پاکستان نے ترقی و پیش رفت کی جانب آگے بڑھنے اور ملک کے مفلوک الحال عوام اور محکوم اقوام کو درپیش پسماندگی اور محرومی کے مسائل اور مشکلات کو حل کر کے ان کو فرمائشی بنیادوں پر سہولیات کی فراوانی نہ سہی تو کم سے کم حد تک بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیئے جہاں سے اور جس نقطے پر مسافت کی ابتدا کی تھی، موجودہ حالات اور آثار سے صاف ظاہر ہے کہ آگے بڑھنے کی بجائے پاکستان اْلٹے قدموں معکوس سمت میں سفر پر گامزن ہے۔ اِس وقت ملک کی مجموعی انتخابی ، سیاسی اور معاشی صورتحال کو اگر دیکھا جائے تو ابتدائی دور میں مسلم لیگ ” جو عوام کے اکثریت کی تائیدوحمایت سے محروم تھی” کے لیئے دیگر جماعتوں کو برداشت کرنا ناقابلِ قبول تھی جبکہ حالیہ دور میں بھی وہی فطرت اْسی آب و تاب کے ساتھ بلکہ اْس سے بدتر شکل میں برقرار ہے۔ موجودہ غیرمْبہم صف بندی کے دور میں اگر ہم اپنی طرف سے کچھ کہیں تو ہماری نقطہ ِ نگاہ کو تعصب اور نفرت کی ترازو میں تولا جاتا ہے اس لئے ہمیں بارہا مجبوراً پنجاب سے تعلق رکھنے والے ملک کے سند یافتہ اور نمبر ون شہریوں کے موقف اور آراء کو بیان کرنا پڑتا ہے۔ ملک میں انتخابات کی شفافیت اور عدم شفافیت کے بارے میں کوئی سیاستدان یا صحافی نہیں ، جو ممکن ہے کہ انتقام کے سبب دل میں ذاتی بغض اور بھڑاس رکھتا ہو ، بلکہ ڈاکٹر اِلہان نیاز کی سوشل میڈیا پر کہے گئے گفتگو کا حوالہ دینا پڑتا ہے جو ایک پروگرام میں کہتے ہیں کہ “
ہمارے یہاں 1951ء میں پہلی دفعہ پنجاب میں انتخابات ہوئے تو اْس میں مسلم لیگ نے دبا کر انتظامیہ کے ذریعے مداخلت کی اْس الیکشن کے متعلق 1956ء کی رپورٹ بتاتی ہے کہ پچاس سے زائد حلقوں پر انتظامیہ نے مداخلت کے ذریعے مسلم لیگ کو زبردستی جتوایا “
یہ ہوئی اِس ملک میں ابتدائی انتخابات کی بات اب اگر اس دلیل یا دعویٰ کو 2024ء کی الیکشن کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے تو اِن میں اْسی مسلم لیگ کی جدید اور پنجاب کی خالص جنم مسلم لیگ شہباز گروپ کو دھاندلی کے سہارے کس حد تک جتوایا گیا ہے فارم 45 اور 47 کی کشاکش اور پھر مسلم لیگ نواز سے بچھڑے ہوئے قائدین زْبیر عمر اور دیگر سے یا پھر غیرجانبدار مْبصرین کو سنا جائے تو دھاندلی کا دعویٰ پوری سچائی کے ساتھ سامنے آ جائے گا۔ یہاں پر یہ بھی کہ ماضی کی طرح موجودہ دور میں اِس اْلجھن پر وقت ضائع کر کے اور محققین کو زحمت دے کر یا پھر شب و روز محنت کرتے ہوئے شواہد کے ساتھ رپورٹ مرتب کرنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اِن انتخابات میں دھاندلی کا اعتراف مسلم لیگ نواز کے اپنے لوگ اور وہ بھی عام کارکنان نہیں بلکہ پنجاب مسلم لیگ کے صدر رانا ثنا اللہ میڈیا پر اپنی زبان سے خود بھی اِس افسوس کے ساتھ کرتے ہیں کہ مسلم لیگ نواز کو حکومت بنانے کے لئے سادہ اکثریت تک نہیں دی گئی ۔اِس گفتگو کی گہرائی اور تِہہ میں جھانک کر دیکھا جائے تو ان باتوں سے مراد اِس سے زیادہ کیا نکل سکتا ہے کہ سادہ اکثریت حاصل کرنے کے لیئے اسٹیبلشمنٹ نے نواز لیگ کے ساتھ تعاون نہیں کیا تاکہ نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے دْور رکھا جا سکے۔ اِس کے برخلاف سوال کا مدعا عوام اور پارٹی کی جانب ہو تو عوام نے ووٹ کے ذریعے پارٹی کی کارکردگی پر اگر عدم اطمینان ظاہر کر دی ہے تو اس پر پارٹی صدر کی حیثیت سے سب سے پہلے خود رانا ثنا اللہ کو مستعفی ہو جانا چاہیئے لیکن اْن کے کینچی نما زبان پر تالا ڈالنے کے لیئے اْن کو تو مشیر بنا دیا گیا ہے ۔ حالیہ انتخابات کے خوفناک نتائج پر مسلم لیگ نواز کی خفگی اور برہمی کے ساتھ ساتھ اِس ملک میں کوئی ایک جماعت بھی خوش نہیں ہے بلکہ تمام پارٹیاں یہاں تک کہ صدر زرداری کی پارٹی پی پی کے بھی اعتراضات ہیں کہ موسم کے سبب کراچی اور حیدر آباد میں فرشتوں نے ایم کیو ایم پر ابرِ کرم حد سے کچھ زیادہ برسائی ہے۔، انتخابی نتائج پر محاذ آرائیوں کے ساتھ ساتھ ملک کے سیاسی ، معاشی اور قانونی پیچیدگیاں حل ہوں اور ملک متوازن شکل میں آگے بڑھے اِس قسم کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آتے۔
بلوچستان میں بلوچ قائدین سردار اختر مینگل اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ یہاں تک کہ ” کیک والے ” محمود خان اچکزئی سمیت دیگر تمام قائدین کے بھی تحفظات ہیں ۔بلوچستان کے بلوچ قائدین برملا اور برحق کہتے ہیں کہ عام حالات میں پی ٹی آئی ، پی پی اور مسلم لیگ نواز یا مسلم لیگ شہباز بلوچستان میں وجود نہیں رکھتے ، یہ بھی کہ بلوچ باشندے مریں یا جیئیں، اِن پارٹیوں کے لیئے دردِ سر نہیں ہے پھر یہ بھی کہ موجودہ دور کی مناسبت سے ان پارٹیوں کی ہیئت اور قیادت کو حقائق کی بنیاد پر دیکھا جائے تو مذکورہ پارٹیاں بلوچستان اور بلوچ قوم کی بجائے پنجاب ، سندھ اور خیبر پختون خواہ کی نمائندگی کرتی ہیں لیکن انتخابات کے دوران حسبِ روایت بلوچ الیکٹیبلز سے وصولیاں کر کے تقسیم کاری کے طے شدہ فارمولے کے تحت لوگوں کو اْن بدیسی پارٹیوں میں شامل کرتے ہوئے زبردستی جتوایا جاتا ہے جن کے” حصولِ اقتدار سے آگے ” دْور رس اہداف اور مقاصد میں بلوچستان سرے سے شامل ہی نہیں ہے تاکہ بلوچستان کے سوال پر بلوچ قوم کے قدرے معتدل موقف رکھنے والی پارٹیوں کے نمائندوں کو ،، جو ابتک مروجہ نظام اور پنجاب کے حکمرانوں سے مایوس نہیں ہیں اور ملک کے اندر بلوچ سوال کے حل کی خاطر کوشاں ہیں ،، غالب اکثریت کے ساتھ بلوچستان اور ملک کے ایوانوں تک رسائی سے روکا جا سکے جو مقتدرہ کے خیال میں بلوچ قوم اور بلوچستان کو درپیش مسائل پر بہت زیادہ اور اِس قدر فضول بولتے بلکہ بَکتے ہیں جس سے کہ سر میں درد پیدا ہوجائے۔ بلوچ قائدین کے لیئے مقتدرہ کے ردعمل اور سر درد کو سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہیئے اِس کے برعکس اْن کو جان لینا چاہیئے کہ مقتدرہ کو بلوچستان کی نمائندگی کے لیئے اْن پارٹیز کے نمائندوں کی ضرورت ہی نہیں ہے جن کی جڑیں کم یا زیادہ بلوچ قوم کے اندر پیوست ہوں اور جو بلوچ قوم کے سامنے جوابدہ ہوں یا پھر سنجیدگی کے ساتھ بلوچ سوال کے حل کے درپے ہوں ۔