|

وقتِ اشاعت :   April 27 – 2024

مجھے نہیں معلوم کہ جو قدیم شاعری ہم تک پہنچی ہے یا تاریخ کی جو کتابیں ہم پڑھتے ہے کس حد تک مستند ہے۔میں یہ سْوچ کر حیران ہوجاتا ہوں کہ اکیسویں صدی میں جب میڈیا اور سْوچ کی آزادی اپنے عروج پر پہنچ چکاہے اس کے باوجود کوئی بھی تجزیہ نگار اور مصنف مکمل حقیقت بیان کرنے اور لکھنے کی جرات نہیں کرسکتا تو قدیم زمانے میں بنائے گئے اشعار اور تصنیفات کس حد تک مستند ہوسکتے ہے ۔کسی بھی قوم کے وجود اس کی تاریخ ثقافت اور زبان میں ہے اگر یہ تینوں اکائی ختم کرکے اپنی تاریخ ثقافت اور زبان مسلط کی جائے تو وہ قوم خود بخود غالب قوم میں ضم ہوجاتی ہے ۔سلطنتوں اور قابضین نے ماضی میں اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے بہت سے مقبوضہ قوموں کو اپنے قوم میں ضم کردیئے تھے جو آج اپنا تاریخ ، ثقافت اور زبان بھول کر صفہ ہستی سے مٹ چکی ہے۔بلوچوں کے چالیس قبائل شام اور حلب سے ہجرت کی۔ اشعار میں اس زمانے کی کس حد تک سامراجوں کی سیاسی مداخلت تھی ؟ یہ معلوم نہیں ہے میں ان اشعار کو مکمل طور پر رد نہیں کرسکتا لیکن مکمل طور پر متفق بھی نہیں ہوسکتا۔ جب عرب لشکروں نے مشرق وسطی، وسطی ایشیاء اور افریکہ کو فتح کرکے ساحل مکْران اور سندھ تک پہنچ گئے تھے ۔ان مقبوضہ خطوں میں اکثر ممالک آج خود کو عرب قومیت سے منسلک کرتے ہیں۔ کیا یہ سب عرب ہیں، اگر یہ عرب ہے تو عرب فاتحین سے پہلے یہاں کے قدیم قومیں کہاں گئے؟ یا یہ وہی قدیم قومیں ہے جو اپنے تاریخ ، ثقافت اور زبان کو ختم کرکے عرب تاریخ ثقافت اور زبان اپنا کر اپنا اصل وجود ختم کرچکے ہے ؟ اگر آج کوہی قدیم مصری کو عرب کہتا ہے تو یہ مضحکہ خیزی کے سوا کچھ بھی نہیں ، ایک مصری آج اپنی زبان کے بجائے عربی زبان بولتا ہے قدیم فرعونوں کے بجائے عرب فاتحین کی تاریخ کو اپنا تاریخ سمجھتے ہیں لیکن حقیقت یہ نہیں ہے کچھ سال پہلے مصر میں ڈی این اے ٹیسٹ سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ مصری عرب نسل سے الگ نسل ہے اور ہزاروں سالوں سے کھڑے عظیم فرعونوں کی اہراموں سے بڑے کوہی ثبوت نہیں ہے خود تمام ابراھیمی آسمانی کتابیں مصر کی فرعونوں کی تاریخ سے بھرے پڑے ہے ۔
دراصل عرب حکمرانوں نے اپنے اقتدار مضبوط کرنے کے لیے ان قوموں کی زبان ، ثقافت اور تارخ ختم کرکے انہیں عرب قومیت میں ضم کردیے تھے فارس نے اپنا الگ وجود محفوظ کرنے کے لیے ڈپلومیسی سے کام لیا عرب مسلمانوں کی سْنی فرقے سے تعلق رکھتے تھے فارس نے مسلمانوں کا شیعہ فرقہ اختیار کرکے خود کو عرب قومیت میں ضم ہونے سے محفوظ کرلیے تھے کیونکہ دونوں عرب سلطنتیں بنو اْمیہ اور بنو عباس سنی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔
عرب حکمرانوں نے بلوچوں کو عرب قومیت میں ضم کرنے کی بھرپور کوشش کئے تھے لیکن ایرانیوں کی طرح بلوچ بھی خود کو عرب قومیت میں ضم ہونے سے محفوظ کرنے میں کامیاب ضرور ہوگئے تھے لیکن ایک حد تک متاثر ہوئے تھے جو اس زمانے کے اشعار میں عرب قومیت شام اور حلب سے عربوں کی اندرونی مساہل کی وجہ سے خود کو عربوں کی اپوزیشن کیمپ سے منسلک کرکے ہجرت کو بیان کیے گئے ہیں۔ اس کے باوجود بلوچ عرب قومیت میں ضم ہونے سے خود کو محفوظ کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے اس کے وجوہات بلوچوں میں مضبوط قومی جزبات ہوسکتے ہے ۔قدیم فارس نے اپنے عروج کے زمانے میں بلوچوں کو فارسی قوم میں ضم کرنے کے لیے ڈپلومیسی کا راستہ اختیار کیا اْنہیں پتا تھا کہ ازل سے بلوچ اور فارسی ایک دوسرے کیخلاف برسرے پیکار ہونے کی وجہ سے بلوچ کسی بھی صورت میں فارسی قومیت میں ضم نہیں ہوسکتے اور بلوچ خود فارسیوں کے نسبت نسلی حوالے سے برتر سمجھتے ہے تو فارس نے آریائی نسل کی مفروضے کو حربے کے طور پر استعمال کیا کہ ہم سب مشترکہ طور پر آرین نسل سے تعلق رکھتے ہے اور آج تک بہت سے بلوچ دانشور اس جعلی مفروضے سے متاثر ہے کہ بلوچ آرین ہے۔ سردار عطاء اللہ مینگل نے مغربی میڈیا کی طرف سے عرب قومیت کے سوال کو رد کرتے ہو ئے کہا تھا کہ ہم عرب نہیں۔ آرین نسل سے تعلق رکھتے ہیں ، بلوچ عرب قومیت سے زیادہ آرین نسل والے جال میں شاید اس لیے پھنس چکے ہیں کہ آرین مائیگریشن کی ہجرت کی کہانی کو اتنے تقویت ملی ہے کہ ایشیاء اور یورپ کی تمام قدیم قومیں خود کو آرین نسل سے منسلک کرتی ہیں۔ دوسرا اہم پہلو آرین مفروضے کو مغربی استعماری طاقتوں نے بھی پروان چڑھائے تھے۔ ان کا بھی ایجنڈا یہی تھا کہ ہم سب آرین ہے ہم ایشیاء کے آرین قوموں کو انسانی حقوق سے واقف کرکے جدید تعلیم اور تہذیب سے لیس کرکے بادشاہت سے آزادی دلا کر جمہوریت متعارف کرانے آئے ، ہٹلر نے باقاعدہ آرین تھیوری کے بنیاد پہ نازی ازم متعارف کروایا تھا اور آج سائنیٹیفک آرکیالوجی تحقیق کے بعد آرین ہجرت والا تھیوری اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے شاید بہت جلد دم توڑ دے۔


زیادہ دور کی بات نہیں ہے اگر کوئی مطالعہ پاکستان کا مطالعہ کرے وہاں بلوچستان کو ہندوستان کا صوبہ، قاضی اور جمالی کو بلوچستان کا عظیم فرزند پیش کیا گیا ہے جو پاکستان بنانے میں بلوچوں کے سیاسی رہنما تھے اور شاہ ایران کے زمانے میں مغربی بلوچستان کے آزادی پسندوں کو عراق کی مدد بھی اسی شرط پر ملی تھی کہ وہ بلوچوں کو عظیم عرب قومیت میں ضم کردے ۔اس حوالے سے پہل کرکے بلوچ سیاسی رہنما نے اپنا نام عربی طرز پر شیخ محمد بن حسن رکھا اور اس زمانے کے مصنف الحکامی کو پیسے دے کر” بلوچستان لینڈ آف عربیہ” لکھوایا۔ جس میں بلوچوں کو رسول اللہ کے چچا امیر حمزہ کی اولاد بتا کر بلوچوں کو عرب ثابت کرنے کے مختلف دلائل دیئے گئے تھے۔ دوسری طرف بلوچوں کو عرب قومیت سے باز رکھنے کرنے کے لیے شاہ ایران نے مغربی بلوچستان میں اسکولوں میں طلباء کو ایسی کتابیں پڑھانا شروع کردیں جو بلوچ نسل کو آرین کے ذریعے فارسی سے جوڑتے تھے۔ اسکولوں میں فارسی زبان پڑھاتے تھے تاکہ بلوچ طلباء بیرون ملک بلوچ آزادی پسندوں کی عرب قومیت کے فلسفے کے بجائے فارسی قومیت کے فلسفے سے متاثر ہوجائے۔جب ترکوں نے اپنے عثمانی سلطنت قائم کیا۔ ہندوستان میں ترکوں نے دہلی سلطنت قائم کیا تو عظیم ترک قومیت میں قوموں کو شامل کرنا شروع کردیئے اور بلوچوں کے حوالے سے بھی ترک قومیت کے مفروضے پیش کرنے لگے اور اس زمانے کے بلوچ حاکم قبیلے رندوں کی جدامجد اعلمش رْومی کو ترک قوم سے منسلک کردیئے تھے۔ایک محقق کی حیثیت سے میرے لیے ہر مواد پرکشش ہے ۔میں کسی بھی مواد کو مکمل طور پر مسترد نہیں کرسکتا اور مکمل طور پر مستند نہیں کہہ سکتا ۔اب میں اپنے اصل ایجنڈا مہرگڑھ کی طرف آتا ہوں جو مجھے ان تمام موادوں کے حوالے سے شک و شبات میں ڈال دیتے ہیں جو بلوچوں کو عرب ، ترک کیا آرین ظاہر کرتے ہیں۔قدیم دنیا کیسا تھی۔سلطنتیں اور شہر کہاں آباد تھے۔ دریائے کہاں سے گزرتے تھے ۔اس حوالے سے قیاس آرائیوں کے سوا کسی کے پاس کوہی مستند مواد نہیں ہے کیونکہ جدید سائینٹیفک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا میں کئی بار برفانی دور گزرے ہیں۔صدیوں تک زمین میں برف باری ہوتی رہی ہے۔ سلطنت شہر دریا نہر سب مٹ چکے تھے۔ صرف انسان اور چند جانوروں نے خودکو کسی طرح محفوظ کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔آخری برفانی کب شروع ہوا اور کتنی صدیوں تک چلتی رہی کسی کو معلوم نہیں لیکن اس پر اکثریت متفق ہے کہ آخری برفانی دور دس ہزار قبل مسیح ختم ہوا۔

برفانی دور میں زمین کا درجہ حرارت اس قدر گر گئے تھے کہ بلوچستان کے علاقے مہر گڑھ ، سندھ میں موہنجوجودڑو ، مشرق وسطی میں عراق ،افریکہ میں مصر اور چند دیگر علاقوں میں درجہ حرارت انسانی زندگی کے قابل تھی اور دس ہزار قبل مسیح جب آخری برفانی دور ختم ہوا تو اِنہی جگہوں سے انسانوں کی تہذیبیں نمودار ہونا شروع ہوگئیں۔مہرگڑھ آخری برفانی دور کے بعد بلوچوں کی عظیم سلطنت کی صورت میں نمودار ہوا۔ اس کے ثبوت مہرگڑھ سے ملنے والے اثار قدیمہ ہے جو بلوچ تہذیب و ثقافت سے منسلک ہے اور ماہرین کے مطابق مہرگڑھ آٹھ ہزار قبل مسیح کی تہذیب ہے اور برفانی دور دس ہزار قبل مسیح ختم ہوچکے تھے۔اب توجہ طلب یہ پہلو ہے کہ جب برفانی دور کے بعد نمودار ہونے والے ابتدائی انسانی تہذیبوں میں بلوچوں کی مہر گڑھ شامل ہے تو بلوچ عرب کیسے ہوگئے اور عرب اپنا جدامجد حضرت ابراھیم علیہ سلام کو مانتے ہیں۔ حضرت ابراھیم اٹھارہ سو سے دو ہزار قبل مسیح کے درمیان عراق کے شہر حْر میں پیدا ہوئے تھے۔آرین ہجرت کی تھیوری کو اگر ہم تسلیم بھی کریں تو ماہرین کے مطابق آرین ہجرت دو ہزار قبل مسیح سے لے کر سولہ سو قبل مسیح تک کے دور کی ہے اور ترک قومیت عیسی علیہ سلام کے دور کے آس پاس نموداد ہوئی تھے۔اب جب مہرگڑھ کو ماہرین آٹھ ہزار قبل مسیح کی تہذیب تسلیم کرچکے ہیں تو بلوچ کیسے عرب ، آرین یا ترک ہوسکتے ہیں۔