بلوچستان کے پاک ایران سرحد پر پیٹرول ،ڈیزل کی اسمگلنگ کے پیچھے بڑی سیاسی شخصیات، بڑے آفیسران سمیت بااثر افراد اور مافیاز کے ملوث ہونے کی بات کوئی نئی نہیں ہے ۔عرصہ دراز سے اس غیر قانونی کام کو یہ سب مل کر مشترکہ طور پر چلارہے ہیں، سرحدی علاقوں میں رہائش پذیر افراد جن کا روزگار پاک ایران سرحد سے منسلک ہے انہیں تو معمولی اشیاء لانے میںبڑی مشکلات درپیش ہوتی ہیںمگر ان کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں۔ ماضی میں کبھی یہ سہولت سرحدی علاقوں کے چھوٹے تاجروں، ٹرانسپورٹرز اور عام لوگوں کو میسر تھی جس سے وہ اپنا کاروبار چلاتے تھے جس میں پیٹرولیم مصنوعات سمیت دیگر ایرانی اشیاء شامل ہیں۔
چونکہ سرحدی علاقوں میں کوئی اور ذریعہ معاش نہیں اور نہ ہی حکومتی سطح پر سرحدی علاقوں کے عوام کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کئے گئے تاکہ ان کے گھر کا چولہا جل سکے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران ٹوکن سسٹم متعارف کرایا گیا اس میں بھی من پسندافراد اور مافیاز کو سہولت دی گئی، زمباد چلانے والے ڈرائیوروں سمیت تاجر ،عوام سب اس ٹوکن سسٹم کے خلاف سراپا احتجاج ہوئے مگر ٹوکن سسٹم چلانے والوں پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ ایک رپورٹ کے مطابق روزانہ تقریباً ایک کروڑ لیٹر ایرانی پیٹرول اور ڈیزل زمینی اور سمندری راستوں سے پاکستان میں اسمگل کیا جا رہا ہے، یہ انکشاف انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے پیٹرولیم ڈویژن کو دی گئی ۔ رپورٹ میں ایک درجن کے قریب قانون نافذ کرنے والے اداروں (ایل ای اے)، ملک بھر میں 533 غیر قانونی پیٹرول اسٹیشنوں کے مالکان ، آپریٹرز کی 100، کالی بھیڑوں اور ایرانی تیل کے 105 اسمگلروں کی مکمل شناخت، پتے اور رابطہ نمبر شامل ہیں۔ رپورٹ میں غیر رسمی سرحدی گزرگاہوں اور پاکستان بھر میں اسمگل شدہ اشیا ء کے اسمگلنگ کے راستوں کے بارے میں بھی درست معلومات موجود ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ایرانی تیل کی اسمگلنگ کی سالانہ مقدار تقریباً 2.8 ارب لیٹر ہے جس سے قومی خزانے کو کم از کم 227 ارب روپے کا سالانہ نقصان ہوتا ہے، رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اسمگل شدہ پیٹرولیم مصنوعات مکران اور رخشان ڈویژن کے غیر متواتر راستوں سے منتقل کی جارہی ہیں اور بنیادی طور پر سڑک کے کنارے غیر مجاز پٹرول آؤٹ لیٹس پر فروخت کی جارہی ہیں۔ گزشتہ حکومت کے دوران اسمگلنگ کے خلاف سخت کارروائیاں کی گئیں جس کے بعد اسمگلنگ میں بہت کمی واقع ہوئی۔
عام انتخابات کے بعد ایک بار پھر ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ میں بہت زیادہ تیزی آئی ہے یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اسمگلنگ کی روک تھام کرے مگر ساتھ ہی سرحدی علاقوں کے تاجروں، ٹرانسپورٹرز اور عام لوگوں کیلئے روزگار کے حوالے سے حکمت عملی طے کرے۔ پاک ایران سرحد کے ذریعے قانونی طور پر اگر تجارت کو وسعت دی جائے تو اس سے سرحدی علاقوں کے لوگوں کا روزگارکا مسئلہ حل ہوگا۔ ایران سے تمام اشیاء کی قانونی اجازت سے اسمگلنگ کا خاتمہ ممکن ہے اور یہ دونمبر مافیا کا غیر قانونی کاروبار بھی ختم ہو جائے گا جو بڑے پیمانے پر پیسہ بنارہے ہیں۔