اِس ملک میں کسی اْلجھن کے سْلجھاؤ پر مقتدرہ نے کب سنجیدگی دکھائی ہے کہ بلوچ قائدین اور نمائندے اِس روش پر افسْردہ یا غمزدہ ہوں۔ ملک کے اتنے مسائل اور پیچیدگیاں ہیں کہ نامور صحافی سہیل وڑائچ نے اس کا نام ہی تضادستان رکھ دیا ہے لہٰذا بلوچ قائدین دلائل اور حقائق کی معروضیت سے ملک کے حکمرانوں کو سمجھا سکیں، ممکن ہی نہیں ہے، اِس قسم کی کوششوں سے قائدین خود اپنا ہی نقصان کریں گے ۔ یہاں پر مجھے پْشتون صحافی رفیع اللہ کا سوشل میڈیا میں ایک طویل انٹرویو یاد آ رہا ہے جس میں وہ 1973ء کے دور میں پی پی کے بانی قائد مسٹر بھٹو کی روش پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بھٹو آئین کی منظوری تک درپردہ میر غوث بخش کو تسلی دیتے رہے کہ وفاق اور بلوچستان کے درمیان موجود جھگڑے کو آئین کی منظوری کے ساتھ ہی حل کیا جائیگا مگر ہوا یہ کہ جس دن آئین منظور ہو جاتا ہے مسٹر بھٹّو وقت ضائع کئے بغیر اْسی رات کو نیپ میں شامل تمام بلوچ قائدین کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیتے ہیں ۔آگے چل کر وہ کہتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق فطرت کے لحاظ سے خوش آمدی قسم کا انسان رہا ہے، جنرل ضیاء مارشل لاء لگانے کے فوراً بعد سہالا ریسٹ ہاؤس میں ” جس کو جیل کی حیثیت دے دی گئی تھی اور جہاں پر یہ لوگ بند تھے” بھٹو سے ملاقات کر کے خوش آمدانہ انداز سے کہتے ہیں کہ سر آپ بے فکر رہیں ہمارے ارادے لمبے نہیں ہیں ، اِس مسئلے کو بہت جلد حل کیا جائے گا، آپ رہنمائی کریں اور تجاویز دیں ہم ساٹھ یا نوے دنوں کے اندر اندر الیکشن کروا دیں گے، اس سے آگے وہ کہتے ہیں کہ بھٹو نے جنرل ضیا کو جو تجاویز دیں، اْن میں سرفہرست تجویز یہی تھی کہ آپ نے نیپ کے بلوچ قائدین کو کسی بھی صورت میں رہا نہیں کرنا ہے نہ ہی حیدرآباد سازش کیس کو ختم کرنا ہے۔ رفیع اللہ کہتے ہیں کہ آئین پاس کروانے کے سبب میر غوث بخش بیزنجو سے بلوچ قائدین اتنے خفا ہو گئے تھے اور اْن کو اس قدر نقصان ہوا کہ بعد میں میر غوث بخش بیزنجو کو ان کے شاگردوں نے ہی شکست سے دوچار کروایا ۔رفیع اللہ آگے چل کر کہتے ہیں نیپ چونکہ سندھ اور پنجاب میں وجود نہیں رکھتی تھی جو پی پی کی وفاقی اقتدار کے لیئے خطرہ ثابت ہو سکتی، یہ بھی کہ نیپ کے نظریات باقی پارٹیوں کی نسبت پی پی سے قریب تر تھے اس لیئے بھٹو نے نیپ کے ساتھ جو کچھ کیا وہ سب ناقابلِ فہم و یقین ہے کہ ایک سیاستدان اس حد تک کیسے جا سکتا ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ اِن نازْک حالات کی مناسبت سے بلوچ قیادت کے لیئے سب سے بہتر حکمتِ عملی یہی ہو سکتی ہے کہ وہ ماضی کے اِن تلخ تجربات سے سیکھ کر آگے بڑھیں تاکہ ماضی خود کو دْہرا نہ دے۔ بلوچ قیادت پر لازم ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر کے ، یہ بھی کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ساتھ مل کر بلوچستان اور بلوچ قوم کو درپیش مسائل پر پْرامن جدوجہد کریں۔