سیاست نے ملکی معیشت کو تباہ کیا ہے تاریخ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے موجودہ حکومت ہی اس کا آغاز کرے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملکر ایک مستقل معاشی پالیسی مرتب کرے جو سیاست کی نظر نہ ہو۔ بہرحال اداروں کی نجکاری ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے مگر اس کا کتنا فائدہ ہوا ہے یہ بھی ریکارڈ پر لانے کی ضرورت ہے۔ پرائیویٹ ادارے بھی استحصال کرتے ہیں کیونکہ نظام کمزور ہے جب عالمی سطح کے تحت معاشی پالیسی بنائی جاتی ہے تو قوانین بھی اسی طرز پر لاگو ہونے چاہئیں جس سے ریاست کو فائدہ پہنچے کمپنیوں کو نہیں۔ بہرحال جب تک نظام کے اندر خامیوں کو دور نہیں کیا جائے گا سیاست پر ریاست کو ترجیح نہیں دی جائے گی ملک مسائل کا شکار رہے گا لہذا نظام کے اندر موجود خامیوں کو دور کرنے پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے تب جاکر معیشت اور سیاست دونوں بہتر انداز سے چل سکیں گے۔